تحریر : آئیدا بار (کیوبا)
مترجم : محمد فیصل (کراچی)
دو پولیس والےگلی میں داخل ہوئے۔ ایک کانام امیتریو تھا، دوسرے کو میں نہیں جانتی تھی۔ مجھے دیکھ کر دونوں دروازے کے باہر ہی رُک گئے۔ امیتریو ذرا آگے کھڑا تھا، دوسرا سپاہی اس سے دو قدم پیچھے کھڑا اپنی ٹوپی اتار کر پیشانی سے پسینہ پونچھ رہا تھا۔ ان دونوں کا وہاں آنا مجھے کھٹک رہا تھا۔ کچھ تو گڑبڑ تھی۔ اس دن صبح سے ہی فضا میں غیر معمولی خاموشی محسوس ہو رہی تھی اور اوپر سے یہ دو شکلیں۔
’’**آئرس **گھر پر ہے؟”
مجھے جواب دینے کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ **آئرس **باورچی خانےسے اپنی مخصوص چال چلتی بیرونی دروازے پر آگئی۔اس نے سر کے جھٹکے سے پیشانی پر آنے والی لٹیں پیچھے کیں اور اپنا ایک ہاتھ اپنے کولہے پر رکھا، سخت گیر آئرس۔ امیتریونے اسے دیکھ کر اپنا سر جھکایا اور بولا.
’’مجھے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔”
**آئرس **نے دروازہ کھول دیا۔ دونوں اندر داخل ہوئے مگر دروازے کے پاس ہی کھڑے رہے۔
’’اس لڑکی کو باہر بھیج دو ۔”
’’یہ لڑکی بارہ برس کی ہے۔ کیا بات کرنی ہے؟ ”
لڑکی، یعنی میں اچانک پسینے میں نہاسی گئی۔ مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی اور یوں محسوس ہونے لگا جیسے گلے میں کوئی شےچبھ رہی ہے۔ میں نے تھوک نگلنے کی کوشش کی مگر گلے حلق میں جیسے کوئی گولہ پھنس چکا تھا۔میرا دل چاہا کہ میں ساحل کی طرف نکل جاؤں مگر میرے پیر جیسے وہیں گڑے رہے۔ اگر **آئرس **یہ چاہتی تھی کہ میں امیتریو کی کہانی سنوں تو مجھے وہاں موجود رہنا تھا۔ امیتریو کا داخلہ اس گھر میں منع تھا مگر آج کچھ تو ایسا ضرور ہوا تھا کہ **آئرس **نے اسے اندر بلا لیا تھا۔ پچھلے چار سالوں میں وہ گھر کے دروازے تک بھی نہیں آیا تھا۔ یہ سیموئل کا گھر تھا۔
٭
سیموئل امیداور حوصلے کا سمندر تھا۔ اس کے بازو لمبے اور اس کی رگیں اتنی موٹی تھیں جیسے ابھی پھٹ جائیں گی۔ اس سے ہمیشہ نمک کی بو آتی ،بلکہ اس سے پھوٹنے والی بو پورے گھر میں محسوس کی جاسکتی تھی۔
’’جس کسی نے یہ گھر بنایا ہے وہ تمھاری طرح پاگل ہے۔”
یہ وہ پہلا جملہ تھا جو **آئرس **نے اس گھرکو دیکھتے ہی بولا تھا۔ بیرونی دروازہ باورچی خانے میں کھُلتا تھا، پھر ایک راہ داری تھی جس میں پہلے غسل خانہ، پھر بیڈ روم اور آخر میں لائونج۔ لائونج میں ایک دروازہ تھا جس کے کھلتے ہی چند سیڑھیاں تھیں اور چھے فٹ کی پٹی کے بعد سمندر ۔لہریں سیڑھیوں تک آرام سے آجاتیں ۔مجھے تو یہ گھر بڑا فضول لگا مگر سیموئل نے سمجھایا کہ آنے والے اپنی کشتیاں سیدھا سیڑھیوں کے پاس آکر روکیں گے۔
’’اور سمندر نے اس گھر کو نگل لیاتو؟”
’’گھرکےنیچے نصب لکڑی کے ستون اپنا کام دکھائیں گے۔ اگر سمندر کا پانی یہاں تک آگیا تو پورا گھر تیرنے لگے گا اور ہم اس میں بیٹھے بیٹھے مچھلیاں شکار کرلیں گے.”
