تیاری وہ پوری کرکے گیا تھا۔ جیسے ہی موذن نے لائوڈ سپیکر کا بٹن آن کیا، وہ اس کے پاس پہنچ گیا۔
’’کیا کررہے ہیں؟‘‘
’’ اذان دینے لگا ہوں۔‘‘ موذن نے حیرت اور پریشانی سے جواب دیا۔’’ آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘
’’ یہ میں بعد میں بتائوں گا کیوں پوچھ رہا ہوں۔ آپ پہلے بتائیے کہ کس وقت کی اذان دینے لگے ہیں۔‘‘
’’ ظہر کی‘‘
’’کیسے معلوم ہوا کہ ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا ہے؟‘‘
موذن اب حیرت کے ساتھ غصے میں بھی تھا۔
’’ بھائی!سامنے دیوار پر کیلنڈر لگا ہے۔ اس میں پورے سال کی نمازوں کے اوقات درج ہیں۔‘‘
پھر موذن دیوارکے پاس گیا۔ اس نے باریک چھپے ہوئے گنجان کیلنڈر پر ایک جگہ انگلی رکھی۔
’’ یہ دیکھو، آج کی تاریخ اور ظہر کا وقت! اور پھر گھڑی کی طرف دیکھو!‘‘
’’ کیا فقہ کی کتابوں میں اس کیلنڈر اور گھڑی کا ذکر ہے؟‘‘
اس احمقانہ سوال کا موذن کیا جواب دیتا۔ موذن نے مائک ایڈجسٹ کیا اور اذان دینے کے لیے کھڑا ہوگیا۔ لیکن اس نے پھرتی سے لائوڈ سپیکر والا سوئچ آف کردیا۔
’’ میں اذان نہیں ہونے دوں گا۔‘‘
اس کی آواز خوفناک ہوگئی تھی۔’’ تم نے اذان دینے کی کوشش کی تو میں مار مار کر تمہارا بھرکس نکال دوں گا‘‘
موذن عمر رسیدہ تھا اور نسبتاً نحیف بھی۔اس نے موٹے تازے مشٹنڈے کی طرف دیکھا اور دل میں فیصلہ کرلیا کہ جب تک میں مسجد کے ہال میں اکیلا ہوں اذان نہیں دوں گا۔ یہ شخص پاگل ہے کچھ بھی کرسکتا ہے۔
لیکن اذان تو دینا تھی۔ وہ نمازیوں کو اور مولوی صاحب کو کیا جواب دیتا۔ اس نے مناسب سمجھا کہ مولوی صاحب کو بتادے۔ حجرے پر دستک دی۔ مولوی صاحب نکلے تو بتایا کہ ایک جنونی آڑے آرہا ہے۔
مولوی صاحب نے اس سے پوچھا کہ بھائی تمہارا مسئلہ کیا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ آپ شریعت کی کسی کتاب میں کیلنڈر یا گھڑی کا ذکر دکھا دیجیے۔
مولوی صاحب نے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’بھائی ! ہم اس مسجد میں کوئی انوکھا کام تو نہیں کررہے۔ پورے ملک میں یہی سسٹم ہے بلکہ پورے عالم اسلام میں نماز کے اوقات کا تعین کیلنڈر اور گھڑیوں ہی سے ہورہا ہے۔‘‘
اس نے تھیلے سے فقہ کی کتاب نکالی اور مولوی صاحب سے کہا …مولانا! سنیے، ظہر کی نماز کے تعین کا شرعی طریقہ۔ پھر اس نے پڑھنا شروع کیا:
’’ نماز کا وقت معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی کھلی اور ہموار زمین میں زوال سے پہلے ایک لکڑی گاڑ دی جائے۔ اس لکڑی کا سایہ آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہوجائے گا۔ یہاں تک کہ زوال کے وقت کم سے کم رہ جائے گا۔ اس سائے کو ناپ لیاجائے جب یہ سایہ بڑھنا شروع ہوتو وہ اس بات کی علامت ہوگا کہ زوال ہوگیا۔ پھر جب یہ سایہ اس قدر بڑھ جائے کہ لکڑی کے برابر ہوجائے(زوال کے وقت لکڑی کا اپنا سایہ اس سے وضع کرنے کے بعد) تو ایک مثل وقت ہوجائے گا اور جب دوگنا ہوجائے تو دو مثل وقت ہوجائے ۔‘‘
