ہمارے معاشرے میں گدھا ایک ایسا جانور یا حیوان ہے جو حضرت انسان کے لئے سب سے زیادہ مفید اور کار آمد ہے لیکن اس کے باوجود اس کی خوبیوں اور کارکردگی کا برملا اعتراف نہیں کیا جاتا جس کا گدھے کو مستقل طور پر بہت دکھ اور افسوس رہتا ہے ۔ اس بات کا مجھ پر اس وقت انکشاف ہوا جب گزشتہ دنوں میری ملاقات ایک گدھے سے ہوئی ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ گدھا میرا بہت پرانا واقف کار ہے ۔ ویسے تو بہت سے لوگ کتے سے بھی دوستی کرتے ہیں اس کی وفائوں کی مثالیں دیتے ہیں اور اس کی دوستی پر فخر بھی کرتے ہیں ۔ کتے کی بہت خدمت بھی کرتے ہیں اس کے ناز نخرے بھی اٹھاتے ہیں۔ ایسے میں اگر میں اپنے پرانے واقف کار گدھے کو اپنا دوست کہوں تو اس میں کوئی مضائقہ تو نہیں لیکن کیا کریں کہ گدھے کو علی الاعلان اپنا دوست کہنے سے میرے لیئے بہت سے معاشرتی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اس لیئے " یہ کہانی پھر سہی " ۔ گدھے سے جو میری تفصیلی گفتگو ہوئی اس کا لب لباب یہ ہے کہ وہ ہم انسانوں سے اور خاص کر پاکستانی حکومت خواہ عوام اور عدلیہ سے بھی بہت مایوس بلکہ ناراض بھی لگ رہا تھا ۔ اس ملاقات میں اس نے اپنا دل کھول کر شکوے شکایات کیئے ۔
گدھے نے اپنی گفتگو کے آغاز میں کہا کہ ہمارا ماضی بہت شاندار رہا ہے جس پر ہم جتنا بھی فخر کریں کم ہے اس کی وجہ اس نے یہ بتائی کہ ماضی میں ہم پر انبیائے کرام نے بھی سواری کی ہے اس سلسلے میں ہمیں گھوڑوں اور خچروں سے بھی زیادہ اعزاز اور شرف حاصل رہا ہے ۔ اس کا کہنا تھا کہ وقت اور حالات بدلتے گئے جس سے ہماری اہمیت کم سے کم تر ہوتی گئی اب تو حالت یہ ہے کہ چین میں تو ہمیں اپنا پسندیدہ جانور اور من پسند خوراک قرار دے کر ذبح کر کے اپنی پسندیدہ غذا کے طور پر استعمال میں لایا جا رہا ہے ۔ پاکستان ہمارے لیئے ایک محفوظ پناہ گاہ تھا لیکن یہاں پر بھی ہماری شامت آ گئی ہے ہمیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر چینی باشندوں کے ہاتھوں فروخت کیا جا رہا ہے یا پھر ہمیں پاکستان میں ہی ذبح کر کے " بکرے " کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے اور ہمارا گوشت کھانے والوں میں پاکستان کی " اپر کلاس "شامل ہے کیونکہ غریب تو مرغی کا گوشت بھی نہیں خرید سکتا ۔ جب بڑے لوگ ہمارا گوشت کھاتے ہیں تو ان کے دل اور دماغ پر ہمارا اثر انداز ہونا لازمی امر ہے اور یہی لوگ ملک کو چلانے والے ہیں اور پھر ان کی جو عقل ہے وہ ہمارے ہی مرہون منت ہے ۔ ملک و قوم کے لئے کیے جانے والے ان کے فیصلے ہماری عقل اور شعور کے مطابق ہی ہوتے ہیں جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔ ( میرے اس گدھے دوست کا کوئی مخصوص نام تو نہیں ہے لیکن میں نے پیار سے اس کا نام کرشمہ رکھا ہے اور یہ ایسا نام ہے کہ مذکر اور مونث دونوں میں استعمال ہو سکتا ہے اور میرا مقصد بھی یہی ہے کہ یہ مجھ سے کسی بھی حوالے سے ناراض نہ ہوں کیوں کہ میں ان کی بد دعاوں سے بہت ڈرتا ہوں ۔)
کرشمہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جتنا کام ہم سے لیا جا رہا ہے اتنا کام نہ گھوڑوں سے لیا جاتا ہے اور نہ ہی خچروں سے اس کے باوجود بھی ہمیں حقارت کی نگاہ سے سے دیکھا اور دھتکارا جاتا ہے ۔ کرشمہ کا کہنا ہے کہ ہمارے گوشت کو بکرے کا گوشت سمجھ کر کھانے والے تو ہماری عقل ہی استعمال کرتے ہیں لیکن رکشہ اور چنگچی ڈرائیورز بھی ہماری ترجمانی کر رہے ہوتے ہیں کیوں کہ پاکستان میں جتنے بھی رکشہ اور چنگچی ڈرائیورز ہیں یہ پہلے ہمیں استعمال کرتے تھے یعنی گدھا گاڑی چلایا کرتے تھے جب رکشہ اور چنگچی مارکیٹ میں آ گئے تو ہمیں فروخت کر کے رکشہ اور چنگچی خریدے گئے اس لیئے ان کی جو عقل ہے وہ ہماری ہی ہے ۔ اس نے اس بات پر سخت افسوس کا اظہار کیا کہ وزن اور بوجھ اٹھانے کے حوالے سے ہم " فرنٹ لائن " پر کام کرتے ہیں لیکن جب پاکستان کے ایوانوں میں جو منتخب عوامی نمائندے بک جاتے ہیں یا فروخت ہوتے ہیں جن کے ضمیر کی بولیاں لگتی ہیں ان کے اس عمل کی خرید و فروخت کو " ہارس ٹریڈنگ " کا نام دیا جاتا ہے تو ان کو ہمارے ازلی مخالف یعنی گھوڑے کا خطاب دیا جاتا ہے یا اگر وہ اپنی پارٹی چھوڑ کر کسی اور جماعت میں چلے جاتے ہیں تو ان کو اس پارٹی وفاداری تبدیل کرنے پر " لوٹا" کہا جاتا ہے مگر ہمیں کہیں بھی یاد نہیں کیا جاتا ۔ گو کہ ہارس ٹریڈنگ کا عمل اچھا نہیں ہے لیکن اس حوالےسے ملک کے اعلی ایوانوں میں گھوڑوں کا نام تو لیا جاتا ہے نا، ہماری بھی خواہش ہے کہ کبھی پارلیمنٹ میں ہمارا نام بھی لیا جائے بقول ادا جعفری
ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی برسر الزام ہی آئے
کرشمہ نے کہا کہ ہمیں ہر شعبے میں نظر انداز کیا جاتا ہے ہماری مظلومیت کسی کو بھی نظر نہیں آتی ۔ اس نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس صاحبان افتخار محمد چوہدری اور ثاقب نثار صاحب نے پاکستان کے ایک مظلوم طبقے خواجہ سراؤں کے بارے میں قانون سازی کرائی وہ بہت خوش آئند بات ہے لیکن ہمارے لیے انہوں نے بھی کچھ نہیں کیا اگر یہی حالت رہی تو مستقبل قریب میں پاکستان سے ہماری نسل کا خاتمہ ہو جائے گا پھر ہمیں بہت یاد کیا جائے گا لیکن اس وقت اس کا ان کو اور نہ ہم کو کوئی فائدہ ہوگا
بقول شاعر
تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد
کرشمہ نے ادباء اور شعراء سےبھی بہت شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ویسے تو ادیب اور شاعر حضرات بڑی تحقیق اور غور و فکر کرکے اپنی تخلیقات میں چاند، تاروں، آفتاب، ہرنی، کوئل اور بلبل وغیرہ کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے لیکن ایک ہم ہی ہیں کہ ان کو بھی یاد نہیں آتے تاہم اس نے عطاء الحق قاسمی صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ادباء اور شعراء میں وہ واحد شخصیت ہیں جو ہماری خوبیوں اور اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی تحریروں میں ہمیں نہ صرف یاد کرتے ہیں بلکہ ہماری دلجوئی بھی کرتے ہیں اور ہماری ہر ممکن حد تک حوصلہ افزائی بھی کیا کرتے ہیں ۔ کرشمہ نے پاکستان کے اعلی حکام اور بااثر و بااختیار شخصیات سے اپیل کی ہےکہ اگر آپ ہمیں کچھ دے نہیں سکتے تو کم از کم ہماری کارکردگی کا کچھ اعتراف تو کریں اور وہ اس سلسلے میں عطاء الحق قاسمی صاحب کو مثال بنا کر ہمارے حق میں کبھی کبھی کچھ تعریفی کلمات ادا کیا کریں تو یہ ہم پر آپ لوگوں کا بہت بڑا احسان ہوگا۔