یہ تھا سیموئل۔ ہمیشہ کچھ اچھا کرنے کا خواہش مند۔ ایک ایسا گھر جس کے ایک طرف سمندر اور دوسری طرف کچی سڑک۔ میرا بستر لائونج میں بچھایا گیا تھا۔ شروع کی چند راتیں تو میں جاگتی رہی۔ لہروں کی آوازیں، اس کے بعد چوبی ستونوں کی چرچراہٹ اور ساتھ والے کمرے سے سیموئل کے خراٹوں کی آوازیں۔ میں لیٹنے کے بجائے بیٹھ جاتی۔ میں ہونٹوں پر زبان پھیرتی تو منہ میں نمک کا ذائقہ آتا۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے یہ گھر اور سمندرعظیم الجثہ جانور ہیں جنھوں نے مجھے اپنی بے انت وسعتوں اور اتھاہ گہرائیوں میں مقید کر لیا ہے۔
٭
امیتریوبیٹھ چکا تھا مگر اس کا ساتھی اپنی ٹوپی ہاتھ میں پکڑے دروازے کے پاس ہی کھڑا تھا۔ دونوں بالکل خاموش تھے کہ **آئرس **کے چہرے اور آنکھوں سے گویا شعلے لپک رہے تھے۔ ایسا ہی نانی کے ساتھ کچھ عرصہ پہلے پیش آیا تھا۔وہ مجھے وہاں سے لے جانے آئی تھیں۔ انھوں نے ایک جملہ بولا
’’مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے‘‘۔
’’کریں‘‘۔
اس کے بعد **آئرس **کے چہرے اور آنکھوں میں ایسا تاثر جاگا کہ دادی خاموشی سے کرسی پر بیٹھ کر اپنے رومال سے کھیلنے لگیں۔ امیتریو کے دونوں ہاتھ خالی تھے، اسی لیے وہ خاموشی سے فرش پر بنے ڈیزائن کو گھورے جارہا تھا۔ وہ چاہ رہا تھا کہ **آئرس **کا مزاج کچھ دھیما ہو تو وہ کچھ بات کرے۔ نانی نے تو پانی مانگ لیا تھا۔
نانی پہلے سے کمزور لگ رہی تھیں۔ ہم نے انھیں کھڑکی سے آتے دیکھا تھا۔ وہ بائیں طرف کو جھُک کر چل رہی تھیں جیسے ایک چھوٹی کشتی اپنے لنگر کو کھینچ رہی ہو۔ سیموئل نے سب سے پہلے انھیں آتے دیکھا۔
’’اوہ !تمھاری نانی آرہی ہیں۔ جھگڑے سے بچنے کے لیے میں تو باہر جارہا ہوں‘‘۔
میں بھی اس کے ساتھ جانا چاہ رہی تھی، مگر اس نے مجھے کرسی پر ہی بیٹھے رہنے کا اشارہ کیا۔
’’یہیں بیٹھو۔ تمھاری نانی تم سے ملنے آرہی ہیں‘‘۔
**آئرس **نے دروازہ کھولا اور وہیں کھڑی رہی۔ اس نے نانی کو اندر آنے کا بھی نہیں کہا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ نانی اندر نہیں آئیں گی مگر وہ اندر آکر ایک کرسی پر بیٹھ گئیں۔ آخر پانی مانگنے پر جب **آئرس **مڑی تو نانی بولنے کی ہمت کر پائیں۔
’’انھوں نے سیموئل کی کشتی کھلے سمندر میں پکڑی ہے‘‘۔
امیتریوکی آواز میں کھردرا پن تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اور بھی کچھ بولے گا۔ میرا دل چاہا کہ میں ایک چیخ مار کر گلا صاف کرلوں مگر **آئرس **نے میری طرف دیکھا تو میری چیخ کا گلا گھٹ کر رہ گیا۔ اس کی نظریں تب بھی ایسی ہی تھیں جب دادی بول رہی تھیں۔
٭
