یہ نظم تاریخ اور دوسرے پر نہیں اترتی ہے ۔ اس لیے اس کی صداقت مشکوک ہے ۔ تاہم اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں مشرقی بلوچوں میں پھیلی ہوئی روایتوں کو پیش کیا گیا ۔ اس بہت سے قبائل جن کے نام پیش کئے گئے ہیں مغربی اور ایرانی بلوچستان میں نام تک ملتا ہے ۔ اس طرح اس میں بہت سے نام ہند آریائی ہیں جو کہ ایرانی میں استعمال نہیں ہوتے ہیں مثلاً کھوسہ ۔ لہذا اس پر ایک تفصیلی بحث کی ضرورت ہے جسے آئندہ پیش کرتا رہوں گا ۔
یہ نظم سو سے کچھ کم مصروں پر مشتمل ہے اور ہر پانچویں مصرے میں یہ کہا گیا ہے کہ بلوچ حضرت علی کے ماننے والے ہیں اور حضرت امیر حمزہ کی اولاد ہیں جو حضور صلعم کے چچا تھے ۔ اس نظم کے مطابق ان کا اصل وطن حلب جو ملک شام میں ہے ۔ اس میں مزید یہ ہے کہ یذید سے سات جنگیں لڑیں ۔ کیوں کہ وہ حضرت امام حسینؓ کے طرف دار تھے ۔
بلوچی نظم کا ترجمہ
شکر اللہ کا کرتا ہوں اور اسی کی حمد بیان کرتا ہوں
وہی اس جہاں کا مالک ہے
یہ دنیا خاک و مٹی ہوجائے گی
صرف اللہ کا نام رہے گا
ہم حضرت علی کے مرید ہیں
ہمارا دین اور ایمان محفوظ اور مظبوط ہے
ہم بلوچ پاک نبی کی امت ہیں
جو جہاں کا والی ہے
ہم بلوچ امیر حمزہ کی اولاد ہیں
اور فتح ہمارے نصیب میں آئی
ہم ملک حلب سے آئے ہیں
یزید سے ہماری جنگیں رہی ہیں
واقعہ کربلا کے بعد ہم بامپو (بھمبور) پہنچے
اور وہاں سے ہماری اگلی منزل سیتان تھا
جہاں کا باچشاہ شمس الدین تھا
جب بدر الدین تخت پر بیٹھا
اس نے اچانک دشمنی مول لی
ہم تمام بلوچوں کا سردار میر جلال ھان تھا
جس کے ماتحت ۲۴ قبیلے تھے
ہم سیستان سے کوچ کرکے حارین بند گاہ پہنچے
جو علاقہ کیچ کے دائیں طرف واقعہ ہے
قبیلہ ہوت مکران میں جابسا
قبیلہ کھوسہ کیچ کے علاقہ میں
ہوت اور کورائی قبیلے اکھٹے رہتے ہیں
یہ دونوں لاشاریوں میں شامل ہیں
دریشک ، ہوت ، مزاری
یہ رند قبیلے میں شامل ہیں
رند اور لاشاریوں نے مقبوضہ علاقہ کو آپس میں تقسیم کرکے حد بندی کرلی
ڈومبکی کا گھرانہ
علاقہ گاج کے نہری علاقہ پر قابض ہے
چانڈیہ بھی حلب سے آئے ہیں
اور کلامتی قبیلہ کے قریب آباد ہیں
قبیلہ نوج تلی میں بس گیا
اور جتکانی اس کے قریب کے علاقوں میں
قبیلہ پژ ، میر عالی اور جتوئی
یہ سب سبی اور ڈھاڈر پر قابض ہیں
نسلاً پژ رند ہیں
اور ان کا سردار میر چاکر ہے
قبیلہ گولہ ، گوپانگ اور دشتی
یہ تینوں رندوں کی برادری سے باہر ہیں
گورگیژ قبیلہ کی دولت مندی مشہور ہے
اور اس کے افراد تلی کے علاقہ میں بس گئے
دیگر بلوچ کثیر تعداد ہیں
جو رندوں میں شامل ہوتے ہیں
رند علاقہ شوران میں بسے
اور لاشاری گنداوا پر قابض ہیں
انہوں نے ( رندوں اور لاشاریوں نے) نہری زمین آپس میں باٹ لیں
اور تمام بلوچوں کا سردار میر شہک ہے
میر یہ بیان تاریخی شواہد پر مبنیٰ ہے
اور یہی بلوچوں کی تاریخ ہے
پورے تیس سال رند اور لاشاری آپس میں لڑتے رہے
یہ بلوچی ضد و انتقام کا نتیجہ ہے
چالیس ہزار نوجوان میر چاکر کے حکم کے تابع تھے
یہ ایک ہی نسل (رند) سے ہیں
ان ے سر اور ہاتھ لوہے کے خولوں سے ڈھکے رہتے ہیں
ان کے خنجر چاندی کے بنے ہوتے ہیں
اور ہاتھوں میں سونے کی انگھوٹھیاں پڑی رہتی ہیں
ان میں گبر ، گہرام ، رامین
اور فیاض نوز بندغ شامل ہیں
ان میں قبیلہ پھر کا حاضر دماغ جاڑو
خدا پرست ہے
تلوار کے دھنی پیرو شاہ ، بجار ، ریحان
اور میر ہان رند شامل ہیں
صوبھا ، میھان ، علی
جام ، سہاک اور علن
ھیبتان ، بیورغ رند
اور میر حسن اور ابراہیم رندوں کی نامور شخصیتیں ہیں
اس شاعر نے جو شاعری کی ہے
اس کی صداقت کا مصنف میر جلال ھان ہے