حافظ ابن قیم رحمہ االلہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ ایک گلی میں جارہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک گھر کا دروازہ کھلا۔ ایک ماں اپنے بچے کو ماررہی تھی۔اس بچہ کی عمر سات آٹھ برس تھی ۔ جب دروازہ کھلا تو ماں نے بچہ کو دھکے دیکر باہر پھینکا اور کہا کہ تو نافرمان بن گیا ہے، تو میری کوئی بات نہیں مانتا، میں تجھے اس گھر میں نہیں دیکھنا چاہتی، یہ کہ کر ماں نے دروازہ بند کردیا، حافظ ابن قیم رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں تھوڑی دیر کیلئے کھڑا ہوگیا، کیا دیکھتا ہوں کہ بچہ کچھ دیر تک روتا رہا پھر اس نے آہستہ آہستہ چلنا شروع کردیا چلتے چلتے وہ گلی کے موڑ تک پہنچا تو وہاں تھوڑی دیر کھڑا سوچتا رہا پھر آہستہ آہستہ قدموں سے واپس آنے لگا اور اپنے گھر کے دروازہ پر پہنچ کر بیٹھ گیا، وہ تھکا ہوا تھا،نیند غالب آگئی، اس نے دروازہ کی دہلیز پر قدم رکھا اور سو گیا،
کافی دیر کے بعد اس کی ماں نے کسی کام کیلئے دروازہ کھولا تو کیا دیکھتی ہے کہ بیٹا دروازہ کی دہلیز پر سر رکھ کر سو رہا ہے، ماں کا غصہ ابھی تک ٹھنڈا نہیں ہوا تھا چنانچہ ماں نے اسے بالوں سے پکڑ کر پھر غصہ سے اٹھایا اور کہا۔ تو دفع کیوں نہیں ہوجاتا، یہاں کیوں پڑا ہوا ہے اتنا سننا تھا کہ اس بچہ کی آنکھ سے آنسو چھلک پڑا،وہ کہنے لگا امی! جب آپ نے دھکے دیکر گھر سے نکال دیا تھا تو میرے دل میں خیال آیا تھا کہ کہیں میں چلا جاؤں، میں بازار میں کھڑا ہوکر بھیک مانگ لوں یا پھر کسی کے جوتے صاف کروں، یہ سوچ کر میں گلی کے موڑ تک چلا گیا لیکن امی! وہاں جاکر میرے دل میں خیال آیا کہ اے بندے،
تجھے دنیا میں کھانا پینا تو مل جائے گا مگر تجھے ماں کی محبت کہیں نہیں مل سکے گی وہ صرف اسی گھر سے ملے گی، امی! یہ سوچ کر میں واپس آگیا، اب میں اسی درپہ پڑا ہوں، امی! اب تو اگر دھکے بھی دے تو میں کہیں نہیں جاسکتا کیونکہ امی! تیرے جیسی محبت مجھے کوئی بھی نہیں دے سکتا،جب ماں نے یہ بات سنی تو اس کا دل موم ہوگیا، اس نے کہا بیٹے! جب تیرے دل میں یہ احساس ہے کہ تجھے مجھ جیسی محبت کوئی نہیں دے سکتا تو اب تمہارے لئے اس گھر کے دروازے کھلے ہیں آؤ ۔ اور اس گھر میں زندگی گزار لو،
حافظ ابن قیم فرماتے ہیں کہ بندے کو بھی چاہئے اسی طرح اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے اور کہے کہ پروردگار! یہی در ہے جہاں سے معافی ملنی ہے، اے اللہ! دوسرا کوئی ایسا در نہیں ہے، میں تیرے در کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاسکتا۔ جب انسان اس طرح معافی مانگے گا تو اللہ تعالیٰ اسے معافی دے دیں گے،
نوٹ۔ اس کالم کو اپنے بچوں تک ضرور پہنچائیں،