شمالی کوریا کے قصے کہانیاں تو آپ نے سنے ہوں گے لیکن یہ ملک رہنے کے لئے کیسا ہے، اس کے لئے کچھ باتیں کم جونگ ان کی جو یہاں کے تاحیات صدر ہیں۔ یہ نوجوان حکمران اپنے ملک کے تیسرے صدر ہیں اور انہوں نے ۲۰۱۱ میں اقتدار سنبھالا۔ ان کے دور اقتدار کاآغاز ویسا ہی ہوا جیسے پرانے وقتوں کی شخصی آمریتوں اور بادشاہتیں کا ہوتا رہا ہے۔ جو سینئیر افراد حکومت کو چیلنج کر سکتے تھے، وہ زندہ نہ رہے۔ ان میں کم کے چچا بھی شامل تھے اور پچھلے سال اپنے بھائی کو خطرہ محسوس کرتے ہوئے قاتل ملیشیا بھیجے، لیکن اصل شکار خود اپنے شہری رہے ہیں۔
یہاں پر ایک قانون ہے جو تین نسلوں کا اصول کہلاتا ہے۔ کسی سنگین جرم پر سزا صرف اسے نہیں بلکہ اس کی تین نسلوں کو دی جاتی ہے۔ اس کو توجیح یہ ہے کہ اس طرح برائ کا بیج مٹ جائے گا۔ یہ سزا صدر کی تصویر کی بے حرمتی جیسے ‘سنگین’ جرائم پر بھی دی جا چکی ہے۔ جیل کے اندر کے حالات جان کر برے رکھے جاتے ہیں۔ روز کے بارہ گھنٹے اور ہفتے کے سات روز مشقت۔ قیدیوں سے مار پیٹ معمول کی بات ہے اور ضمانت کا طریقہ نہیں۔
شمالی کوریا کے آئین میں میڈیا کی آزادی کی ضمانت ہے لیکن دوسرے ملک کا کوئی بھی اخبار یا رسالہ ملک میں داخل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی غیر سرکاری میڈیا کی اجازت ہے۔ اور اس پر سختی سے عمل ہوتا ہے۔ بیرون ملک کی موسیقی، کتابوں، ریڈیو یا فلموں کی اجازت نہیں۔ کمپیوٹر خریدنے سے پہلے حکومت سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ انٹرنیٹ پر کڑی سنسر شپ ہے اور بہت ہی کم مواد تک رسائی ممکن ہے۔ فیس بک، گوگل، وکی پیڈیا یا خبروں کی ویب سائٹ نہیں دیکھی جا سکتیں۔ غیرقانونی مواد دیکھنے کی کڑی سزا ہے۔
ہر قسم کے مذہب پر سختی سے پابندی ہے۔ کمیونزم اور شمالی کوریا کا نیشلزم جوشے کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور نظریے کی بات نہیں کی جا سکتی۔ قرآن اور بائیبل سمیت تمام مذہبی کتابوں پر پابندی ہے۔ اس قومی نظریے کے مطابق تمام برائیوں کی اصل وجہ سامراج اور سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ شمالی کوریا کے غیور عوام نے انقلاب کے ذریعے اس کو شکست دے دی ہے۔ عوام کی تقدیر ان کے ہاتھ میں ہے لیکن سامراجی قوتیں ہر طرف سے حملہ آور ہیں۔ کم جونگ ان طبقاتی نظام کے خلاف حاصل کی گئی فتح برقرار رکھنے کے ضامن ہیں۔ مذاہب مغربی قوتوں کے استحصال کا آلہ ہیں۔ کسی مذہبی رسم پر عمل کرنے پر تین نسلوں کی سزا کا قانون ہے۔ خود انحصاری ضروری ہے۔
ملک کے شہریوں کو بیرون ملک جانے کے لئے حکومت کی اجازت ضروری ہے جو کبھی نہیں ملتی۔ چین یا جنوبی کوریا کی طرف بھاگنے والا پکڑا جائے تو سزا لیبر کیمپ ہے۔ کامیاب ہو جائے تو سزا پیچھے رہ جانے والوں کو ملتی ہے۔
معاشی پالیسیوں میں سب سے عجیب خود انحصاری کی پالیسی ہے۔ کوئی ملک خودانحصار نہیں ہو سکتا اس لئے شمالی کوریا بھی اپنے ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔ بہت سی اشیاء بلیک مارکیٹ میں ہی ملتی ہیں۔ اپنے والد اور دادا کی طرح کم جونگ ان بھی فری مارکیٹ اکانومی کے خلاف ہیں۔ اپنا کاروبار کھولنے کی ممانعت ہے۔
اکیس سالہ امریکی طالبعلم آٹو وارمبئیر جو سیاحت کے لئے شمالی کوریا دو سال پہلے گیا، اس کو پوسٹر بنانے کے جرم میں پندرہ سال قید کی سزا ہوئی۔ سترہ ماہ بعد رہا ہونے کے بعد جب واپس امریکہ پہنچا تو اس قید میں ہونے والے معمول کے تشدد کی وجہ سے ہونے والے ٹراما کے بعد واپسی کے کچھ ماہ بعد انتقال ہو گیا۔
آپ دنیا میں جہاں سے بھی یہ پوسٹ پڑھ رہے ہوں، شمالی کوریا سے نہیں پڑھ رہے ہوں گے۔ یہ پوسٹ وہاں پہنچ ہی نہیں سکتی۔ شمالی کوریا میں کم جونگ ان غیر مقبول نہیں۔ یہاں کے لوگ کچھ اور جانتے ہی نہیں۔ ان کے جو بھی مسائل ہیں، اس کی وجہ کوئی اور ہے جس سے ان کے عظیم لیڈر لڑ رہے ہیں۔