پاکستان اور بنگلہ دیش نے اپنی تاریخ کا ایک حصہ ایک ہی ملک کے طور پر گزارا ہے۔ ان کی تاریخ کا ایک وہ ورژن ہے جو دونوں ممالک کی اپنی لکھی کتابوں میں ملتا ہے لیکن اس سے باہر اور بہت کچھ جاننے کو ہے جو کہیں پر بھی نہیں ملتا۔ باقی سب کچھ چھوڑ کر اسے آپسی رابطوں کی نظر سے۔
پاکستان اور بنگلہ دیش آبادی کے حساب سے بہت بڑے ممالک ہیں اور اتنی بڑی آبادی اور مشترکہ تاریخ ہونے کے باوجود ان کے درمیان فضائی رابطہ اس قدر کم ہے کہ صرف کراچی سے ڈھاکہ کا روٹ کھلا ہے اور اس پر بھی ہفتے میں صرف دو پروازیں جاتی ہیں۔ ایسا کیوں؟ اس کے لئے ڈھاکہ سے پاکستان آنے والے ایک مسافر کا حال جانتے ہیں۔
اس کی مشکلات کی ابتدا ویزے سے ہوئی۔ اس کے لئے پاکستان کے ویزے کا حصول امریکہ، برطانیہ یا سوئٹزرلینڈ کے ویزے سے کہیں زیادہ مشکل تھا۔ درخواست دینے کے لئے پہلے کسی پاکستانی شہری کی شخصی ضمانت چاہیۓ تھی اور اس کی تفصیلات آئی ڈی کارڈ سمیت ویزہ درخواست کے ساتھ جمع کروانی تھیں۔ یہ درخواست دینے کے بعد تین سے چار ماہ لگیں گے۔ اس دوران میں جس پاکستانی شہری نے یہ شخصی ضمانت دی تھی، اس سے پوچھ گچھ بھی ہو گی۔ ویزہ کی درخواست مسترد ہو جانے کی شرح زیادہ ہے۔
ویزہ لگنے کے بعد جب یہ سیاح پاکستان پہنچا تو چوبیس گھنٹے کے اندر اس کو پاکستانی پولیس تھانے میں حاضری دینا ہے۔ اس دوران تصاویر لی جائیں گی اور رہائش کے ثبوت کے لئے کچھ ڈاکومنٹ جمع کروانے ہیں۔ جن شہروں میں ویزے کی اجازت کا اندراج ہوا تھا، اس سے باہر کہیں جانے کی اجازت نہیں۔ کسی بھی شہر کے کینٹ کے علاقے میں داخل ہونا منع ہے۔
جب سفر کے بعد واپس جانے کا وقت ہوا تو پھر ایک بار پولیس میں رپورٹ کرنا ہے۔ پولیس تفتیش کرے گی کہ اس دوران جس جگہ پر وہ ٹھہرا تھا، پورا وقت وہیں پر رہا۔ جب تک یہ اجازت نہیں مل جاتی، ملک چھوڑنا منع ہے اور اجازت ملنے کے بعد چوبیس گھنٹے کے اندر اندر چھوڑنا ضروری، ورنہ یہ اجازت دوبارہ لینا پڑے گی۔
بنگلہ دیشی شہریوں کے لئے یہ شرائط 1974 سے اسی طرح ہیں۔
بنگلہ دیشی شہری کے لئے پاکستانی ویزہ کی شرائط اور پراسسنگ کا وقت
پولیس رپورٹنگ کی شرط پاکستان کی وزارتِ داخلہ کی ویب سائٹ سے