ایک عظیم فلسفی سید محمد تقی کی کہانی۔۔۔۔۔۔۔۔
اس زمین پر ایک ایسا زہین ترین انسان بھی گزرا ہے ،جو اپنی مثال آپ تھا ۔جو مصنف بھی تھا ،فلسفی بھی تھا اور صاحب نظام بھی تھا ۔لیکن بدقسمتی سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اس کے بارے میں کچھ بتایا نہیں جاتا ،نئی نسل اس عظیم فکری انسان سے ناواقف ہے ۔تجسس،خیالات ،فکر اور فلسفے سے مزین اس عظیم انسان کا نام تھا سید محمد تقی ۔جدید و قدیم فکر و خیال سے لبریز سید محمد تقی 1917 میں امروہہ میں پیدا ہوئے ،جی ہاں وہی امروہہ جو بھارت کے دارالحکومت دہلی سے اسی میل دور شمال مشرق میں واقع ہے ۔جی ہاں وہی امروہہ جہاں کمال امروہی پیدا ہوئے جو بالی وڈ فلم انڈسٹری کے عظیم کہانی کار،ہدائیتکار اور اسکرپٹ رائیٹر تھے ۔سید محمد تقی قدیم یونان کے فلسفے سے واقف تھے ،قدیم یونان کی تمام فلسفیانہ تاریخ سے آگاہی رکھنے کے ساتھ ساتھ وہ برٹرینڈ رسل کی منطق و سائنس کے ساتھ ساتھ الہیات کے علوم کے شعور سے بھی مالا مال تھے ۔وہ خود کہتے تھے کہ یہ انسان کی توہین ہے کہ وہ علوم عالم کی کسی بھی شاخ سے واقف نہ ہو ۔کہتے تھے وہ انسان ہی نہیں جو دنیا کے جدید و قدیم علوم کو نہیں جانتا ۔یہ انسان کی توہین ہے کہ وہ فکر و خیال سے آگاہ نہیں ۔عالم علوم کی کسی بھی شاخ سے ناواقف ہونے کو وہ زاتی توہین بھی سمجھتے تھے ۔اس لئے وہ دنیا کے تمام فکر و خیال کے آقا مانے جاتے ہیں ۔اس کمال انسان نے زہن ،فکر اور خیال کی طاقت سے دنیا کو روشن کیا ۔زہن کی طاقت سے انسان کے فکر وخیال کو نئی جہتوں سے متعارف کرایا ۔وہ کہتے تھے کہ جب تک پاکستان میں جدید فکر کا ارتقاٗ نہیں ہوگا ،یہ ملک ہمیشہ مصیبتوں اور مسائل میں گھرا رہے گا ۔انہوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ دنیا کی تمام عظیم کتابوؓ اور جدید علوم کو اردو میں ڈھالا جائے اور اس طرح نئی نسل کو نئے افکار کو سمجھنے کا موقع دیا جائے ۔ان کا عقیدہ تھا کہ جب تک نئی نسل کو نئی فکر نہیں دی جائے گی ،یہ ملک بے معانی نظریاتی الجھنوں میں الجھا رہے گا ۔ان کا عقیدہ تھا کہ نئی فکر کی بنیاد پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بناسکتی ہے ۔ان نے کئی عظیم کتابوں کے اردو ترجمے کئے ۔ترجموں میں انہوں نے کارل مارکس کی داس کیپیٹل کو اردو میں منتقل کیا ۔داس کیپیٹل کے اردو ترجمے کے ایڈیشن 1960 سے آج تک چھپ رہے ہیں ۔جدید فکر و خیال اور نظریات کے ارتقاٗ کے لئے انہوں نے درجنوں کتابیں لکھی ۔معاشیات،سیاسیات،عمرانیات ،الہیات،تاریخ ،دستوری نظام ،تنقید اور فلسفے کے تمام موضوعات پر انہوں نے کتابیں تحریر کی ۔