’’تم نے اسے خاندان سے دور کردیا ہے۔ یہ تم نے ٹھیک نہیں کیا۔ اس کی بیوی دہائیاں دے رہی ہے کہ اگر وہ گھر واپس نہ آیا تو وہ خود کو مار لے گی۔ اس کا خون تمھاری گردن پر ہوگااور اگر وہ بے گھر رہ گیا تو اس کی ذمہ دار بھی تم ہی ہو گی‘‘۔
**آئرس **جس طرح اپنے ہونٹ چبا رہی تھی اس سے صاف پتا لگ رہا تھا کہ وہ اپنے قہقہے کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ اس کا قہقہہ بے حد بلند ہوتا تھااور میں بھی اسی طرح ہنستی ہوں۔ مجھے شرم بھی محسوس ہوتی کہ نانی اس طرح قہقہے لگانے کو بد تہذیبی گردانتی تھیں۔ وہ دن میرے حافظے پر نقش ہے۔ **آئرس **کرسی سے ٹیک لگائے بیٹھی ، اتنی بری طرح ہنس رہی تھی کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئےاورنانا اسے کوس رہی تھیں کہ ان کی کسی بیٹی نے ان سے برتائو آج تک نہیں کیا۔ وہ اب مزید یہ سب کچھ برداشت نہیں کر سکتے۔ ان کا چہرہ سرخ ہوتا جارہا تھا ، ایسا محسوس ہوتا تھا گویا **آئرس **کی ہنسی سے ان کاپارہ مسلسل بلند ہورہا ہے۔میں نانا کی چیخ و پکار سے بچنے کے لیے اپنے بستر کے نیچے جا چھپی۔اس واقعے کے برسوں بعد، میں آج بھی جب زور سے ہنستی ہوں میرے ذہن میں نانا کی آواز گونجتی ہے کہ ایسے تو بد ذات ہنستے ہیں اور میں اپنی ہنسی روک لیتی ہوں۔ آخر ایک دن میں نے اس طرح اچانک چپ ہونے کی عادت ترک کر دی۔ اس دن مجھے سیموئل نے بتایا تھا ۔
’’کہ میں **آئرس **کو اس لیے اتنی محبت کرتاہوں کہ وہ اِس طرح ہنستی ہے۔”
٭
’’تو وہ چلا گیا۔”
**آئرس **کا لہجہ ویسا ہی تھا ، جیسانانی سے بات کرتےہوئے تھا مگر میری توقع کے برعکس وہ اس بار ہنسی نہیں۔اس نے میری طرف دیکھا، اس کی نظروں میں ایک پیغام چھپا تھا جیسے وہ مجھے کہہ رہی ہوں.۔
’’اگر وہ خود کشی کرنا چاہتی ہے تو جائو رسی ڈھونڈو‘‘۔
نانی کی آواز میں خوف تھا مگرامیتریو نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔
“کیا اس نے ملک چھوڑنے کے بارے میں کوئی بات کی ہے ؟”
**آئرس **نے اٹھ کر انھیں کافی کے کپ تھما دیے۔ دونوں اطمینان سے گھونٹ بھرنے لگےحالانکہ کافی ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ اس لمحے مجھے وہ تینوں بھوت لگنے لگے۔ **آئرس **نے عجیب سی آواز میں کہا۔
’’جب سے اسے اپنے بھائی کا خط ملا ہے اس کا رویہ تھوڑا مختلف ہو گیا ہے‘‘۔
یہ جھوٹ تھا، سفید جھوٹ۔ سیموئل ہمیں چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔ اس کے بغیر یہ گھر گِر جائے گا۔
٭
’’تم ہمیشہ جہنم کی آگ میں جلو گی۔”
دادی نے اداس آواز میں اسے بددعا دی۔ **آئرس **نے انتہائی غصیلی آواز میں جواب دیا۔
’’یہ میرا گھر ہے اور جب تک میں زندہ ہوں ، مجھے یہاں سے کوئی نہیں نکال سکتا.”
