میری بیوی کی بڑی بہن نصف صدی سے برطانیہ میں رہتی ہیں. وہ یہاں بیمار ہوگئیں. ان کے کزن ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ ہسپتال داخل کرانا بہتر ہے.
میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی. ساتھ نہیں جاسکتا تھا. میری بیوی سمجھ دار ہے، ڈگری کالج کی پرنسپل رہی ہے. پھر بھی یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے میڈیا کے شعبے کے انچارج کو فون کردیا کہ یہ پہنچیں تو رہنمائی کردینا کہ شیخ زائد میں جانا کہاں ہے. ان پر مان یہ تھا کہ وہ ایک تو میرے شہر کے تھے، جہاں کے سب بزرگ گریجویٹ میرے سسر کے شاگرد رہے اور چونکہ خود انہوں نے روزنامہ جنگ سے آغاز کیا تھا.
کئی بار مجھے بھی استاد قرار دیا.
انہوں نے فرمایا کہ ہسپتال تو اب وفاق کے پاس ہے اور یونیورسٹی صوبے کے پاس، ان پر ہماری اتھارٹی نہیں چلتی. میں نے عرض کیا، ہمیں کسی رعایت یا ریڈ کارپٹ استقبال کی ضرورت نہیں، آپ کا چپڑاسی بھی متعلقہ شعبے میں پہنچا آئے تو کافی ہے.
انہوں نے مرکز اور وفاق کے چکر میں خود تو کوئی ذمہ داری نہ لی لیکن یہ مہربانی کی کہ ہسپتال کے میڈیا انچارج زائد سے کہہ دیا. میری بھی ان سے بات ہوگئی. انہوں نے وعدہ کیا کہ رہنمائی کریں گے.
اب پہلے اچھا تجربہ>>>
بچے نے پہلے الخدمت کی ایمبولینس کیلئے فون کیا، انہوں نے مختلف نمبر دے کر ٹرخا دیا. کوئی نہ آیا.
پھر 1122 کو فون کیا. وہ پانچ سات منٹ میں پہنچ گئے. ان کی ذمہ داری، ہمدردی اور خدمت سے ہماری برٹش نیشنل بہن بھی حیران رہ گئیں، ان نوجوانوں نے میرے جوان بیٹے کو بھی ہاتھ نہیں بٹانے دیا. راستے میں بھی طبیعت اور گیس ماسک وغیرہ کی ضرورت کا بار بار پوچھتے رہے.
مزید حیرت تب ہوئی جب ان ورکرز نے باجی کو 🚑 سے اتار کر وہیل چئیر پر بٹھایا اور کسی شکرانے کا موقع دئیے بغیر ایک لمحے میں اگلے مشن پر روانہ ہوگئے💐❤️ 1122 کے فرض شناس کارکنوں کو سلام🙏
بہت دکھ اور شرمندگی تب ہوئی جب میری بیوی اور بیٹا مریضہ سمیت ڈیڑھ گھنٹہ ان زائد صاحب اور ہمارے وطنی شاگرد عاطف میاں کو کالز کرتے رہے. کسی نے نہیں سنی.
اٹینڈ کرنے کا کام وہ اپنے کسی peon کے ذمے بھی لگا سکتے تھے. انہیں پہلے ہی بتادیا تھا کہ کوئی فیور نہیں چاہیے، ہسپتال پہلے نہیں دیکھا ہوا، بس بتادینا کہ جانا کس طرف ہے.
وہاں صورت حال یہ تھی کہ کوئی نرس ایک طرف جانے کا اشارہ کرتی تو کوئی دوسری طرف. جس شخص کو ڈاکٹر بتا کر اس کے پاس بھیجا، وہ خود کسی مریض کا پریشان حال عزیز نکلا.
بالآخر تنگ آکر انہوں نے ٹیکسی پر ایک نجی ہسپتال کا رخ کیا، وہاں حسب دستور ہاتھوں ہاتھ لیا گیا💐
عاطف میاں کے بارے میں، میں نے بڑے مان سے بیوی کو بتایا تھا کہ بہاولپوری عزیز ہے. بتاتے ہیں کہ ان کے بڑے تمہارے والد کے شاگرد رہے.
ہم دونوں کو یہ بھی یاد تھا کہ بھائی جنرل ہسپتال داخل ہوا تو وہاں ایک ناواقف ڈاکٹر یاسین نے صرف ایڈریس اور نام پڑھ کر پوچھا، پروفیسر صاحب کے کیا لگتے ہیں؟ (وہ بھی بہاولپور کا تھا) بیٹا بتانے پر، اس نے چارج سنبھال لیا اور کہا، آپ سب جائیں… میں جو یہاں موجود ہوں💐
میں 45 سال سے صحافت میں ہوں. لاہور کے دو اے کلاس اخباروں میں رہا ہوں. ہر اخباری دفتر میں جونئیر عزیز موجود ہیں. کئی وسیلے ڈھونڈ سکتا تھا، ایڈمن اور ہیڈز کے بھی. کئی جونیئر اتنے مودب ہیں کہ گھر سے لینے آجاتے لیکن عاطف کی وہاں موجودگی کا سوچ کر کسی سے ذکر ہی نہیں کیا. ضرورت ہی نہیں سمجھی. کوئی رعایت نہیں چاہتے تھے. عام مریض کی طرح کمرے کی ادائیگی کرنی تھی. مریضہ کو پیسے بچانے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی. لندن واپسی کا ٹکٹ ضائع کردیا، ریفنڈ کیلئے بھی نہیں کہا، 5 لاکھ روپے علاج کیلئے ہمیں پکڑادئیے تھے✅
اب یقین مانیے، یہی عاطف میاں مجھے فون کرکے دی نیوز، روزنامہ آواز، جیو بلکہ کسی اور ریڈیو، ٹی وی، اخبار کے بارے میں کچھ کہتے تو میں یہ نہ کہتا کہ وہ تو دوسرا ادارہ ہے، ضرور کوئی وسیلہ ڈھونڈتا. بلکہ وہ کہتے کہ دیکھیں آپ کے دفتر کے سامنے گورمے بیکری کھلی ہے تو کسی سے پچھواتا نہیں، خود تصدیق کرکے بتاتا کہ اتنی دور سے پوچھا ہے تو ضرور اہم بات ہوگی✅
عامر خاکوانی اب نامور صحافی ہیں. انہیں تو نہیں بھولا اور ہر جگہ لکھتے اور بتاتے بھی ہیں کہ پہلے دن اخبار کے دفتر میں بیٹھا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا تو کسی نے آکر کاغذ پکڑائے تھے اور بتایا تھا کہ اب کرنا کیا ہے❤️
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...