ان کی تصانیف کا دائرہ زندگی ،انسان ،خدا ،سماج اور تمام کائنات پر مشتمل ہے ۔ان کی ایک بین الااقومی کتاب ہے جس کا نام ہے ۔۔۔۔۔۔تاریخ و کائنات میرا نظریہ ۔۔۔۔۔۔۔اس عظیم کتاب میں ایک مکمل اور مربوط فلسفیانہ نظام کمال مہارت سے پیش کیا گیا ہے ۔وہ اردو زبان میں لکھنے والے واحد لکھاری ہیں جنہیں صاحب نظام فلسفی کہا جاتا ہے ۔دنیا میں جہاں جہاں فلسفے کے حوالے سے کانفرسیں ہوئیں وہ وہاں وہاں پاکستان کی نمائندگی کےلئے پہنچے ۔دنیا میں جہاں بھی فلسفہ زیر بحث آیا وہ وہاں گئے ،مقالے پڑھے ،فلسفے کے کئی عالمی جلسوں میں وہ صدارت بھی کرچکے ہیں ۔سید محمد تقی 1948 سے 1969 تک روزنامہ جنگ کے چیف ایڈیٹر رہے ۔۔۔آج پاکستان کے اس بڑے اخبار میں بھی ان کا زکر نہیں ملتا ،جنگ نے بھی اپنے عظیم چیف ایڈیٹر کو بھلادیا ہے ۔وہ چیف ایڈیٹر جس نے روزنامہ جنگ کو پاکستان کا سب سے بڑا اور طاقتور اخبار بنایا تھا ،آج میر شکیل الرحمان نے اسے بھی بھلادیا ہے ۔کوئی سیمینار نہیں ہوتا ،ان کے حوالے سے خبر نہیں شائع ہوتی۔یہ ہے ہماری بدقسمتی ۔آج جنگ نواز شریف ،زرداری اور فضول خبروں سے بھرپور ہوتا ہے ،لیکن ایک عظیم فلسفی کی ایک خبر شائع کرنے کو شرمندگی محسوس کرتا ہے ۔جیو میں ان کا زکر نہیں ملتا ،ان پر پیکج نہیں دیکھایا جاتا اور نہ ہی ان پر کبھی جیو والوں نے ڈاکومنٹری بنائی ہے ۔ایک زمانے میں روزنامہ جنگ میں ان کے اداریئے سند سمجھے جاتے تھے ۔وہ پرانے صحافی جو سید محمد تقی کو سمجھتے اور جانتے ہیں ،وہ انہیں ایک یونیورسٹی کا درجہ دیتے ہیں ۔اس عظیم انسان نے اپنے بے مثال تجسس اور طاقتور فکر و خیال سے انسانیت کی خدمت کی اور اپنی پوری زندگی جدید و قدیم فلسفے اور تاریخ کے نام پر قربان کردی ۔لیکن ہم بے وفاوں نے انہیں فراموش کردیا ۔کیا کمال کے احسان فراموش لوگ ہیں ہم ۔وہ بے مثال انسان تھے ،وہ حقیقی انسان تھے ۔جدید عہد کے ایسے جید عالم کو بھلادیا گیا اور اس پر ہمیں شرمندگی بھی نہیں ۔کمال بے حس انسان ہیں ہم ۔ان کے فکر و خیال کو اہمیت دی جاتی تو آج یہ معاشرہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مرکز نہ ہوتا ۔وہ برٹرینڈ رسل سے بھی اونچے درجے کے جید عالم ہیں ۔لیکن ہمیں کیا پروا ۔ہم نے تو عامر لیاقت ،اوریا مقبول جان اور شاہد مسعود جیسے نقلی لوگوں کو اہمیت دینی ہے ۔سقراط نے درست فرمایا تھا ۔تخلیق اور تجسس سے خالی زندگی گزارنے کے قابل نہیں ہوتی ۔آج پاکستانی قوم تخلیق اور تجسس سے خالی ہے اور بیکار زندگی گزار رہی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے سید محمد تقی جیسے عظیم فلسفیوں کو بھلادیا ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