ایک از حد مضبو ط ……مورچہ محبت کا
……………………..نشان امتیاز
جبار مرزا ……فوجی اصطلاع میں تو میرا …ھانڈی وال ….نہیں مگر کچن ھمارا مشترکہ ہے ……اسلامیت …پاکستانیت …(قاید اعظم اور علامہ اقبال ….ڈاکٹر عبدالقدیر خان ) کے یورینیم اور پلو ٹو نیم کا ملاپ ….ھماری بینکر کا وہ مورچہ ھے جس پر کوی ایٹم بم بھی اثر نہیں کر سکتا ………جبار مرزا تو ملکی سطع پر معروف قلمکار ہے جو یورینیم کی طرح خاص مقا مات کے علاوہ صحافت کو عبادت کی عادت بنا کر اور18 کتابوں کو رزق ہنر کی شناخت بناکر عوامی بن چکا ہے اور یہ …رچناوی زبان کی طرح اپنے شناختی کارڈ کی تلاش میں ….پلو ٹونیم کی طرح سورج سے سب سے زیادہ دور اور دور بین سے دکھای دینے والا سیارہ ہے …….
نشان امتیاز ……محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان سے متعلق 34 برس کی یاد داشتیں ہیں ….سات ابواب …272 صفحات ……مبلغ ایک ہزار روپے سکہ رایج الوقت قیمت پر جنوری 2018ء میں 34 دنوں کی لکھت کا عکس رخ دلدار ہیں …بہت سے داغدار اور بدبودار اور تن ھمہ داغ داغ شد کا بیانیہ ایک مستند اور موقر طریق سے از حد سلیقے مگر لپٹی رکھے بغیر …محبت کا ھمالہ اور استقامت کا پیکر ….ایک دیو ملای کہانی لگتی ہے …..فسانہ کہیں جسے : شہری کثافتوں سے دور …دھول بھرے راستے پر …اجنبیت سے دور اور پہچان کی پگڈنڈی کو موٹر وے میں بدلتے کلاسیکی اردو ادب کے پارکھ اور رچناوی زبان کا لغت …روزانہ 70 کلومیٹر سفر کو کوے یار سمجھتے رزق کو حلال بناتے ….معشوق صفت عاشق …مہر حق نواز ہراج …کی بھینی پر اس وقت ملی جب ھم ڈیٹرھ گھنٹے کی کار سواری پر مہر جی کے برادر کلاں کی برسی پر دعاوں کے گجرے اور اشکوں کے نزرانے لے کر حاضر ھوے …..یہ 11 مارچ ایتوار میں بہار سمے میں سوگوار دوپہر کی بات ہے جب ….مالیات کے شعبے میں ادب کے شمار کنندہ .میاں Javaid Sahu نے مارچ پاسٹ کرتے ھوے …..کوی پوچھے تو بتاے نہ بنے ….جبار مرزا کی محبت کو اس طرح سے پیش کیا جوں سینے میں راز آوے …..خبر پہلے سے کر چکے تھے اور خبردار میں ان دوستوں سے تھا جو کتا ب کے معاملے میں آداب محبت کو بھول جانا بھی عشق میں جایز سمجھتے ہیں ….سو گھر سے نکلتے وقت جزدان اپنایت میں چند کتابوں کے پھول رکھ لیے تھے …………ریسریچ سکالر قیصرفاروق تگہ …..مضافات میں ادب کا شناخت نامہ راحیل فاروق ….ساینس کو ادب آداب سکھانے والا بابر فاروق شیخ …..شعری افق کو چھونے والا ….شوق ….اور عقاب کی طرح کتاب پر جھپٹنے والا میزبان …..سب کو شاد کام کیا ..یہ سب کتاب کلچر کے گرویدہ وہ یورینیم کی طرح قدرتی دھات ہیں جو .ملے تو بے خیالی میں مگر اب خیال یار کی طرح دل سے نکلتے نہیں ……….