پھر اس نے تھیلے سے لکڑی نکالی مولوی صاحب کو دی اور کہا …’’ حضرت ! اسے زمین میں گاڑیے اور اس کا سایہ ناپیے!‘‘
مولوی صاحب قدر ے نرم پڑگئے۔ اس کے کندھے پر دست شفقت رکھا…’’ نوجوان! بات تمہاری صحیح ہے۔ لیکن سمجھنے کا نکتہ یہ ہے کہ یہ اوقات جو کیلنڈر میں پورے سال کے دیے گئے ہیں ، یہ اسی شرعی طریقے کی مناسبت سے دیے گئے ہیں۔ اگر ہم لکڑی گاڑ کر وقت کا تعین کریں تو نتیجہ وہی نکلے گا جو کیلنڈر میں پہلے سے پورے سال کی نمازوں کے حوالے سے درج کردیاگیا ہے۔‘‘
اس نے مولوی صاحب کی بات سے اتفاق کیا۔ اذان ہوئی، نماز پڑھی اور چلاآیا۔
اس واقعہ کے چند ہفتے بعد رمضان المبارک کا مہینہ آگیا۔ ایک دن اس نے سحری جلدی جلدی کھائی اور مسجد پہنچ گیا۔ وہاں اور کوئی بھی نہ تھا۔ سحری کا وقت ختم ہوگیا۔ موذن مسجد کے ہال میں داخل ہوا اور ادھر ادھر دیکھے بغیر ، جلد جلد قدم اٹھاتا، لائوڈ سپیکر کا سوئچ آن کرکے مائک ایڈجسٹ کرہی رہا تھا کہ وہ کونے سے اٹھا اور سوئچ آف کردیا۔ موذن نے اسے دیکھا اور پہلے ٹھٹکا لیکن پھر پہچان گیا… ’’ تم پھر آگئے‘‘!
’’ ہاں ! میں پھر آگیا ہوں۔ تاکہ تم لوگوں کے روزے نہ خراب کرتے پھرو۔ اذان نہیں دینے دوں گا۔‘‘
اس بار موذن نے اس سے کچھ حیل و حجت نہ کی۔ سیدھا حجرے کا رخ کیا۔ دستک دی۔ مولوی صاحب خلال کرتے نکلے اور اسے دیکھتے ہی کہنے لگے
’’ اذان ابھی تک نہیں دی۔ دو منٹ اوپر ہوگئے ہیں‘‘
موذن نے روداد سنائی۔ مولوی صاحب منہ ہی منہ میں کچھ کہتے اس کے ساتھ چل دیے۔ نوجوان سے کہا …’’ ہاں ! بھائی ، اب کیا مسئلہ ہے ؟‘‘
’’ حضرت ! آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ سحری کا وقت ختم ہوگیا ہے؟‘‘
مولوی صاحب نے تنک کر کہا ’’میں تمہیں جواب دینے کا پابند نہیں ہوں۔ تمہارا ذہنی توازن خراب لگ رہا ہے۔ وہ سامنے رمضان کے پورے مہینے کا نظام الاوقات لگا ہے‘ اس پر آج کی تاریخ کا وقت دیکھ لو اور پھر گھڑی دیکھو !…‘‘
’’ مولانا !فقہ کی کس کتاب میں اس نظام الاوقات کا ذکر ہے؟ کیا آپ نے کلام پاک میں دیے گئے طریقے پر عمل کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے سورہ البقرہ کی آیت 187میں ارشاد فرمایا … ’’ تم کھائو اور پیو یہاں تک کہ تمہارے لیے رات کے سیاہ دھاگے سے صبح کا سفید دھاگا نمایاں ہوجائے ‘‘۔بجائے اس کے کہ آپ چھت پر جاکر مشرقی افق کو دیکھتے کہ سفیدی اور سیاہی الگ الگ ہوئی ہیں یا نہیں، آپ حجرے میں بیٹھے خلال کررہے ہیں اور اذان دلوا رہے ہیں۔ آپ میں خدا کا خوف نہیں !‘‘
آخری بات سن کر مولوی صاحب غصے میں آگئے، ’’ تم مجھ پر الزام لگا رہے ہو، میں ہمیشہ صحیح وقت پر سحری ختم ہونے کااعلان کرتا ہوں اور یہ جو تم چھت پر جاکر سفیدی اور سیاہی دیکھنے کی بات کررہے ہو تو بے وقوف ! رمضان کا یہ نظام الاوقات جو سامنے دیوار پر لگا ہے، اسی سفیدی کے نمایاں ہونے کے مطابق بنایاگیا ہے۔ کون ہے جو اس زمانے میں چھت پر چڑھ کر افق کی سفیدی دیکھ کر ، سحری بند کرتا ہے۔‘‘