یہ گھر اسے سیموئل نے تحفے میں دیا تھا۔ وہ یہاں آکر بہت خوش تھی۔ میں بھی بے حد خوش تھی۔ یہ گھر امیتریو کےکمرے سے ہزار گنا بہتر تھا۔ ہر گھر کی اپنی مہک ہوتی ہے۔ نانا کے گھر پیاز اور کافی کی خوش بو آتی تھی۔ ہر صبح میری آنکھ نانا کی کھانسی اور غراروں کی آواز سے کھلتی۔ نانا سارا دن کھانستے، کافی اور سگار پیتے رہتے۔ نانی ایک ایپرن باندھ کر صلیب کے سامنے دعائیں پڑھتی رہتیں۔ اس روز سہ پہر کے قریب نانا نے **آئرس **کو گھر سے نکال باہر کیا۔ نانی نے مجھے اتنے زور سے بھینچا کہ میرا دم گھُٹنے لگا۔ نانا بے حد غصے میں تھے، انھوں نے **آئرس **کا سوٹ کیس اٹھا کر باہر پھینکا اور گرجے.
’’اب میں تمھیں یہاں ایک منٹ بھی برداشت نہیں کر سکتا۔”
’’جب سے میں نے اس حبشی سے ملنا شروع کیا ہے ، آپ کو مسئلہ ہورہا ہے.”
نانی دونوں کے درمیان آگئیں۔ نانا غصے میں بکتے جھکتے یہ کہتے چلے گئے
’’میری واپسی تک یہ یہاں سے دفع ہوجائے۔”
٭
’’مجھے اسے لے جانے دو۔ وہ بہت چھوٹی ہے.”
گھر میں ان کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ نانی اس وقت تو مجھے لینے نہ آئیں جب میں امیتریو کے اُس چھوٹے سے کمرے میں رہتی تھی۔کمرے کی دیواریں اتنی پتلی تھیں کہ ساتھ والے کمروں کی ہر آواز یہاں سنائی دیتی تھی۔
’’تمھاری ماں ایک حبشی پولیس والے کے ساتھ رہ کر خود کو کچھ سمجھنے لگ گئی ہے۔”
میں ان دنوں نانی کے ساتھ بخوشی واپس چلی جاتی۔ چاہے مجھے ان کے ساتھ ہر اتوار گرجا جانا پڑتا۔ بعض اوقات ان کا رویہ ذرا عجیب ہو جاتا مگر وہ مجھے پیار کرتی تھیں۔ مگر وہ تب مجھے لینے ہی نہ آئیں۔ امیتریو **آئرس **کے پاس چار سال بعد آیا تھا۔ سکول آتے جاتے میرا اس سے ٹاکرا ہو جاتا تھا۔ ان چار برسوں میں اس نے صرف ایک بار مجھے روک کر پوچھا تھا۔
’’تمھاری ماما کیسی ہیں؟ ”
’’ٹھیک ہیں ۔”
اور ہم دونوں بالکل ٹھیک اور بے حد خوش تھے۔ سیموئل کے گھر، لکڑی سے بنے کشتی نما گھر میں جہاں نمک، آیوڈین اور چونے کی بو پھیلی رہتی۔
٭
**آئرس **نے ایک لفافہ اُس کی طرف بڑھایا۔ اس پر لگی ٹکٹیں قینچی سے کاٹ لی گئی تھیں۔ امیتریو نے بے صبری سے لفافہ کھولا مگر وہ خالی تھا۔
’’خط کہاں ہے؟ ”
’’مجھے علم نہیں ہے۔ اس نے مجھے خط نہیں دکھایا.”
میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں چیخ مار کر روئوں۔ میرا چہرہ جل رہا تھا۔**آئرس **کی نظریں مسلسل مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔ میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں ساحل پر جائوں اور سیموئل کو آوازیں لگاؤں.
’’وہ گھر سے کب نکلا؟”
’’رات کے کھانے کے بعد، آٹھ بجے کے قریب۔ وہ یہاں نہیں سوتا‘‘۔
**آئرس **نے یہ باتیں بڑے دھیمے لہجے میں کیں۔اس کی آواز نانی جیسی لگ رہی تھی۔ مگر امیتریو نے کچھ محسوس نہ کیا ۔ اس نے تو یہ بھی نہیں دیکھا کہ **آئرس **مسلسل مجھے دیکھ رہی ہے۔ وہ پورے اطمینان سے کرسی سے ٹیک لگا کر بیٹھا اور ساتھ آنے والے سپاہی کو حکم دیا کہ وہ گودی پر جا کر سیموئل کو تلاش کرے اور پوچھے کہ کسی نے اسے اپنی کشتی لے جاتے دیکھا ہے؟
٭
ایک دن نانی نے مجھے میرے والد کی تصویر دکھائی۔ اب مجھے ان کا چہرہ بھی یاد نہیں کہ **آئرس **گھر چھوڑتے ہوئے وہ البم وہیں چھوڑ آئی تھی۔ نانی نے مجھے بہت سی باتیں بتائیں۔ انھوں نے بتایا کہ **آئرس **نے میرے پیدا ہونے کے تین دن بعد تک مجھے دیکھا تک نہیں۔ تیسرے دن اس نے مجھے اپنا دودھ پلایا کہ مسلسل رونے کی آواز سے وہ پاگل ہوئے جا رہی تھی۔ اس کی دعا تھی کہ میں مر جائوں۔ وہ اپنے والدین سے شدید ناراض تھی کہ انھوں نے اس کی شادی کروا دی تھی اور اوپر سے میں پیدا ہو گئی تھی۔ میرے ذہن میں والد کی ایک ہی شبیہہ تھی،ایک دبلا پتلا، خوف زدہ چہرے والا نوجوان۔ مجھے تو آج تک حیرت ہوتی ہے کہ گھر چھوڑتے وقت وہ مجھے ساتھ لے آئی تھی۔
امیتریو نے اسے چبھتی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’تم دونوں میں کوئی مسئلہ ہوا ہے؟ ”
’’نہیں! ”
٭
**آئرس **امیتریو کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی۔
’’اگر مجھے کچھ پتا چلا تو میں تمھیں بتادوں گا. ”
’’مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘۔
**آئرس **نے مجھے دیکھا اور اس کے چہرے پر اطمینان آگیا۔
’’میں چھوڑ کر جانے والوں کی رتی برابر پروا نہیں کرتی۔ مجھے تو اس کے باپ کا نام بھی یاد نہیں‘‘۔
امیتریو کھڑا ہوگیا۔ وہ طویل قامت تھا۔ اس کا چہرہ بہت با رعب تھا مگر اس کی آنکھوں میں پیلاہٹ تھی۔
’’میرے لائق کوئی کام ہو تو بلا تکلف بتانا۔مجھے بے حد خوشی ہوگی کہ میں تمھارے کام آسکوں‘‘۔
مجھے نانی یاد آگئیں۔ وہ بھی دروازے پر کھڑے ہو کر کہہ رہی تھیں۔
’’اگر تم اپنا ارادہ بدلو تو مجھے بتانا۔ میں اسے آکر لے جائوں گی‘‘۔
