ایک ادبی شاہ کار”بساط”
ناز بتول فاطمی،مظفرآباد
“بساط” میرپورہ انٹرکالج (ضلع نیلم) سے نکلنے والا علمی و ادبی مجلّہ ہے۔ یہ کسی ادارے سے نکلنے والا ایک مجلّہ ہی نہیں بلکہ ایک شہ کار ہے ‘ جس نے اپنے دامن میں ادبی تاریخ اور قلم کاروں کی کاوشوں کو سمونا شروع کر دیا ہے۔ “بساط” یقیناََ ایک اسم با مسمّیٰ مجلہ ہے جو صرف ضلع نیلم کے ایک مخصوص علاقے تک ہی محدود نہیں، اس کا پھیلاؤ نہ صرف پورے آزاد کشمیر بلکہ پاکستان کو محیط ہے۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس کی وسعت میں کسی خاص علاقے یا ادارے کے مخصوص اہلِ قلم ہی نہیں آتے بلکہ یہ ایک ایسا ذریعہ اظہار ہے کہ جس میں قابل، ماہرین ، محققین ، مصنفین، مبصرین، شعرا، ادارےکے طلبہ اور اَساتذہ سمیت سبھی لکھنے والوں کو خصوصی جگہ اور مقام دیا جاتا ہے۔ بساط بڑا خوش آئند قدم ہے ہم سب کے لیے’ بالخصوص ان نئے لکھنے والوں کے لیے جو ابھی سیکھ رہے ہیں ‘ جن کے اندر خداداد صلاحیتیں تو موجود ہیں لیکن اپنے آپ کو نکھارنے اور سنوارنے کا کوئی ذریعہ نہیں رکھتے اور نہ ہی کسی ادبی رسالے تک ان کی رسائی ہے۔ اب اس رسالے کی صورت میں علم و ادب سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے ایک ایسی مشعلِ راہ موجود ہے جو ان شاء اللہ تاعمر بلکہ تاقیامت روشنی بھی بکھیرے گی اور اصلاح بھی کرتی رہے گی۔ “بساط” کا پہلا مجلہ آزادکشمیر کے گاؤں میرپورہ ضلع نیلم کے گورنمنٹ انٹر کالج سے 2020 میں شائع ہوا۔ اس کا دوسرا شمارہ 2021 میں اور اب تیسرا 2022 میں شائع ہو رہا ہے ۔ علمی و ادبی تحریروں سے مزیّن اس قسم کے خوب صورت رسالے کو منظرِعام پر لانے کا سہرا اردو کے لیکچرر (استادِ محترم) فرہاد احمد فگار صاحب کے سر ہے. محترم فگار صاحب اس رسالے کے مدیر اعلا ہیں۔ کالج کے سربراہ (پرنسپل) پروفیسر محمد رفیق صاحب کی سرپرستی میں کچھ خاص لوگوں کی جانی و مالی تعاون سے فگار صاحب کو اللہ پاک نے بساط کے اجرا کی صورت یہ شان دار کارنامہ انجام دینے کی توفیق عطا فرمائی۔ ادارے کے ایک اہم رکن بشارت کیانی صاحب (مدیر) نے فگار صاحب کی ہم راہی میں اس کی اشاعت کے سلسلے میں بڑا کام کیا ہے۔ کبھی بھی، کہیں بھی، کسی بھی دور میں کوئی اہم کام انجام دینے کے لیے پہلا قدم اٹھانا بےانتہا مشکل امر ہوا کرتا ہے اور ایسی جگہ کام شروع کرنا جہاں شعور وادراک اور فہم و فراست کی انتہائی کمی ہو. کسی کی سوچ کو بدلنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ بڑے بڑے دل گردے والے لوگ ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ سلام ہے فرہاد احمد فگار صاحب کو، جنھوں نے ان مشکلات کو سہل کرنے کی ٹھانی اور کچھ لوگوں کو اپنا ہم نوا بنا کر ان تھک محنت کے بعد اللّه کے فضل و کرم سے “بساط” کو ادب پسند لوگوں کی نظروں کی زینت بنا دیا۔ جناب مدیرِ اعلا کی جوہر شناس شخصیت ہر لمحہ اس تگ و دو میں رہتی ہے کہ عام سے حقیر پتھروں کو تراش کر ان مول ہیرا بنا کر منظرِ عام پر لے آئیں۔ اس مقصد کے لیے وہ ہر وقت کسی نہ کسی نئے لکھنے والے کو جانچ پرکھ کر مزید لکھنے پر آمادہ کرتے ہیں اور اصلاح بھی کرتے رہتے ہیں۔ انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل میڈیاکی اس عجیب سی کھوکھلی دنیا میں ابھی ایسے لوگ موجود ہیں جو علم اور کتاب دوستی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ایسا صرف اور صرف کتابوں میں موجود مواد کی وجہ سے ہوتا ہے۔ “بساط” ایک ایسا رسالہ ہے جس میں مواد بھی بہترین ہے اور انداز بیان بھی سادہ اور دل چسپ ہے۔ حمدِ خدا اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآله وسلم سے اپنی ابتدا کرنے والے رسالے “بساط” میں ہماری قومی زبان ” اردو” کی بگڑتی صورت کو سنوارنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ فگار صاحب اپنی تحریروں کے وساطت سے بول چال اور لکھنے میں غلط استعمال ہونے والے الفاظ کی اصلاح بھی کرتے رہتے ہیں اور جو الفاظ اب متروک ہو چکے ہیں ان کا احوال بھی بیان کرتے رہتے ہیں۔ ادبا کی شخصیت اور ان کے تخلیق کردہ ادب پر تبصرے بھی کیے جاتے ہیں۔ مختصر حکایات اور واقعات اور احادیث کے موتیوں سے مزیّن ” بساط” کا یہ آنچل لہرا لہرا کر اپنے دیکھنے والوں کی نظروں کو خیرہ کر رہا ہے۔ اصلاحی، تخلیقی اور تحقیقی مضامین کو اپنے پلو سے باندھے غزلوں ، نظموں، لطیفوں اور چٹکلوں سے بھری یہ “بساط” اپنے قاری کے دل کو خوشی سے باغ باغ کرتی ہے۔ اس رسالے کے ذریعے اردو زبان و ادب کے علاوہ ان علاقوں کی مقامی زبان کو بھی فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ فروغ اس لیے بھی ضروری ہے کہ مقامی زبانوں کا اصل اور حقیقی سرمایا اپنے بولنے والے(بوڑھے) لوگوں کے ساتھ زیر زمین دفن ہوتا جا رہا ہے۔ زبان سے محبت کرنے والوں کا یہ ماننا ہے کہ ہر زبان میں ایک الگ سی مٹھاس اور چاشنی ہوتی ہے اور اس چاشنی کو تاابد برقرار رہنا چاہیے ۔ فارسی اور اردو زبان کا بہت گہرا تعلُق ہے۔ اردو زبان میں تقریبا 60 فی صد الفاظ فارسی زبان سے ہی آئے ہیں۔ اردو زبان کو فارسی زبان کی “دختر زیبائی” بھی کہا جاتا ہے اور اس کے علاوہ تمام اردو کلاسیکی شعرا کا بہت سا کلام یا تو مکمل فارسی زبان میں ہے یا فارسی آمیز ہے ۔ غالب ، میر اور شاعر مشرق علامہ اقبال سمیت ان تمام اہم شعرا کے کلام کو بہ طریقِ احسن سمجھنے کے لیے ادب کے طلبہ کے لیے فارسی زبان سے کسی حد تک آشنائی ضروری ہے۔ میری دست بستہ اور مؤدبانہ تجویز ہے کہ اس حوالے سے “بساط” کو اپنے دامن میں فارسی زبان سے متعلق مواد کو بھی خصوصی جگہ دینی چاہیے۔ امید ہے مدیرِاعلا میری تجویز پر ضرور غور فرمائیں گے۔ اس دعا کے ساتھ اجازت چاہوں گی کہ اللہ رب العزت اس رسالے کو تاابد اردو زبان و ادب کے فروغ کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے ساتھ فرہاد احمد فگارصاحب اور ان کے ساتھیوں کو اپنی عزت کے صدقے مزید عزت سے نوازے کہ وہ یوں ہی علم و ادب کی ترویج و ترقی اور ترسیل میں اہم کردار ادا کرتے رہیں۔ آمین ثم آمین۔آخرمیں ایک شعر جناب فرہاد احمد فگار کی نذر:
وہ اردو کا مسافر ہے یہی پہچان ہے اس کی
جدھر سے بھی گزرتا ہے سلیقہ چھوڑ جاتا ہے