’’مولانا ! اگر آپ پورے رمضان کا پہلے سے تیار شدہ نظام الاوقات دیکھ کر روزہ افطار بھی کرسکتے ہیں اور بند بھی کرسکتے ہیں اگر آپ دھوپ میں لکڑی گاڑ کر اس کا سایہ ناپنے کے بجائے اپنے ٹھنڈے حجرے میں بیٹھے بیٹھے پورے سال کا پہلے سے تیار کردہ نظام الاوقات دیکھ کر نمازیں بھی پڑھا رہے ہیں تو یہ نظام الاوقات ، یہ کیلنڈر، عید کے دن کا تعین کرنے کے لیے کیوں نہیں بروئے کار لاتے ؟ آپ نماز کا وقت معلوم کرنے کے لیے زمین میں لکڑی نہیں گاڑتے ، آپ روزہ بند کرنے کے لیے چھت پر چڑھ کر افق کو نہیں دیکھتے لیکن آپ عید کا چاند دیکھنے کے لیے چھت پر چڑھ جاتے ہیں، دور بینیں لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر خلق خدا کو کنفیوژ کرتے ہیں۔ دس علما کہتے ہیں کہ آج عید ہے اور دس علما فتویٰ دیتے ہیں کہ آج روزہ ہے۔حضرت ! آپ اس امت کے ساتھ کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔ پونے چھ سو سال پہلے جب ایک جرمن شہری عثمانی خلیفہ کے دربار میں پرنٹنگ پریس لایا تو آپ نے اس کے حرام ہونے کا فتویٰ دیا کہ اس سے تو تصویریں بھی شائع ہوسکتی ہیں۔ آج آپ اسی پریس سے چھپے ہوئے کلام پاک کے نسخے اور مذہبی کتابیں پڑھ پڑھا رہے ہیں اور اسی پریس سے نکلے ہوئے نظام الاوقات مسجد کی مقدس دیواروں پر لٹکا رکھے ہیں۔ تین سو سال پہلے جب گھڑیاں اور کلاک آئے تو آپ نے ان کے ناجائز ہونے کا فتویٰ دیا۔ ڈیڑھ سو سال پہلے آپ نے فتویٰ دیا کہ قرآن پاک کا ترجمہ کسی اور زبان میں نہیں کیاجاسکتا۔ سو سال پہلے آپ نے فتویٰ دیا کہ نمازوں کا نظام الاوقات پیشگی نہیں بنایا جاسکتا۔ ساٹھ سال پہلے آپ نے فتویٰ دیا کہ لائوڈ سپیکر کا استعمال مسجد میں حرام ہے۔ پچاس برس پہلے آپ نے فتویٰ دیا کہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے لیے تصویر بنوانی جائز نہیں ہے۔ آج یہ سب چیزیں حلال ہیں۔ آپ استعمال کررہے ہیں۔ اکثر لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ ساری ایجادات علما نے پہلے حرام قرار دی تھیں۔ اب گزشتہ تیس چالیس سال سے آپ کہہ رہے ہیں کہ پہلے سے تیار کردہ نظام الاوقات کے مطابق عید نہیں منائی جاسکتی۔ امریکہ کے بے شمار مسلمان کیلنڈر دیکھ کر عید منارہے ہیں۔ فقہ کونسل آف نارتھ امریکہ نے 2011ء میں 2015ء تک کے رمضان اور عیدین کی تاریخوں کا تعین کردیا ہے۔دس یا بیس سال بعد جب کوئی مجھ سا پاگل پوچھے گا کہ چھت پر چڑھ کر چاند دیکھے بغیر آپ نے عید کااعلان کیسے کردیا تو آپ اسے بے وقوف قرار دیتے ہوئے اس کے علم میں اضافہ کریں گے کہ عید کی تاریخ کا یہ پیشگی تعین اسلامی اصولوں کے مطابق ہی کیاگیا ہے!‘‘
وہ بوجھل قدموں سے باہر آگیا۔ اسے معلوم تھا کہ یہ مکالمہ بے اثر ثابت ہوگا۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