ماضی کے بھاری ورق الٹا کر وہ جو سوچنے بیٹھی تو ذرا ذرا سی بات کی سمجھ آنے لگی، جذبوں کو کتنی احتیاط چاہیے ہوتی ہے یہ بھی سمجھ آنے لگی مگر کیا آج جو ہر طرف ”محبت محبت “ کا شور ہے وہ جذبوں کو کس ترازو میں رکھ کر تولتے ہیں، بچپن ،لڑکپن اکٹھے کھیلتے گزرا مگر جیسے ہی نوعمری کی حدود ختم ہوٸیں سب راستے احترام میں ڈھکے گیۓ جب بھی بات ہوٸ کبھی اس کی نظریں نہیں اٹھیں نہ کبھی اس نے اپنے اندر چھپے خاموش طوفان کو لفظوں کا لبادہ پہنایا، اسے یاد آیا ایک بار وہ طویل عرصہ کے بعد میکے گٸی تو ان کے گھر بھی جانا ہوا ،جوتی صوفہ کے نیچے دور چلی گٸی اور وہ فرش پر بیٹھ کر صوفہ کے نیچےسے اس کی جوتی نکال کر لایا ،وہ غصہ سے لال پیلی ہوگٸی کہ آخر وہ یہ سب کیوں کررہا تھا ،اب سزا وجزا کے پلڑے میں بیٹھ کر جب دیکھا تو اسے اندازہ ہوا کہ دل دکھانا کبھی کبھی پوری زندگی کی خوشیوں کو کھا جاتا ہے، وہ کتنا جی سکےگا ہارٹ اٹیک نے دل کو کتنا کمزور کیا وقت ہی بتاۓ گا اپنی آگ میں بنا بتاۓ جلنے والوں کا الگ ہی لیول ہوا کرتا ہے، یکطرفہ جذبات اڑتی ہوٸی راکھ جیسے ہی ہیں جس کے نہ جلنے کی خبر نہ مٹی ہونے کی۔