”اسکے منہ پہ کوئی ناک نہیں تھا، وہ کانا تھا اور اسکا نا کوئی سر تھا نا ہی دو آنکھیں بلکہ اسکی فقط ایک آنکھ تھی“یہ لائنیں 1665 میں پیدا ہونے والے ایک برٹش بچے کے بارے میں لکھی گئی اور ساتھ میں اسے شیطانی آلہ کار کہا گیا اور تخریب کی وجہ قرار دیا گیا۔ حالانکہ وہ بچہ پیدائش سے کچھ دیر بعد ہی فوت ہوگیا تھا مگر اس بچے کو ایک ڈراؤنا انسان سمجھ کر اس کے خاندان پر جادو ٹونے اور شیطان کا آلہ کار ہونے کا الزام لگایا گیا۔
انسانی لٹریچر ایسے قصوں سے بھرا پڑا ہے جس میں ایک آنکھ والے انسان سے ڈرایا گیا ہے۔ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ایسے انسان پیدا ہوتے ہیں؟ جی ہاں، ایسے انسان اور کئی جانور تقریبا ہر سال پیدا ہوتے ہیں مگر انکی عمر بہت کم ہوتی ہے۔ اور یہ عموما چند گھنٹے زندہ رہ پاتے ہیں۔ کیونکہ ان انسانوں میں کافی اعضاء کی کمی ہوتی ہے اور ایک آنکھ کا بننا ہی بذات خود ان کی مکمل گروتھ نا ہونے کی دلیل ہے۔
مگر اس انسانی راز سے پردہ اٹھانے کے لئے ہمیں کئی صدیاں انتظار میں بیتانی پڑیں ایسا انتظار جس میں ہر ایسا پیدا ہونے والا بچہ ہمیں کوئی مافوق الفطرت مخلوق لگتا تھا۔ لیکن یہ راز ہم پر ایک عام سے جانور مطلب بکری سے کھلا کہ اس ایک آنکھ والے بچے پیدا ہونے کے پیچھے کیا لاجک ہو سکتی ہے؟
دوسری جنگ عظیم کے بعد کا واقعہ ہے۔ اڈاہو امریکہ کے کاشتکار بہت خوفزدہ تھے۔ ان کے خوف کی وجہ بھی کافی حیرتناک تھی۔ کچھ نے اسے جادو کہا تو کچھ نے دنیا کے ختم ہونے کی نشانی، ہوا یہ کہ انکے ہاں پے در پے ایسے میمنے پیدا ہو رہے تھے جو کہ فقط ایک آنکھ رکھتے تھے۔ اور چونکہ انسانی لٹریچر نے ایسے خوفزدہ وجود سے ڈرا رکھا ہے تو وہ پریشان ہو گئے مگر انہوں نے امریکی محکمہ زراعت سے رابطہ کیا اور کہا کہ سائنسدانوں کو اس مظہر کی کھوج لگانے کے لئے بھیجا جائے۔
سائنسدان پورے گیارہ سال اس مظہر کی کھوج لگانے میں جتے رہے مگر ان کو پتا نا چلا۔ کھوج کے اس سفر میں ان میں سے ایک سائنسدان گرمیوں کے تین سیزن ان بکریوں کے ریوڑ کیساتھ رہا ان تین سیزنز کی اس کی یہ محنت بار لے آئی اور بالآخر گیارہ سال بعد پتا چلا کہ اس سب کی وجہ ایک جڑی بوٹی ہے جس کا نام corn lily ہے۔ یہ جڑی بوٹی اڈاہو کے علاقے میں وافر مقدار میں موجود تھی مگر اس جڑی بوٹی میں ایسی کیا بات تھی جو کہ اس کو یوں منفرد بنا رہی تھی اس بات کو جاننا ضروری تھا۔
کیمیائی تجزیوں کے بعد پتا چلا کہ یہ جڑی بوٹی کیمیکل cyclopamine رکھتی ہے یہ کیمیکل کافی جادوائی صلاحیت رکھتا تھا جس کی وجہ سے حاملہ بکری کے پیٹ میں موجود ایمبریو کی گروتھ رک جاتی تھی۔ مادر رحم میں مکمل گروتھ نا ہونے کی وجہ سے ان اجسام کا مکمل سانچہ نہیں بن پاتا تھا جو کہ مختلف طرح کے ڈس آرڈرز کی پیش خیمی ہو سکتا تھا مگر کس طرح کے؟ یہ ابھی جاننا باقی تھا۔
یہ سوال اگلے پچیس سال تک ایک معمہ رہا۔ آخر وہ کیا وجہ تھی کہ cyclopamine نامی کیمیکل بکری کے میمنوں کی گروتھ روک کر انکی ایک آنکھ بنا رہا تھا؟ اور اس میں وہ کونسی خاصیت تھی جو کہ گروتھ پہ اتنی بری طرح سے اثر انداز ہو رہی تھی؟
