احساس کی کمی ہے شاید۔۔
دھوپ میں کھڑے رہنے کی اور کیا وجہ ہے؟؟
وہ احساس کہ اب احساس باقی نہیں ہے۔
وہ صاف آسمان کہ اب ابر آلود ہے۔
وہ شہر کی رنگینی کہ اب مانند پڑ چکی ہے۔
کمی ہے شاید۔۔ شدید کمی ہے
احساس کی۔۔ کہ اب باقی نہیں ہے
مکتب ہیں ۔۔علم نہیں ،لوگ ہیں ۔۔طالبعلم نہیں۔۔
حسرتیں ہیں، خواہشیں ہیں، تمنا ئیں ہیں
راستہ سر کرنے کی جستجو بھی۔۔مگر منزل ہے کہ دکھائی نہیںدیتی
حالت سفر میںہیں مگر فا صلہ طے نہیںکر پاتے
اسی مدار زندگی َ فریب پائندگی ــــ میں چلے جا رہے ہیں۔۔
نہ یہ خبر کہ کہا ں کو چلے نہ یہ معلوم کہ کیوں کر۔۔
قوم اک ہجوم بے سمت اور اختلافات کا مجموعہ ہے
جو ہر سمت دوڑے جا رہے ہیں۔
اور جو رہبر ملے وہ بھی عقل کل۔
جمہور کو۔۔جمہوریت مبارک!
خلافت قائم کرنے والوں کو ان کا خلیفہمبارک!
اور کسی کو بھی نہ ماننے والوں کو انکا یہ ماننا کہ وہ کسی کو نہیں مانتے۔۔مبارک!
نیا پاکستان بنانے کو گر نیا طریقہ ہی اپنا لیتے تو کچھ نیا کہہ سکتے۔۔ ا ن کو نیا پاکستان مبارک!
زندگی نہ رکی ہے نہ رکے گی۔۔اور یہ احساس بھی قائم رہے گا کہ کسی کو بھی اجتماعی کامیابی کا احساس نہیں ہے
عمل تو درکنار سوچنا بھی گوارہ نہیں!
سمت متعین کرنے والے بھی گمراہی میں مبتلا ہیں!
وقت چلے جا رہا ہے۔۔اور یہ احساس بھی قائم دائم ہے کہ احساس باقی نہیں ہے۔
دفتروں کو جاتے لوگ،چائے پیتے افسر،فیسیںجمع کراتے ماںباپ،
ہسپتالوں میں داخل صحت کے فریادی،طبیبوں کے ستائے ، مہنگائی سے اکتائے یہ عوام۔۔ہم عوام۔۔!
ہم عوام۔۔بھی تو بے حس ہیں! ہم میں بھی تو یہ احساس باقی نہیں ہے۔۔
آنے والی نسلوں کا تو درکنار موجودہ حالت کے بدلنے کا کوئی حیلہ کر لیں۔۔کوئی وسیلہ کر لیں۔۔!
ہم بس دھوپ میں کھڑے پسینہ خشک کر رہے ہیں ۔۔اور وہ احساس کہ احساس باقی نہیں ہے۔۔!