’’یہ وہ امان ہے جو خدا کے بندے امیرالمومنین عمرؓ نے ایلیا کے لوگوں کو دی۔ یہ امان ان کی جان، مال ، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لیے ہے۔ اس طرح کہ ان کے گرجائوں کو مسکن بنایا جائے گا نہ وہ ڈھائے جائیں گے۔ انہیں یا ان کے احاطوں کو کچھ نقصان پہنچایا جائے گا نہ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی۔ مذہب کے بارے میں ان پر جبر کیا جائے گا نہ ان میں سے کسی کے ساتھ بدسلوکی روا رکھی جائے گی …اگر کوئی رومیوں کے ساتھ جانا چاہے تو چلا جائے اور اگر کوئی اپنے اہل وعیال میں واپس ہونا چاہے تو ہوجائے۔ ان سے کوئی چیز نہیں لی جائے گی یہاں تک کہ ان کی کھیتیاں کٹ جائیں۔ اور جوکچھ اس تحریر میں ہے اس پر خدا کا، رسولؐ خدا کا، خلفا کا اور مسلمانوں کا ذمہ ہے۔ بشرطیکہ یہ لوگ مقررہ جزیہ ادا کرتے رہیں۔
یہ اس معاہدے کے کچھ حصے ہیں جو امیرالمومنین عمرفاروقؓ نے مسلمانوں کی طرف سے بیت المقدس کے باشندوں کے ساتھ کیا تھا۔ یہ وہی عمرفاروق ؓ ہیں جن کے بارے میں ایک مضمون جو ’’حضرت عمرفاروقؓ۔ عظیم منتظم ‘‘ کے عنوان سے جماعت دہم کی اردو کی کتاب میں شامل تھا، پنجاب حکومت نے نصاب سے خارج کردیا ہے۔ ہمارے سیاست دان نفاق کے بادشاہ ہیں۔ بظاہر وزیراعلیٰ پنجاب نے خارج شدہ مضامین کو دوبارہ شامل کتاب کرنے کا حکم دے دیا ہے لیکن قومی سطح کے اخبارات میں شائع شدہ رپورٹوں کے مطابق اگست اور ستمبر 2012ء میں وزیراعلیٰ نے خود ہی نصاب کی ان تبدیلیوں کا اعلان کیا تھا۔ ایک اخبار نے لکھا ہے کہ۔ ’’ایک غیرجانب دار انکوائری حضرت عمر فاروقؓ کے بارے میں مضمون، دوسرے اسلامی مضامین اور علامہ اقبالؒ کی نظمیں نصاب سے نکالنے کا ذمہ دار شہباز شریف ہی کو ٹھہرائے گی۔‘‘ دورنگی کی ایک اور مثال ملاحظہ کیجیے۔ ایک طرف ڈاکٹر طاہرالقادری کے بارے میں مسلم لیگ نون کے رہنما سخت ترین بیانات دیتے رہے۔ ’’الیکشن التوا میں ڈالنے کے لیے‘‘ مارچ کا ناٹک‘‘ رچایا جارہا ہے۔ یہ جمہوریت کی لٹیا ڈبونے آئے ہیں۔ طاہرالقادری کی گفتگو ان کی ذہنی گراوٹ کا ثبوت ہے۔ طاہرالقادری کی فطرت میں جھوٹ ہے۔ باہر سے آنے والے مداری نئے سرکس اور ڈرامے لگا رہے ہیں‘‘۔ دوسری طرف اسی پنجاب حکومت نے انہی طاہرالقادری کی سیکورٹی پر بیس لاکھ روپے ماہانہ خرچ کیے۔ نہیں معلوم کہ اس وقت بھی طاہرالقادری کو پنجاب حکومت سکیورٹی فراہم کررہی ہے یا نہیں تاہم ڈیڑھ ماہ پہلے کی اطلاع کے مطابق ایک سب انسپکٹر، چار ہیڈکانسٹیبل، بائیس کانسٹیبل ، بارہ ایلیٹ فورس کمانڈو ،دو ڈرائیور اور دو گاڑیاں پنجاب حکومت نے ڈاکٹر طاہرالقادری کو فراہم کی ہوئی تھیں۔ ایک گاڑی کا ماہانہ خرچ ایک لاکھ روپے تھا اور تیس سے ساٹھ ہزار روپے ماہوار تک پولیس اہلکاروں پر فی کس صرف کیا جارہا تھا۔ یہ سب کچھ نون لیگ کی حکومت سرکاری خزانے سے ادا کررہی تھی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری سابق صدرتھے نہ سابق وزیراعظم ، وہ مکمل طورپر ایک پرائیویٹ شہری تھے۔ اگر اس ملک میں قانون کی حکومت ہوتی تو پنجاب گورنمنٹ سے کوئی پوچھتا کہ ’’ذہنی گراوٹ والے مداری‘‘ کو چوبیس گھنٹے کی سکیورٹی کس قانون کی روسے فراہم کی جارہی ہے اور کیوں ؟