اب ہمیں اس سوال کا جواب مل گیا ہے ۔ یہ کیمیکل ایک جین جس کا نام Sonic hedgehog gene ہے اس کے فنکشن کو روک دیتا ہے۔ سانک ہیج ہاگ نامی یہ جین ایمبریو میں گروتھ کو ممکن کراتا ہے اور دماغی اعضاء بنانے میں مدد دیتا ہے۔
جین کیا ہوتا ہے؟
آپ انسانی جسم کو ایک کتاب سمجھیں ، اب ہر کتاب مختلف طرح کے حروف سےسے مل کر بنتی ہے۔ ایک انگریزی کی کتاب میں استعمال ہونے والے حروف تو چھبیس ہی ہوتے ہیں مگر ان چھبیس حروف کو ہمارا ذہن یوں ترتیب دیتا ہے کہ یہ چھبیس حروف سے ہزار سے دو ہزار حروف کی کتاب تو کیا کڑوڑوں کتب تک لکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یہی حساب ہمارے جسم کا ہے۔ ہمارا جسم چارقسم کے کیمیائی حروف سے مل کر بنتا ہے یہ کیمیائی حروف اتنے زیادہ ہیں کہ ان کی تعداد ایک خلئے میں چھ ارب ہوتی ہے اور یہ خلئے ہمارے کے ہر ذرے میں لاکھوں کی تعداد میں اور ہمارے مکمل جسم میں کھربوں کی تعداد میں ہو سکتے ہیں۔ یہ چار حروف مختلف ترتیب کیساتھ مل کر ایک جین بناتے ہیں یا سادہ الفاظ میں ایک ایسا لفظ جس کی سمجھ آسکے کیونکہ ایک جین ہمارے ڈی این اے کا وہ جملہ ہوتا ہے جو کسی مقصد کے پروٹین یا پھر خامرے میں تبدیل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ خامرے مل کر ہمارے خلئے بناتے ہیں اور خلئے مل کر جسم کو وجود دے دیتے ہیں۔
جب بھی ایک ایمبریو مادر رحم میں اپنے بننے کے ابتدائی مراحل میں ہوتا ہے تو یہ ایک گیند کی شکل میں ہوتا ہے اس گیند میں خلئے تو ہوتے ہیں مگر کونسا خلیہ کونسے اعضاء میں بدلے گا اس کا ایمبریو کو علم نہیں ہوتا۔ لیکن ہمارے ڈی این اے میں یہ معلومات مکمل طور پہ موجود ہوتی ہے کہ کونسا خلئہ کونسے کوڈ سے بنے گا اور کونسا خلئہ کونسے اعضاء بنانے میں مدد دے گا۔ فطرت نے یہ سب کچھ ایک خود کار نظام کے تحت ہم میں محفوظ کر رکھا ہے اور یہ عام طور پہ بغیر کسی غلطی کے آگے چلا جاتا ہے۔
وہیں اگر ہمارے جسم کے بننے کے اس ابتدائی عمل میں کوئی غلطی ہوجائے تو ہمارا جسم مکمل نہیں بن سکتا اور یہ پیدائش سے پہلے ہی ضائع ہو جاتا ہے اور اس عمل کو ہم سادہ الفاظ میں حمل گر جانے سے تشبیہ دیتے ہیں لیکن حقیقت میں حمل گر جانے کا مطلب یہی ہے کہ بچہ بننے کے عمل میں کوئی پیچیدگی آ گئی تھی جس کی وجہ سے وہ مکمل نہیں بن پایا اور ماں کا حمل گر گیا ہے۔
70 کی دہائی میں سائنسدانوں Christiane Nüsslein-Volhard اور Eric Wieschaus نے فروٹ فلائی پہ بے تحاشہ تجربے کئے تو ان کو پتا چلا کہ پچاس سے زیادہ جینز ان ایمبریوز کو ایک مکمل مکھی بننے میں گائیڈ کرتے ہیں۔ ان کے بغیر مکھی کا ایمبریو تقسیم ہونے کی سمجھ نہیں رکھتا۔
اسی مکھی کو پڑھتے ہوئے سائنسدانوں نے اس جین کو دیکھا جس کے فنکشن رکنے کی وجہ سے وہ مکھیاں کانٹے دار جلد بنا رہی تھی۔ بعد میں اس جین کا نام سائنسدانوں نے ویڈیو گیم سانک کے کردار پہ رکھ دیا۔ کیونکہ ویڈیو گیم کا یہ کردار کانٹے رکھتا تھا ۔
اسی دریافت پہ ان سائنسدانوں کو نوبل انعام بھی ملا!
