بدقسمتی سے بلوچ سماج اور معاشرے میں عورت کی تعلیم کے حصول کو معیوب فعل سمجھا جاتا ہے جبکہ بلوچ عورت کا صحافی اور شاعرہ ہونا اس سے بھی زیادہ معیوب سمجھا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں آج تک صرف 2 خواتین ہی صحافی بن سکی ہیں ایک نرگس بلوچ صاحبہ اور دوسری شاہینہ شاہین بلوچ صاحبہ۔ نرگس بلوچ اس حوالے سے بہت خوش قسمت ہیں کہ وہ صحافت کے شعبے سے وابستہ ہو کر حاسدین کے شر سے محفوظ رہ چکی ہیں ۔ نرگس بلوچ گزشتہ 30 سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔ ان کو بلوچستان کے ایک کثیر الاشاعت اخبار روزنامہ انتخاب کی ایڈیٹر اور بلوچستان کے صنعتی شہر حب کے پریس کلب کی صدر رہنے کا بھی اعزاز حاصل رہا ہے ۔ نرگس نے اپنی ایک بیٹی مہوش بلوچ کو برطانیہ اور امریکہ سے وکالت کی اعلی تعلیم سے بہرہ مند کیا ہے ۔ اس کے برعکس تربت سے تعلق رکھنے والی بلوچ عورت صحافی شاہینہ شاہین صاحبہ صحافت کے شعبے سے وابستہ ہو کر اپنی صحافتی خدمات انجام دے رہی تھیں کہ ان کو اپنے محبوب شوہر نوابزادہ محراب گچکی کے ہاتھوں قتل ہونا پڑا ۔
شاہینہ شاہین بلوچ اور محراب گچکی نے 6 ماہ پہلے ایک دوسرے کی محبت کی شادی کی ۔ یہ دونوں کی دوسری شادی تھی ۔ جو کہ کامیاب نہیں ہو سکی اور مختصر عرصے میں اس کا افسوسناک انجام ہوا ۔ شاہینہ بلوچ کا قتل ،قتل کی دیگر وارداتوں سے بہت مختلف اور منفرد ہے۔ ایسا کبھی ہماری دید اور شنید میں نہیں آیا کہ کسی نے کسی کو قتل کرنا چاہا اور پھر اس کو بچانے کی کوشش بھی کی ہو مگر شاہینہ کے محبوب قاتل نے ایسا ہی کیا ۔ محراب گچکی نے 4 ستمبر 2020 کو کراچی میں اپنی محبوبہ بیوی کو فائر کیا اور شدید زخمی کرنے کے بعد اسے بچانے کی غرض سے گاڑی میں سوار کر کے ہسپتال پہنچایا مگر شدید زخمی ہونے اور زیادہ خون بہہ جانے کے باعث شاہینہ بلوچ موت سے ہمکنار ہو گئی ۔ شاہینہ کا یہ ہمدر اور محبوب قاتل تاحال پولیس اور قانون کی گرفت سے باہر ہے ۔ اس سے تھوڑا سا مختلف قتل کا واقعہ 2 سال قبل کراچی میں ہی ہوا تھا اور وہاں بھی اپنے محبوب شوہر نے اپنی محبوبہ بیوی کو فائر کر کے قتل کر دیا تھا لیکن اس کے بعد اپنی زندگی کا بھی خاتمہ کر دیا ۔ یہ یکم فروری 2018 کا واقعہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سندھ کے صوبائی وزیر اور بلوچ سردار میر ہزار خان بجارانی نے اپنی محبوبہ بیوی فریحہ رزاق کو فائر کر کے قتل کر دیا اور پھر اپنے آپ کو بھی فائر کر کے ختم کر دیا ۔ میر ہزار خان بجارانی اور فریحہ رزاق نے بھی ایک دوسرے کے ساتھ محبت کی شادی کی تھی اور ان دونوں کی یہ دوسری شادی تھی جبکہ فریحہ رزاق بھی ایک جرنلسٹ تھی اور وہ صوبائی اسمبلی کی رکن یعنی ایم پی اے بھی رہ چکی تھی ۔ خواتین کا اپنے محبوب کے ہاتھوں قتل ہونا کوئی نئی بات تو نہیں ہے لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ محبوب اپنی محبوبہ کو قتل کرنے کے بعد اپنی زندگی کا بھی خاتمہ کرتا ہو ایسے محبوب قاتلوں کی فہرست میں دنیا کے مشہور ڈکٹیٹر اور ظالم حکمران جرمنی کے ہٹلر بھی شامل ہیں جنہوں نے دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد دشمن کی قید میں جا کر رسوا ہونے سے بچنے کے لیے خودکشی کر لی لیکن اپنے خاتمے سے پہلے انہوں نے اپنی محبوبہ بیوی ایوا برائون کو قتل کر دیا تاکہ وہ کسی اور کی دسترس یا رفاقت میں نہ جا سکے ۔ اس طرح کے ہمدرد قاتلوں کی سوچ بھی بڑی عجیب ہوتی ہے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...