نشان امتیاز …….ایک زندہ کتاب ہے …..ایک مستند پاکستانی عسکری قوت کا معتبر ….قابل بھروسہ ….موقر اور معنبر حوالہ ہے ………سادہ انداز مگر صحافتی سپاٹ سے مبرا…..بات حقیقت میں مگر کیف فسانہ جیسا …..زکر میں خصوصیت محسن پاکستان کے اجلے کردار اور ناقابل فراموش تاریخ ساز نہیں بلکہ خود ایک منور تاریخ کی …..پس پردہ ان واقعات سے جٹرے ان تمام چہروں کی نقاب کشای جو چلمن سے لگے بیٹھے ہیں …..چہرہ روشن اندروں سے چنگیز سے تاریک تر …..کمال یہ ہے کہ جبار مرزا نے نہ صرف لکھا بلکہ لکھنے کا حق ادا کر دیا …..ممکن ھے کہ بعض قاریین معترض ھوں کہ مرزا نے اپنے قد کو بھی بیساکھی دے دی ھے …….اس میں خود ستای روا ہے ….در مدح خود کے علاوہ بھی جبار مرزا ……نے بٹری فراخ دلی …خوش دلی ..وسعت قلبی سے دلداری اور دلبری اور دریا دلی سے ان خوشبودار چہروں کو زیب قرطاس بنایا ہے جو اندھیروں میں روشنی کی کرنیں پھینکتے رہے …….جو اندھیروں کا ماتم کرنے کے ساتھ اپنے اپنے حصہ کا چراغ بھی جلاتے رہے اور ابھی تک راہ وفا میں خار بداماں کو گل بداماں بنانے کے عہد کو اپنا عہدہ اور منصب بناے ہوے ہیں ……….
جبار مرزا …..نے اس داستان عزیمت کو آنسووں سے گوندھا ہے اور محبت کے اشکوں سے شبنمی جزبات کو الاو بنایا ہے …..ققنس کی طرح اپنے آپ کو جلایا ہے ….یہاں وہ فرزانے کم اور دیوانے زیادہ نظر آے ….جنوں ہی پاکستانیت ہے ….آتش بیاں تو بہت لکھاری ہو سکتے ہیں …..آسماں سے تارے توٹرنے کے نعرہ باز تو بہت دیکھے ہیں ….رگ گل سے بلبل کے پر باندھنے والے تو بہت سنے ہیں ………کتابیں اور رسالے تو ہر روز چھپتے ہیں ….کتابی چہرے تو کیی کتابوں کو رخ زیبا دیتے ہیں …..مگر پوٹھوار کے خطہ سے جو ….اس بات پہ بدنام بلکہ دشنام بنا دیا گیا تھا …دروغ بر گردن راوی …..ز میں ھموار نہیں ..درخت پھلدار نہیں …موسم کا اعتبار نہیں اور لوگ وفادار نہیں …….میں آخری بات کو حرف غدار اور داغ دار نہیں بنایا بلکہ وفاداری بشرط استواری کے پیمان سے باندھ رکھا ہے …….اس لیے کہ پاکستانیت ….اصل شناخت ہے ورنہ مرزا غالب کی طرح آدھے مسلمان تو اب بھی ھماری صف بندی میں قطار اندر قطار بہت تعداد میں سنای بھی دیتے ہیں اور دکھای بھی دیتے ہیں ………..
جبار مرزا کا پاکستانی قوم پر احسان ہے کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان کی زاتی زندگی ….ان سے منسلک تصاویر ….اور ان کی حالا شخصیت کی چاندنی کو حرف شوق کی زینت بنایا ……میری جیب اور گریباں تار تار نہ ھوتے تو اس زربخت کتاب کو ھر گھر کی زینت بنواتا ……اس وقت تو میں انہیں نشان امتیاز ……جیسی زندہ کتاب لکھنے پر ……..رچناوی کلچر میں عزت …احترام ….اکرام اور بٹرای کی نشانی ……پگ …..پیش کرنے اور اچا شملہ کی دستار سے امتیاز کرتا ہوں ….شاد باد وشاد زی اے سرزمین مرکز وفا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“