یہ جین مختلف جانداروں میں مختلف حصوں کا اظہار کرانے میں مدد دیتا ہے۔ انسانوں اور بکریوں میں یہ جین دماغی گروتھ کا ذمہ دار ہے۔ پیدائش سے پہلے ماں کے پیٹ میں بچہ مختلف مدارج سے گزرتا ہے جن میں سے ایک درجہ دماغ کو دو مختلف حصوں میں تقسیم کرنا ہے۔ اگر اس جین کا فنکشن روک دیا جائے تو ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں جن کا دماغ دو حصوں میں تقسیم نہیں ہو پاتا اور انکی ایک آنکھ ہوتی ہے۔
عموما ایسے کیسز چند گھنٹے یا منٹ زندہ رہنے کے بعد مر جاتے ہیں۔ انسانوں میں عموما حمل میں ہی ایسے بچے گر جاتے ہیں۔ اس بیماری کو ہم سائیکلوپیا کہتے ہیں۔ اور اس بیماری کی وجہ سانک ہیج ہاگ جین بنتا ہے۔جس کی کمی کی وجہ سے انسانی دماغ ٹھیک طرح سے تقسیم نہیں ہو پاتا اور اس وجہ سے وہ بچہ ماں کے پیٹ میں ہی ضائع ہو جاتا ہے۔ عموما انسانوں میں ہر گرنے والے دو سو میں سے ایک حمل کے گرنے کی وجہ یہ جین ہوتا ہے جو کہ بچے کو مکمل انسان نہیں بنا پاتا اور حمل گر جاتا ہے۔ اسی طرح جانوروں میں یہ ہر سولہ ہزار میں سے ایک میمنا ایسا پیدا ہوتا ہے۔
حمل کے دوران الٹیوں سے بچنے کے لئے پرانے انسان کارن للی نامی بوٹی کھا جایا کرتے تھے گو ان انسانوں کو تو اس بات کا علم نہیں ہوتا تھا کہ اس جڑی بوٹی کا کیا نقصان ہو سکتا ہے مگر اس بوٹی کو کھانے کی وجہ سے اس میں موجود کیمیکل بچے کے اس جین کے فنکشن روک کر ایسا بچہ پیدا کروا دیتے تھے۔ لیکن وہیں ضروری نہیں ہے کہ اس بوٹی کو کھانے کی وجہ سے ہی ایسا ہو سکے بلکہ نارمل میوٹیشن مطلب ڈی این اے میں ہونے والے تغیر بھی اس کی بڑی وجہ ہیں اسی لئے یہ بیماری ہر دو سو میں سے گرنے والے ایک حمل کی بنیادی وجہ ہے۔
جہاں یہ پراسرار جین نومولود بچوں کی دماغی تقسیم کو روکتا ہے اور اتنے پراسرار قسم کے بچوں کی پیدائش کا باعث بنتا ہے وہیں یہ بالغ انسانوں میں کینسر کی روک تھام میں کافی مدد دیتا ہے اور اس میں تبدیلیوں کی وجہ سے ریسرچ لیب میں کینسر کو روکنے کے کامیاب تجربے کر چکے ہیں۔ لیب میں ایڈز اور پینکریاز کے کینسر (معدے کے السر) کی دوا کے طور پہ سانک ہیج ہاگ کو روک کر کینسر کا علاج ممکن ہو سکا ہے۔ اگر اس کو روک دیا جائے تو ہم کینسر کا بھی علاج کر سکتے ہیں اور یوں ایک ڈراؤنی انسانی کہانیوں کے کردار سے لیکر انسانی جانوں کے بچاؤ تک کا سفر مکمل ہو سکتا ہے۔ لیکن اس سفر کی تکمیل کے لئے ہمیں جدید میڈیسن کو بروئے کار لا کر اس جین کیساتھ یوں چھیڑ چھاڑ کرنی چاہیے کہ یہ ہمارے لئے باعث رحمت بن جائے اور ہم کینسر کی ایک قابل اثر دوا بنانے میں کایاب ہو سکیں۔