تکلیف حسیاتی اور جذباتی احساس ہے جو الگ نیورل سگنلز سے جنم لیتا ہے۔ اس احساس کی ہماری زندگی میں اہمیت ہے اور واضح کردار ہے۔ گرما گرم توے پر ہاتھ زیادہ دیر تک نہ رہے یا پھر اپنے انگوٹھے پر ہتھوڑا مارنے کی سزا تا کہ محتاط رہا جائے۔ کسی دھوکہ باز کے چنگل میں پھنسنے سے تو کوئی مخلص دوست ہی روک سکتا ہے لیکن تکلیف کا احساس ہمارا وہ دوست ہے جو ہمیں فزیکلی ضرر سے بچانے میں مدد کرتا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ آپ کا خیال ہو کہ یہ دوست قابلِ اعتبار ہے، لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ جیسا کہ مشہور پلاسیبو ایفیکٹ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ جب ہم پلاسیبو ایفیکٹ کی بات کرتے ہیں تو تصور میں عام طور پر ایک بے ضرر سی میٹھی گولی آتی ہے جو ہلکے پھلکے سر کے درد کو مٹا دیتی ہے۔ شرط یہ کہ ہم اس کے اصل ہونے پر یقین رکھیں۔ لیکن اس کے اثرات اس کے مقابلے میں ڈرامائی طور پر زیادہ طاقتور ہیں۔
انجائنا پکٹورس، ایک کرونک بیماری ہے۔ اگر دل کی ویوار کے پٹھوں کو خون کی ناکافی سپلائی مل رہی ہو تو اس سے ہونے والی تکلیف عام طور پر شدید ہوتی ہے۔ اگر کسی کو انجائنا ہے اور وہ کوئی ورزش کرے۔ (یہاں پر ورزش کا مطلب چل کر دورازہ کھولنے جانا بھی ہے) تو دل کے مسل کے نرو ایک سنسر کا کام کرتے ہیں۔ جیسا کہ گاڑی میں انجن چیک کرنے والی سرخ بتی جل اٹھتی ہے، ویسا ہی یہ وارننگ کے سائن کو آن کر دیتے ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی کے راستے دماغ تک سگنل پہنچتے ہیں کہ دورانِ خون کے نظام پر ڈیمانڈ لادی جا رہی ہے جو اس کی بساط سے بڑھ کر ہے۔ اس کا نتیجہ تیز تکلیف میں نکلتا ہے جس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ 1950 کی دہائی ٰمیں سرجری میں اس کے علاج کا ایک طریقہ نکالا گیا۔ جن کو تکلیف زیادہ ہوا کرتی تھی، سرجن سینے میں کچھ شریانوں کو باندھ دیتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح دل کے قریب شریانوں کے نئے چینل بن جائیں گے اور خون کا دوران بہتر ہو کر اس تکلیف سے نجات مل جائے گی۔ یہ بہت مریضوں پر کیا گیا اور بظاہر کامیاب رہا۔ مریضوں کو تکلیف سے نجات مل جایا کرتی۔ لیکن معاملہ کچھ گڑبڑ تھا۔ پیتھالوجسٹ، جو بعد میں ایسے آپریشن سے گزرنے والوں کا موت کے بعد پوسٹ مارٹم کے ذریعے مطالعہ کرتے تھے، انہوں یہ متبادل شریانیں کبھی نہیں ملیں۔
ایک کامیاب سرجری مریض کو ٹھیک کر دیتی تھی لیکن وجہ کو ٹھیک نہیں کرتی تھی۔ اس تضاد کو سٹڈی کرنے کیلئے 1958 میں متجسس کارڈیک سرجنوں کو ایک تجربہ کرنے کی سوجھی۔ ّ(ایسے تجربے کی آج ایتھیکل وجوہ کی بنیاد پر آج اجازت نہیں مل سکتی)۔ انہوں نے جعلی آپریشن کئے۔ پانچ مریضوں کے ساتھ سرجنوں نے سینے کی جلد کو کاٹا۔ ان شریانوں تک پہنچے لیکن ان کو ہاتھ لگائے بغیر واپس اس کٹ کو بند کر کے ٹانکے لگا دئے۔ تیرہ مریضوں پر اصل آپریشن کیا۔ نہ ہی مریض اور نہ ہی کارڈیولوجسٹ یہ جانتے تھے کہ کونسے مریضوں کے ساتھ آپریشن کیا گیا ہے اور کن پر نہیں۔
جن تیرہ مریضوں پر اصل والا آپریشن کیا گیا تھا، ان میں سے دس کی انجائنا کی تکلیف میں بہتری محسوس ہوئی۔ جن کے ساتھ کچھ بھی نہیں کیا تھا گیا، ان پانچوں کی تکلیف بہتر ہو گئی۔ ان دونوں گروپس میں اصل میں فرق نہیں تھا کیونکہ جن پر اصل آپریشن بھی کیا گیا تھا یا جن کے ساتھ کچھ نہیں کیا گیا تھا، ان دونوں گروپس میں کوئی ایسی فزیکل تبدیلی نہیں تھی، جس کا تعلق دل میں خون کی سرکولیشن سے ہو۔
ان سب کے سنسری اِن پُٹ کے لیول میں تبدیلی آنے کا امکان نہیں تھا۔ ریڑھ کی ہڈی سے وہی سگنل دماغ کو موصول ہو رہے ہوں گے۔ دماغ کے پین سنٹر کو وہی انفارمیشن مل رہی ہو گی۔ تکلیف کے شعوری احساس میں خاصا فرق آ گیا تھا۔
اپنے احساس کے بارے میں خود ہماری اپنی آگہی ۔۔ خواہ وہ فزیکل ہی کیوں نہ ہو ۔۔ اس قدر کمزور ہے کہ ہم اپنے آپ کو اعتماد سے نہیں جان سکتے۔ چاہے وہ احساس زبردست تکلیف کا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل میں ہونے والی یہ تکلیف ایک ایکسٹریم مثال ہے لیکن یہ ایفیکٹ روزمرہ زندگی میں معمولات کے حوالے سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اگرچہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ دماغ میں تھالیمس اور ہپوکیمپس جیسے حصوں تک تو ہماری شعوری رسائی تک نہیں لیکن اپنے آپ کو جاننے میں ابھی تک فرائیڈ کی طرف سے آنے والے خیالات مقبول ہیں۔ کوگنیٹو سائیکلوجی میں اس حوالے سے جیمز اور لینج کی انیسویں صدی میں پیش کردہ ایموشن تھیوری، جو جذبات کے بارے میں کامن سینس والے تصور کو الٹ دیتی ہے، وہ زیادہ توجہ حاصل کر رہی ہے۔ ہم خوشی میں مسکراتے ہیں لیکن صرف مسکرانا بھی ہمیں خوش کر دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے چند برسوں میں پلاسیبو سرجری کے ٹرائل کچھ سرجیکل آپریشنز کی افادیت جتنے رہے ہیں۔ یہ گھٹںے پر آرتھروسکوپک سرجری، کندھے میں ہڈی میں بڑھوتری کی سبب تکلیف کی سرجری اور اعصابی بیماری کیلئے بیلون انجیوپلاسٹی کے سرجیکل پروسجیر ہیں۔
(اس پر آرٹیکل نیچے لنک سے)۔