بات حضرت عمرفاروق ؓ سے چلی اور سیاست دانوں کی منافقت تک چلی گئی۔ بیت المقدس کے باشندوں کے لیے یہ معاہدہ نعمت خداوندی سے کم نہ تھا۔ ایک فاتح انہیں عزت اور حفاظت دے رہا تھا اور اپنے مذہب پر قائم رہنے کی مکمل آزادی! انہیں ہرقل کا سلوک یاد تھا جس نے انہیں سرکاری مذہب قبول کرنے کا حکم دیا پھر انکار کرنے والوں کے ناک اور کان کاٹ دیے گئے اور گھر مسمار کردیے گئے، فلسطین کے دوسرے شہروں نے بھی مسلمانوں کے خلیفہ سے اسی قسم کے معاہدوں کی خواہش ظاہر کی۔ رملہ اور لدکے رہنے والوں کو بھی جان، مال ، گرجا اور صیلب کی حفاظت کی ضمانت دی گئی۔ جب نماز کا وقت آیا اور شہر کے بڑے پادری نے عرض کی آپ کلیسا ہی میں نماز پڑھ لیجیے یہ بھی خدا کا گھر ہے تو حضرت عمرؓ نے معذرت فرمائی کہ اگر آج میں نے یہاں نماز ادا کی تو مسلمان اس عمل کی تقلید کریں گے اور اگر انہوں نے ایسا کیا تو وہ عیسائیوں کو گرجائوں سے نکال دیں گے اور یہ عہد کی خلاف ورزی ہوگی۔ پھر جب کلیسا ئے فلسطین کے دروازے پر عیسائیوں نے حضرت عمر کے نماز پڑھنے کے لیے جگہ بنائی تو اپ نے پھر معذرت کی ۔ کچھ راوی کہتے ہیں کہ آپ نے کلیسا کی دہلیز پر نماز پڑھی اور اس کے بعد عیسائیوں کو یہ تحریر دے دی کہ مسلمان گرجائوں کی دہلیز پر نماز نہیں پڑھیں گے۔
یہ ہے غیرمسلموں کے ساتھ مسلمانوں کا سلوک اور یہ ہے اقلیتوں کے ساتھ رواداری کی وہ بنیاد جو اسلام نے اپنے عہد اولین
میں رکھی۔ اس آئینے میں جب ہم اپنی شکل دیکھتے ہیں تو ایک بدصورت کریہہ المنظر چہرہ سامنے آتا ہے۔ پاکستان بنا تو یہ ملک ایک گلدستہ تھا جس میں ہر رنگ اور ہر خوشبو کا پھول تھا۔ کراچی کی ایمپریس مارکیٹ اور بوہری بازار کا علاقہ عیسائیوں اور پارسیوں سے بھرا ہوا تھا۔ راولپنڈی میں لال کرتی اور چھائونی میں بھی ایسا ہی تھا۔ سب ہماری ’’رواداری‘‘ اور حسن سلوک‘‘ سے متاثر ہوکر ملک چھوڑ گئے ۔ سندھ سے ہرماہ درجنوں غیرمسلم خاندان جارہے ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں اغوا شدہ غیرمسلموں کی لاشیں دیکھی جارہی ہیں۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب یورپ کے ریٹائرڈ سفیر کراچی میں آباد ہونا چاہتے تھے۔ پاکستانی وزیراعظم جب اجمیر شریف جانے لگا تو وہاں کے سجادہ نشین نے اس کا استقبال کرنے سے انکار کردیا اور جو وجوہات بیان کیں وہ سب درست نہیں تھیں لیکن ایک وجہ اس نے یہ بتائی کہ غیرمسلموں کو پاکستان سے نکلنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ وزیراعظم کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا!