**آئرس **نے درشتی سے جواب دیا۔
’’میری بیٹی میرے ساتھ رہے گی۔”
امیتریو باہر نکل گیا۔ **آئرس **نے کرسیوں کو اپنی جگہ پر رکھا اور میری طرف دیکھے بغیر باورچی خانے میں چلی گئی۔
٭
گھر پر گہری خاموشی طاری تھی۔ **آئرس **اپنے مخصوص انداز میں سو رہی تھی۔ پیٹ کے بل، اس کے بال اس کے چہرے پر ہوتے اور ایک بازو تکیے کے نیچے جبکہ دوسرا جسم سے قدرے فاصلے پر ہوتا۔ ایک دن میں بھی اسی طرح سونے لگوں گی۔ اس وقت دن کے گیارہ بجے تھے مگر **آئرس **اس طرح سو رہی تھی، جیسے آدھی رات ہو۔ میں نے خاموشی سے الماری کھولی اور آئرس کا تیراکی کا لباس نکالا۔ جب ہم نے امیتریو کا کمرہ خالی کیا تو **آئرس **اس کی دی ہوئی ہر شے وہیں چھوڑ آئی، کپڑے، زیورات اور میک اپ کا سامان۔ سیموئل نےہمیں یہ گھر دیا، اپنی چھت کا سکون دیا۔ ہم دونوں اپنی زندگی کا بہترین وقت گزار رہے تھے۔
٭
ایک دن سیموئل گھر پہنچا تو میں سمندر میںتیراکی کے بعد سیڑھیوں پر بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ میرے سامنے آن کھڑا ہوا۔ اس نے ہاتھ میں تھیلا پکڑا ہوا تھا۔ اس تھیلے میں چونے کے پتھر بھرے تھے۔ ہلکے سبز رنگ کے بڑے بڑے ڈلے۔ ان سے تیز مہک خارج ہو رہی تھی۔ اس نے **آئرس **کے بارے میں پوچھا کہ کیا وہ گھر پر ہے؟ میرے انکار کر پر اس نے ایک پتھر نکلا کر میری ناک سے لگایا، میں نے زور سے سانس لی۔ اس کے بعد اس نے آہستگی سے یہ پتھر میرے ہونٹوں ، تھوڑی اور گردن پر پھیرا اور سینے پر آکر رُک گیا۔
’’تمھارا سینہ مجھے بہت بھلا لگتا ہے۔ اگر تم برا نہ مانو تو میں اسے چھو لوں‘‘۔
میں نے سر ہلایا۔ اس کے ہاتھ بہت سخت اور گرم تھے۔ اس وقت میرے دل میں شدت سے ایک خیال اُبھرا کہ یہ غلط ہے، یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اچانک گھر کے اندرایک آواز ابھری اور اس نے آہستگی سے ہاتھ ہٹا لیا۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ جب آنکھیں دوبارہ کھولیں تو میں وہاں اکیلی بیٹھی تھی اور میرے چاروں اَور چونے کی تیز مہک پھیلی ہوئی تھی۔
٭
**آئرس **نے کھانے کی میز پر میری پلیٹ خالی دیکھ کر مجھے گھورا۔ میں نے کہا ۔
’’ جب تک سیموئل واپس نہیں آئے گا میں کھانا نہیں کھائوں گی‘‘۔
’’بے وقوفی کی باتیں مت کرواور کھانا کھاؤ۔”
میں نے ہمیشہ کی طرح اس کی بات مان لی۔اس کے پاس خصوصی طاقت تھی۔ اس نے مجھے کبھی ہاتھ بھی نہیں لگایا مگر وہ میرا ذہن پڑھ لیتی تھی، نہ صرف میرا بلکہ نانا ، نانی اور امیتریو کا بھی۔
٭
