امام شافعی رحمہ اللہ علیہ یا کسی اور فقیہ کے دور کاواقعہ ہے کہ وقت کا بادشاہ اپنی بیوی کے ساتھ تنہائی میں بیٹھا تھا، اس کی بیوی کسی وجہ سے اس سے ناراض تھی، بادشاہ چاہتا کہ محبت پیار میں وقت گزاریں لیکن بیوی جلی بیٹھی تھی اور وہ چاہتی تھی کہ اس کی شکل ایک آنکھ نہ دیکھوں، جب بہت دیر گزر گئی تو بادشاہ نے کچھ اور بات کہ دی، جب اس نے بات کردی تو بیوی نے کہا، جہنمی! دفع ہو یہاں سے۔ جب اس نے اتنی بڑی بات کہ دی تو بادشاہ کو بھی غصہ آیا۔ چنانچہ کہنے لگا؛ اچھا! اگر میں جہنمی ہوں تو تجھے بھی تین طلاق، اب اس نے بات تو کردی مگر دونوں کی پریشانی بڑھ گئی اور پوری رات دونوں متفکر رہے کہ طلاق ہوئی کہ نہیں!
جب صبح اٹھے تو ان کے دماغ ٹھنڈے ہوچکے تھے، چنانچہ فتویٰ لینے کیلئے کسی مقامی عالم کے پاس پہنچ گئے اور ان کو پوری صورت حال سے آگاہ کردیا، جب اس عالم نے اس کی بات سنی تو کہا کہ میں اس کا فتویٰ نہیں دے سکتا کیونکہ میں نہیں جانتا کہ تم جہنمی ہو یا نہیں، کئ اور علماء سے پوچھا مگر سب نے یہ کہتے ہوئے انکار کہ ہم اس کا فتویٰ نہیں دے سکتے کیونکہ بات مشروط ہے،
بادشاہ چاہتا تھا کہ اس قدر خوبصورت اور حسین بیوی مجھ سے جدا نہ ہو، مگر مسئلہ کا پتہ نہیں چل رہا تھا کہ اب حلال بھی ہے یا نہیں، بالاآخر ایک فقیہ کو بلایا گیا اور ان سے عرض کیا گیا کہ آپ بتائیں، انہوں نے فرمایا کہ میں جواب تو دونگا مگر اس کیلئے مجھے بادشاہ سے تنہائی میں کچھ پوچھنا پڑیگا، اس نے کہا۔ ٹھیک ہے۔ چنانچہ اس فقیہ نے بادشاہ سے علیحدگی میں پوچھا کہ کیا آپ کی زندگی میں کبھی کؤی ایسا موقع آیا ہے کہ اس وقت گناہ کرنے پر قادر ہوں مگر آپ نے اللہ کے خوف سے نہ کیا ہو،
بادشاہ سوچنے لگا۔۔ کچھ دیر کے بعد اس نے کہا، ہاں ایک مرتبہ ایسا واقعہ پیش آیا تھا۔ پوچھا وہ کیسے؟ وہ کہنے لگا، ایک مرتبہ جب میں آرام کرنے کیلئے دوپہر میں اپنے کمرے میں گیا تو میں نے دیکھا کہ محل میں کام کرنے والی لڑکیوں میں سے ایک بہت ہی خوبصورت لڑکی میرے کمرے میں کچھ چیزیں سنوار رہی تھیں، اس کے حسن و جمال کو دیکھ کر میرا خیال برائی کی طرف چلاگیا، چنانچہ میں نے دروازہ کی کنڈی لگا دی اور اس کی طرف آگے بڑھا، وہ لڑکی ایک نیک، عفیفہ اور پاکدامن لڑکی تھی، اس نے جیسے ہی دیکھا بادشاہ نے کنڈی لگا لی ہے اور میری طرف خاص نظر کے ساتھ قدم بڑھا رہا ہے تو وہ فوراً گھبراگئ۔ جب میں اس کے قریب پہنچا تو وہ کہنے لگی۔ اے بادشاہ! اللہ سے ڈر' جب اس نے یہ کہا تو اللہ کا نام سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور اللہ کا جلال میرے اوپر غالب آگیا، چنانچہ میں نے اس لڑکی سے کہا، اچھا، چلی جا، میں نے دروازہ کھولا اور اسے کمرے سے بھیج دیا، اگر میں گناہ کرنا چاہتا تو میں اس وقت اس لڑکی سے گناہ کرسکتا تھا، مجھے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا مگر اللہ کا جلال اس کی عظمت اور خوف کی وجہ سے میں نے اس لڑکی کو بھیج دیا اور گناہ سے باز آگیا،
اس فقیہ نے کہا کہ اگر تیرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہے تو میں فتویٰ دے دیتا ہوں کہ تو جنتی ہے اور طلاق واقع نہیں ہوئی،
اب دوسرے علماء نے کہا، جناب! آپ کیسے فتویٰ دے سکتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا، جناب! میں نے اپنی طرف سے یہ فتویٰ نہیں دیا بلکہ یہ فتویٰ تو قرآن دے رہا ہے، وہ حیران ہوگئے کہ قرآن نے فتویٰ کہاں دیا۔ انہوں نے جواب میں قرآن کی آیت پڑھی۔۔ ترجمہ۔۔ کہ جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈر گیا اور اس نے اپنے نفس کو خواہشات میں پڑنے سے بچالیا تو ایسے بندے کا ٹھکانہ جنت ہوگی ، پھر انہوں نے بادشاہ کو مخاطب کرکے فرمایا، چونکہ آپ نے اللہ کے خوف کی وجہ سے گناہ کو چھوڑا تھا تو میں لکھ کر دیتا ہوں کہ تو جنتی ہے،
عزیز بچوں، اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر ہم گناہ کرنے پر قادر ہوں مگر اللہ کے خوف سے گناہ سے باز آجائیں تو پھر ہم اللہ کے محبوب بندوں میں شامل ہوجائیں گے اور پھر ہر وقت ہمیں اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہوگی ہر موڑ پر اللہ ہماری مدد فرمائیں گے اور ہر طرح کی پریشانیوں سے نجات عطا فرمائیں گے،
اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے،
نوٹ۔ اس کالم کو اپنے بچوں تک ضرور پہنچائیں،
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...