آج – 9؍فروری 1978
اردو کے عظیم شاعر علّامہ سیمابؔ اکبر آبادی کے فرزند، ممتاز صحافی اور مشہور شاعر” اعجازؔ صدّیقی صاحب “ کا یومِ وفات…
اعجاز صدیقی (اصل نام اعجاز حسین صدیقی ) 1913ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ معقول تعلیم حاصل کی، انھیں اردو کے علاوہ عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں پر بھی دسترس حاصل تھی۔ غزل، نظم، تحقیق، تنقید، اصلاحِ سخن، مذہب کی پابندی، پاسداری، غرض کہ ہر وہ خصوصیت جو سیماب میں تھی اس کا کچھ نہ کچھ اثر اعجاز صدیقی کی شخصیت میں بھی تھا۔ سیماب نے آگرہ سے 1930ء میں رسالہ شاعر جاری کیا اور 1935ء میں اسے اعجاز صدیقی کو اس کا ایڈیٹر بنا دیا، انھوں نےتمام نامساعد حالات کے باوجود تاحیات اپنے والد کے اس چراغ کو روشن رکھا یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ ان کی ادارت میں ماہنامہ شاعر کے کئی ضخیم اور دستاویزی خاص نمبر شائع ہوئے جن میں خواتین افسانہ نگار نمبر، منٹو نمبر، آگرہ اسکول نمبر، غالب نمبر، افسانہ ڈرامہ نمبر، قومی یکجہتی نمبر، عصری ادب نمبر، گاندھی نمبر اور ناولٹ نمبر وغیرہ شامل ہیں۔ تقسیمِ ہند کے وقت خاندانِ سیماب کراچی چلا گیا لیکن اعجاز صدیقی نے ہندوستان ہی میں رہنا پسند کیا، 1951ء میں علّامہ سیماب کی وفات کے بعد وہ آگرہ سے ہجرت کرکے بمبئی (ممبئی) آگئے۔ اعجاز صدیقی نے نظم اور نثر دونوں میں بہت کام کیا لیکن وہ سب شاعر اور دیگر رسائل کے صفحات میں بکھرا ہوا ہے، نظموں کے دو مجموعے ’’ خوابوں کا مسیحا‘‘ اور ’’کربِ خود کلامی‘‘ شائع ہوئے نیز غزلوں کا مجموعہ ’’ درونِ سخن‘‘ ان کی وفات کے 35 برس بعد چھپا۔ ان کی غزلوں کے تعلّق سے ان کے معاصر شاعر علی سردار جعفری نے لکھا کہ ’’ غزلوں میں ان (اعجاز صدیقی) کا انداز کلاسیکی رہا ہے لیکن اس کلاسیکیت میں انھوں نے جدید عہد کے تقاضوں کی اس طرح آمیزش کی ہے کہ زبان جدّت اور روایت کا ایک خوبصورت امتزاج بن گئی ہے ۔۔۔۔۔ ان کی غزلیں جدید غزل میں ایک بلند مقام رکھتی ہیں لیکن جس طرح اقبال اور یگانہ کی غزل گوئی کو نظر انداز کیا گیا ہے اسی طرح اعجاز صدیقی کی غزل کے ساتھ بھی بد سلوکی کی گئی ہے۔ اس عہد کے غزل کے معماروں میں ان کا نام مستند، معتبر اور قابلِ فخر ہے۔‘‘ اعجاز صدیقی نے اردو کے لیے تاعمر مجاہدہ کیا، مہاراشٹر میں اردو اکادمی کا قیام ان کا ایک اور اہم کارنامہ ہے۔ انھوں نے 9؍فروری 1978ء کو ممبئی میں وفات پائی، ان کے بعد ان کے فرزندان افتخار امام صدیقی، ناظر نعمان صدیقی اور حامد اقبال صدیقی اردو ادب کے اس شجر کی آبیاری کر رہے ہیں جسے علّامہ سیمابؔ نے لگایا تھا۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
مشہور شاعر اعجازؔ صدّیقی کے یوم وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
نظامِ فکر نے بدلا ہی تھا سوال کا رنگ
جھلک اٹھا کئی چہروں سے انفعال کا رنگ
نہ گل کدوں کو میسر نہ چاند تاروں کو
ترے وصال کی خوشبو ترے جمال کا رنگ
ذرا سی دیر کو چہرے دمک تو جاتے ہیں
خوشی کا رنگ ہو یا ہو غم و ملال کا رنگ
زمانہ اپنی کہانی سنا رہا تھا ہمیں
ابھر گیا مگر آغاز میں مآل کا رنگ
اسیر وقت ہے تو میں ہوں وقت سے آزاد
ترے عروج سے اچھا مرے زوال کا رنگ
بسان تختۂ گل میری فکر ہے آزاد
مثال قوس قزح ہے مرے خیال کا رنگ
●━─┄━─┄═••═┄─━─━━●
ناسزا عالمِ امکاں میں سزا لگتا ہے
ناروا بھی کسی موقع پہ روا لگتا ہے
یوں تو گلشن میں ہیں سب مدعیٔ یک رنگی
باوجود اس کے ہر اک رنگ جدا لگتا ہے
کبھی دشمن تو کبھی دوست کبھی کچھ بھی نہیں
مجھے خود بھی نہیں معلوم وہ کیا لگتا ہے
اس کی باتوں میں ہیں انداز غلط سمتوں کے
ہو نہ ہو یہ تو کوئی راہنما لگتا ہے
نہ ہٹا اس کو مرے جسم سے اے جان حیات
ہاتھ تیرا مرے زخموں کو دوا لگتا ہے
دور سے خود مری صورت مجھے لگتی ہے بھلی
جانے کیوں پاس سے ہر شخص برا لگتا ہے
روکتا ہوں تو یہ رکتا ہی نہیں ہے اعجازؔ
مجھے ہر روز و شب وقت ہوا لگتا ہے
▬▬▬▬▬▬ ✪ ▬▬▬▬▬▬
ذروں کا مہر و ماہ سے یارانہ چاہئے
بے نوریوں کو نور سے چمکانا چاہئے
خوابوں کی ناؤ اور سمندر کا مد و جزر
ٹکرا کے پاش پاش اسے ہو جانا چاہئے
نشتر زنی تو شیوۂ ارباب فن نہیں
ان دل جلوں کو بات یہ سمجھانا چاہئے
ہو رقص زندگی کے جہنم کے ارد گرد
پروانہ بن کے کس لیے جل جانا چاہئے
کھودیں پہاڑ اور بر آمد ہو صرف گھاس
مصرعوں کو اس قدر بھی نہ الجھانا چاہئے
فن کار اور فن کے تقاضوں سے نا بلد
احساسِ کمتری ہے تو لڑ جانا چاہئے
نامِ حسین لے کے حقائق سے روکشی
ایسوں کو قبل موت ہی مر جانا چاہئے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
اعجازؔ صدّیقی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