بستر پر گتّے کا ایک بڑا ڈبہ پڑا ہوا تھا اور **آئرس **اس میں سیموئل کے کپڑے اور دوسرا سامان رکھ رہی تھی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
’’آپ یہ کیوں کر رہی ہیں‘‘؟
’’یہ میں اس کی بیوی کو بھیج رہی ہوں‘‘۔
’’اگر وہ واپس آگیا‘‘۔
’’بھول جائو اسے۔‘‘
اس نے سارا سامان اس ڈبے میں بند کیا اور اسے بمشکل کھینچ کر گھر سے باہر رکھ دیا۔ مجھے ایسا لگا جیسے یہ ڈبہ نہیں سیموئل کا جنازہ باہر گیا تھا۔
٭
میں سیڑھیوں پر بیٹھی تھی۔ **آئرس **بھی میرے پاس آکر بیٹھ گئی۔
“میں ہمیشہ سے کیبرے ڈانسر بننا چاہتی تھی مگر ماما مجھے زبردستی چرچ بھیج دیتیں ۔”
**آئرس **کی آواز نرم اور لہجہ بے حد میٹھا تھا۔ اس لہجے میں اداسی بھی محسوس کی جاسکتی تھی۔
“میں ابھی بھی کیبرے ڈانسر بننے کے خواب دیکھتی ہوں۔”
وہ رندھی ہوئی آواز میں بولی اور اٹھ کر ساحل کی طرف بڑھ گئی۔ اس نے سمندری گھاس کا ٹکڑا اٹھایا اور اسے بلا مقصد گھمانا شروع کردیا۔ اس سمے مجھے یقین تھا کہ اگر میں رو پڑوں تو **آئرس **مجھے نہیںڈانٹے گی۔ شدید خواہش کے باوجود میری آنکھیں خشک رہیں۔ میں نے ہمت پکڑی اور کھڑی ہو کر پوری شدت سے چلائی تاکہ سمندر بلکہ ساری دنیا سن سکے.
’’میں اس سے محبت کرتی تھی ۔وہ مہربان تھا، وہ بہت اچھا تھا‘‘۔
**آئرس **مڑی اور میرے سامنے آن کھڑی ہوئی۔
’’یقیناً وہ بہت اچھا آدمی تھا۔ بس مسئلہ یہ تھا کہ اسے ایک بیٹی چاہیے تھی اور تم اس کی بیٹی نہیں تھیں اور تمھیں ایک باپ چاہیے تھا جبکہ وہ صرف ایک مرد تھا‘‘۔
میری آنکھوں سے آنسو پھوٹ پڑے۔ **آئرس **نے مجھے گلے لگالیا۔ اس سمے وہ مجھے نانی جیسی لگ رہی تھی۔ کچھ دیر ہم دونوں اسی طرح کھڑے رہے۔ پھر اس نے مجھے نرمی سے علیحدہ کیااور اپنا خول چڑھا لیا۔
’’سب سے اہم چیز یہ ہے کہ تم اور میں ساتھ ہیں۔”
وہ یہ کہتے ہوئے گھر میں داخل ہوگئی۔ تختے چرچرانے لگے۔ یہ گھر **آئرس **کا تھا اور میں بھی۔ لہریں سیڑھیوں تک آتے آتے اپنا زور کھو دیتیں۔ سمندر ہارا ہوا سپاہی تھا اور سیموئل بھی۔ میں گھر میں داخل ہوئی اور سمندر کی طرف رُخ کر کے سر دروازے پر ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں۔ پورے گھر میں چونے کی تیز مہک پھیلی ہوئی تھی۔
انگریزی میں عنوان:
۔۔۔
مصنفہ کا تعارف:
آئیدا بار (Aida Bahr)
پیدائش : 1958، ممتاز مصنفہ، نقاداور فلم نویسہ آئیدا بار کیوبن ادب کی ممتاز نسوانی آوازوں میں سے ایک ہیں۔ ان کی اب تک آٹھ کتب شائع ہو چکی ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...