آج سے 30 یا 40 برس قبل تک انسانوں کے درمیان رابطے کا سب سے بڑا اور مقبول ذریعہ خطوط نویسی یا خط نگاری تھا ۔ دنیائے ادب میں سب سے محبوب اور مقبول سلسلہ اور مشغلہ بھی خط نویسی ہی تھا ۔ اردو شعر و ادب میں تو خط کو خاص اہمیت حاصل تھی ۔ دوست و احباب اور عزیز و اقارب کو خطوط لکھے جاتے اور شعراء اپنی شاعری میں خط کو موضوع اور مرکز سخن بناتے تھے ۔ خط کو زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے انسانوں کی روز مرہ کی زندگی میں غیر معمولی اہمیت حاصل تھی ہی لیکن سب سے زیادہ محبت اور جاسوسی کرنے والے افراد کی زندگی کی ایک اہم ضرورت تھی ۔ سیاستدانوں، ادباء و شعراء اور دانشوروں کیلئے بھی یہی صورت تھی ۔ اردو ادب میں تو غالب کے خطوط بہت مشہور تھے ۔ غلام رسول مہر نے خطوط غالب کے نام سے ایک کتاب بھی لکھ ڈالی ۔
دنیا میں سب سے زیادہ خط لکھنے والی 2 خواتین ہیں ایک بلوچ عورت بانو بنگلانی جس کا تعلق سندھ سے تھا دوسری ورجینیا وولف جس کا تعلق لندن برطانیہ سے تھا اور دونوں کے درمیان 2 صدیوں کا فاصلہ ہے ۔ ورجینیا بیسویں صدی کی عورت تھی اور بانو اکیسویں صدی کی عورت ہے ۔ ورجینیا وولف 1882میں لندن میں پیدا ہوئی ۔اس کے والد لیزلی اسٹیفن مشہور وکٹورین نقاد، سوانح نگار اور دانش ور تھے جبکہ اس کی والدہ جولیا اپنے بے مثال حسن و جمال اور لندن کے ایک ممتاز ادبی حلقے کی میزبانی کی وجہ سے مشہور تھی ۔ ورجینیا وولف کا شمار دنیا کی مشہور خواتین ناول نگاروں میں ہوتا ہے ۔ ان کی ناول کی کئی کتابیں ہیں لیکن ان کے 3 ناولوں کو شاہکار ناول کی حیثیت ہے 1 مسز ڈولووے 2 ٹو دی لائٹ ہاؤس اور 3 دی ویوز ہے ۔ ورجینیا ایک عجیب مزاج کی خاتون تھی اس کی شہرت کی ایک وجہ ہم جنس پرستی ہے ایک اور وجہ اپنے محبوب کو 5 ہزار سے زیادہ خطوط لکھنا ہے ۔ ان کی محبت بھی عجیب تھی ۔ انہوں نے لیو نارڈ سسیکس نامی اپنے دوست سے اس شرط پر شادی کی کہ ہمارے درمیان جسمانی تعلق نہیں ہوگا اس کی جگہ پر محبت، باہمی احترام اور باہمی سہارے کا رشتہ قائم رکھا جائے گا ۔
ورجینیا کا اپنے شوہر سے ویسے ہی ناپائیدار تعلق تھا اس دوران اس کی ویٹا سیکویلے کے نامی ایک اور نوجوان سے محبت ہو گئی اور یہ محبت سر چڑھ کر بولنے لگی ۔ وہ جب تک ویٹا سیکویلے کو خط نہ لکھتی اس کو چین نہ آتا چناں چہ اب اس کا مشغلہ اپنے محبوب کو خط لکھنا ٹھہرا مرزا غالب کے اس شعر کے مصداق
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے
اس محبت کی وجہ سے وولف نے3 سال کے دوران 5 ہزار سے زیادہ خطوط لکھے اور اسی محبت کی بدولت اس نے 1929 میں ایک محبت سے بھرپور ناول Orlando لکھا ۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران لندن شہر پر جرمن بمباری سے وولف کا گھر بھی ملبے کا ڈھیر بن گیا جس کے صدمے سے اس نے 28 مارچ 1941کو دریائے Ouse میں کود کر خودکشی کرلی ۔ سندھ کے تاریخی شہر عمر کوٹ جہاں عظیم مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر اعظم بے کسی کی حالت میں پیدا ہوئے تھے اسی عمر کوٹ کے ایک نواحی گاؤں صوفی فقیر میں ایک لازوال داستان محبت نے جنم لیا ۔ بنگلانی کے بلوچ قبیلے سے تعلق رکھنے والے خان محمد بنگلانی اور بانو بنگلانی کے درمیان عشق و محبت کا رشتہ استوار ہو گیا ۔ معاشرتی سختیوں کے باعث ان کے درمیان براہ راست ملاقات بہت مشکل تھی چناں چہ انہوں نے بھی بذریعہ خط آدھی ملاقات کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ خط لکھنے کے بغیر بانو بنگلانی کو چین نہیں ملتا تھا ان کا مشغلہ بھی اپنے محبوب کو خط لکھنا اور اپنی تصاویر ارسال کرنا ٹھہرگیا ۔ 4 سال کے دوران بانو نے اپنے عاشق خان محمد بنگلانی کو 8 ہزار خط لکھے اور 200 تصاویر بھیجیں ۔ خوشبو کی طرح یہ محبت بھی دنیا کی نگاہوں سے چھپ نہ سکی جس کا انجام یہ ہوا کہ 27 نومبر 2000 کو بانو بنگلانی کے محبوب خان محمد بنگلانی کو گائوں صوفی فقیر میں کلہاڑیوں کے وار کر کے قتل کر دیا گیا اور اس کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے ۔ خان محمد بنگلانی کی موت کے بعد ان کے گھر سے جو سامان برآمد ہوا وہ بزم اکبر آبادی کے شعر کے مطابق
چند تصویر بتاں چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ سامان نکلا
فرق یہ تھا کہ بزم اکبر آبادی کے گھر سے چند خطوط اور چند تصاویر نکلے جبکہ خان محمد بنگلانی کے گھر سے سیکڑوں تصاویر اور ہزاروں خطوط نکلے ۔ یہاں اس شعر کی بابت ایک وضاحت بھی کرتا چلوں کہ یہ مشہور شعر بزم اکبر آبادی کا ہے لیکن مرزا غالب کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے ۔ آخر میں خط کے موضوع پر محسن نقوی کا ایک شعر پیش خدمت ہے
کبھی تو سرخرو ٹھہریں گے جذبے
تمہیں خط خون سے لکھا کریں گے