تازہ ترین تھپڑ ہمارے رخساروں پر اس پاکستانی نے مارا ہے جو آکسفورڈ شہر کا لارڈ میئر منتخب ہوا ہے۔ ’’شاید پاکستان میں ایسا ممکن نہ ہوتا جہاں عہدے دولت اور طاقت ور سیاسی و سماجی مافیا کے ذریعے ملتے ہیں ۔ مجھے منتخب کرکے ساتھی کونسلروں نے بتادیا کہ مغربی جمہوریت کیوں پروان چڑھ رہی ہے کیونکہ یہاں اہلیت و صلاحیت کو ترجیح دی جاتی ہے اور ہر مذہب اور ہرطبقے کے لوگوں کا بلا تخصیص احترام کیا جاتا ہے۔‘‘ نیاز عباسی نے یہ بھی کہا کہ ’’پاکستان برطانیہ سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے اس لیے کہ یہاں دنیا بھر کے لوگ جمع ہیں اور ہرکوئی اپنے مذہب اور اپنے سیاسی خیالات کے ساتھ خوشی سے رہ رہا ہے مسلمان ملکوں میں جو انتہا پسندی اور تشدد پایا جاتا ہے وہ یہاں نہیں ہے۔ پاکستان یہاں سے سبق سیکھ کر اپنے ملک میں گڈ گورننس رائج کرسکتا ہے اور لٹیروں اور غارت گروں کی غلامی ختم کرسکتا ہے۔‘‘
جس مغربی جمہوریت پر ہمارے کچھ دانش ور رات دن تبرابھیج رہے ہیں اس کا کمال دیکھیے کہ آکسفورڈ شہر میں صرف دس فیصد ایشیائی ہیں۔ 2002ء میں جب نیاز عباسی پہلے مسلمان کونسلر منتخب ہوئے تو 48میں سے صرف چار کونسلر پاکستانی نژاد تھے۔ 2012ء میں ان کا انتخاب ڈپٹی لارڈ میئر کے طورپر ہوگیا۔
ہم جب جمہوریت پر نفرین بھیجتے ہیں تو یہ نہیں بتاتے کہ ہم اس کا کون سا متبادل پیش کررہے ہیں۔ اگر ہم اُمویوں‘ عباسیوں اور خلافت عثمانیہ کا ماڈل پیش کرنا چاہتے ہیں تو پھر آمریت کیا ہے ؟ خلفاء راشدین میں سے کسی نے اپنی اولاد کو اپنا جانشین مقرر نہ فرمایا۔ ہماری ’’عظمت‘‘ کی چھوٹی سی مثال لے لیجیے، لاہور کے ایک واعظ (خدا ان کی مغفرت فرمائے ) ساری زندگی خلافت کا نعرہ لگاتے رہے اور آخر میں اپنی زندگی ہی میں اپنے صاحبزادے کو اپنا جانشین مقرر فرما گئے۔
پڑوس کے ملک میں دو صدر مسلمان ہو گزرے ہیں، وزیرِ خارجہ مسلمان ہے اور خفیہ ادارے کا سربراہ بھی مسلمان ہے۔ ہم برملا کہتے ہیں کہ یہ سب نمائشی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم نے تو نمائش کے طورپر بھی ایسی کوئی مثال پیش نہیں کی۔ ہال عدلیہ میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے قانون دان چوٹی پر پہنچے اور ان کا کردار قابل رشک تھا۔ کارنیلیس سے لے کر دراب پٹیل اور بھگوان داس تک سب نیک نام تھے۔ ایسی کوئی تحقیق بھی نہیں کی گئی جو یہ بتاتی کہ اگر کچھ مثالیں عدلیہ میں ہیں تو کیا وجہ ہے کہ بیوروکریسی اور سیاست میں ہم اس قبیل کی کوئی مثال نہ قائم کرسکے؟