"کروانا وائرس" جس کی ابتدا جنوری 2020 میں چین کے شہر ووہان سے ہوئی۔ اس کی علامات میں کھانسی،بخار،زکام،تھکاوٹ ،پٹھوں میں درد وغیرہ بتائی جاتی ہیں۔ اس کی روک تھام کے لیے چائنہ نے بہت کوششیں کیں کہ یہ وائرس ایک شہر سے دوسرے شہر تک نہ پھیلے۔ لیکن یہ جان لیوا بیماری بڑھتی ہی گئی ۔چین میں ہی ہزاروں میں لوگ متاثر ہوۓ اور سینکڑوں میں ہلاکتیں ہوئیں ۔ مرنے والوں میں زیادہ تر بوڑھے لوگ بتائے گئے۔ کہ کمزوری کے باعث وہ بیماری کا مقا بلہ کرنے کی قوت نہیں رکھتے تھے۔ اس وائیرس کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ حرام خوراک کا استعمال ہے۔اس کھ باعث ساری دنیا نے چین سے تعلاقات منقطع کر دئیے۔ انٹر نیشنل پروازیں بند کر دیں گئیں۔ اس کے با وجود یہ بیماری پوری دنیا میں پھیل گئی۔ ایئر پورٹس پر "سکریننگ سیل" بناۓ گۓ۔ یہ وائرس ایران،امریکہ،کوریا،افغا نستان اور پاکستان سمیت 120 ممالک میں پہنچ گیا۔ اس سے متاثرہ دو فیصد لوگ مرتے ہیں باقی اٹھانوے فیصد لوگ صحتیاب ہو جاتے ہیں۔پاکستان کے ایئر پورٹس پہ سکریننگ سیل بناۓ گۓ اور پہلا کیس کراچی ائیر پورٹ پر ایران سے آنے والے نوجوان کا سامنے آیا۔ جسے ٹریٹمنٹ کے لیے آئسولیشن میں رکھا گیا اور احتیاط کے طور پر پورے سندھ کے تعلیمی اداروں میں چھٹیاں جاری کر دیں گئیں۔ پوری دنیا میں کورونا کا خوف و حراس پھیل گیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک اہم بات یہ ہے کہ 2009 میں سوئن فلُو سے دو لاکھ سے زائد کی حلاکتیں ہوئیں۔ جس سے یہ واضع ہوا کہ کورونا خطرناک اور جان لیوا ضرور ہے اور ابھی تک اس کا علاج بھی دریا فت نہیں ہوا۔ لیکن احتیاط کرکے اس سے بچا جا سکتا ہے ۔اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت اور باقی ماہیرین صحت نے کچھ احتیاطی تدابیر تجویز کیں کہ ہر دس منٹ بعد ہاتھ صابن سے دھوئیں، کھانسی چھینک کی صورت میں منہ کو ٹشو سے ڈھانپے ، رش والی جگہوں پہ بلا ضرورت جانے سے گریز کریں۔ بخار کی صورت میں ڈاکٹر کو چیک کروائیں ۔گندے ہاتھوں سے ناک،منہ نہ چھوئیں ۔ بخار کی صورت میں دوسروں کو گلے ملنے اور ہاتھ ملانے سے گریز کریں۔ جیسا کہ کہاوت بھی ہے کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے تو خوفزدہ ہونے کی بجاۓ احتیاط کیا جاۓ اور اسی احتیاط کے پیش نظر "سعودی عرب" میں عمرہ پر پابندی لگا دی گئ ہے۔پاکستان میں تو کورونا کا سنتے ہی کچھ مافیا نے سرجیکل ماسک بلیک کر لئے کہ مہنگے داموں بیچیں گے اور پیسہ کمائیں گے۔ یہ بے حسی کی ایک حد ہے لیکن عورتوں کے لیے انکا نقاب ہی بہترین ماسک ہے۔ ایک دوسرے کو ہمت حوصلہ دیں اور دعا کریں کہ خدا پوری دنیا کو اس موضی مرض سے نجات دے۔ حکومت پاکستان نے تمام سرکاری اور پرائیویٹ سکول ،کالجز اور یونیورسٹیز میں 14 مارچ سے 05 اپریل تک تعطیلات کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کا مقصد کے چھوٹے بچے اپنا خیال نہیں رکھ سکتے اور خدانخواستہ کوئی ایک بچے کو بھی یہ بیماری ہوئی۔ تو پورا سکول کو اسکی لپیٹ میں آنے میں دیر نہیں لگے گی۔ اسی طرح کالج اور یونیورسٹی میں بھی دور دراز کے علاقوں اور شہروں سے طالب علم سفر کر کے آتے ہیں۔ کوئی ایک بھی متاثر ہوا تو اس سے گھروں تک بیماری پھیلنے کے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔ جس کے پیش نظر تعلیمی اداروں کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ۔یہ کوئ بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ اگر ہم سب اپنی اپنی طرف سے احتیاط کرنا شروع کر دیں تو بہت جلد ہی اس پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ وائرس گرمی میں مر جاتا ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ جیسے جیسے گرمی کی شدت بڑھے گی یہ اپنی موت آپ مرتا جاۓ گا ۔جیسا کہ ہم مسلمان ہیں اپنی عبادات بڑھائیں ،دعائیں کریں،اپنے گناہوں کی معافی مانگیں ۔اور پھر حضور پاکﷺ نے بھی ایسی وبائی بیماریوں سے بچنے کے لئے مسنون دعائیں بتائی۔ ہمیں چاہیئے کہ صبح و شام ان دعاؤں کو بھی اپنا معمول بنائیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...