اُس تپتی دوپہر مجھ پرگھنے، سایہ دار درخت کی اہمیت آشکار ہوئی۔
وہ ایک گرم دن تھا۔ دھوپ ایسی کہ بدن جھلس جائے،دماغ پگھل جائے۔ حبس تھا۔اور پھر کرب۔ایک دوست چلا گیا۔ دانش کی صراحی خالی ہوئی۔ ادب کے برتن میں تلچھٹ رہ گئی۔۔۔یہ اس گرم دن کا تذکرہ ہے، جب ہمیں ایک صاحب اسلوب تخلیق کار کو دفن کرکے اپنی اپنی جمود زدہ زندگیوں کی سمت لوٹنا تھا کہ وہ اپنی تحریک، اپنی توانائیاں اپنے ساتھ لے گیا تھا۔یہی قدرت کا فیصلہ تھا!
میں خاک سے نکلا ہوں محبت کے سفر پہ
سو اپنے بدن میں کہیں موجود نہیں ہوں
25 جون کو نہ صرف کراچی کی ادبی فضا سوگوار تھی، بلکہ اردو ادب کو بھی بھاری نقصان اٹھانا پڑا، جب معروف شاعر، دانشور اور سہ ماہی اجرا کے مدیر، احسن سلیم نے اُس کشتی میں سوار ہونے کا فیصلہ کر لیا، جو سمندر میں اترنے کے بعد کبھی لوٹ کر نہیں آتی۔گذشتہ تین ماہ سے بیماری نے گھیر رکھا تھا۔امراض نے اِس متحرک شخص کو ، جو اردو ادب کی گراوٹ کے باوجود مایوس نہیں تھا۔۔۔ ادبی سرگرمیوں سے کاٹ دیا تھا۔
ہماری ملاقاتوں کے سلسلے میں تعطل نہیں آیا۔ میں اور رفیع اللہ میاں کبھی اسپتال پہنچ جاتے، کبھی گھرچلے جاتے۔۔۔کرائے کا گھر، جسے خالی کرنے کا نوٹس مل چکا تھا۔۔۔ آخر ی بار ملا، اور یہ انتقال سے چار روز پہلے کی بات ہے، تو حالت بہت خراب تھی۔لیٹے لیٹے بے چینی ستائے، تو اٹھ بیٹھنا۔ کچھ دیر بعد جسم دُکھنے لگے، تو پھر لیٹ جانا۔ مسلسل قے۔ اس روز تو تھوڑی بہت باتیں کیں، مگرآنکھیں موندنے سے 48 گھنٹے قبل خاموشی اختیار کر لی تھی۔ شاید سبب یہ ہو کہ وہ جو کچھ کہنا چاہتا تھا، کہہ چکا تھا۔ ڈاکٹروں کے اندیشوں کی مجھے خبر تھی،دل میں خدشات تھے، اس کے باوجود جب انتقال کی خبر مجھ تک پہنچی، تو اس پر یقین کرنا آسان نہیں تھا۔
احسن سلیم کا تذکرہ اس مختصر سی تحریر میں سمونا ممکن نہیں۔ شمار نظم کے اہم شعرا میں ہوتا تھا۔اسلوب جداگانہ۔ اُن کی نثری نظمیں پڑھیے، اس صنف کا جواز مل جائے گا۔بلند خیال، نئی لفظیات، پرقوت آہنگ۔ دو مجموعے آئے، ست رنگی آنکھیں اور منجمد پیاس۔ ایک مجموعہ خطوط کا؛ پتوں میں پوشیدہ آگ۔کچھ اپنی عدم توجہی، اورکچھ اپنوں کی غفلت۔۔۔ وہ کتابیں کبھی صحیح معنوں میں قارئین تک نہیں پہنچ سکیں۔ کتابیں، جنھیں پڑھ کو قمر جمیل نے کہا تھا: احسن سلیم، ایک لیجنڈ ہے!
اپنے ادبی سفر میں احسن سلیم نے فقط صاحب علم شخصیات کی صحبت کو کافی نہ جانا، جو نووارد تھے، ان کی راہ نمائی کا بھی اہتمام کیا۔تعلق قائم کرنا اور اسے نبھانا، دونوں ہنر جانتے تھے۔ حیدرآباد اور کراچی کی ادبی فضا پر احسن سلیم نے گہرے اثرات مرتب کیے۔ کتنے ہی نوجوانوں کی تربیت کی۔ حیدرآباد میں فردوس ہوٹل کو بیٹھک بنایا، کراچی میں کیفے الحسن کو۔جہاں بیٹھے، اپنا نظام شمسی بنا لیا۔۔۔ادبی جراید کی ادارت میں کئی کارنامے انجام دیے۔ پہلے سخن زار۔ پھر اجرا۔ ذراجراید کی حالت پر غور کیجیے صاحب۔ پانچ سو کی تعداد میں شایع ہوتے ہیں، خریدار کم یاب، بیش تر تقسیم ہوتے ہیں، جنھیں پیش کیے جاتے ہیں، وہ بھی فقط اپنی اور اپنے جاننے والوں کی تخلیقات پڑھتے ہیں۔۔۔اِن حوصلہ شکن عوامل کے باوجود اتنے مختصر عرصے میں جو مقام اجرا نے بنا لیا تھا، اس کی مثال ملنا مشکل ۔ جی، اس کی ایک وجہ’’ ادب برائے تبدیلی‘‘ کی تحریک بھی ہوسکتی ہے۔
اِس خیال کو احسن سلیم نے تواتر سے اجرا کے اداریوں کا موضوع بنایا، مباحث کا اہتمام کیا، منشور تیار کروایا۔جو ہماری ادبی صورتحال، اس میں کسی بھی نئی تحریک کے لیے بڑا حوصلہ چاہیے۔ یاروں نے دیوانے کا خواب قرار دیا، مگر اِس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ادیب کی عالمی حیثیت کے قائل اس شخص نے ’’ادب برائے تبدیلی‘‘ کو مباحثوں کا موضوع بنا دیا تھا۔
کبھی کبھی احسن سلیم کے ارادے مجھے متذبذب کر دیتے، منصوبے ذرا غیرحقیقی لگتے، مگر یہ سوچ کر مطمئن ہوجاتا کہ جس شخص نے ادب کو زندگی کا محور بنا رکھا ہو،نہ تو زر کی طلب، نہ ہی زمین کی، جس کی کتاب زندگی کے ہر ورق پر تخلیقی آرزو، اس کے مستقبل کے خواب بھی ادبی خواہشوں ہی سے سجے ہوں گے۔اور بھلا کیا امکان ہے دوست! اس تحریک کی صورت گری کے لیے کراچی اور حیدرآباد میں سیمینارز منعقد کروائے گئے۔ ادبی تنظیم’’اجرا تخلیقی مکالمہ‘‘ کی بنیاد رکھی، جس کا مجھے بھی حصہ بننے کا موقع ملا۔ ابتدائی اجلاسوں ہی سے ثابت ہوگیا کہ احسن سلیم کا کراچی کے ادبی منظرمیں کیا مقام۔تقدیر نے ساتھ نہیں دیا، اور کچھ موقع پرست بھی وجہ بنے، جن کی جانب محترمہ رئیس فاطمہ نے اپنے کالم میں اشارہ کیا، ورنہ قومی کانفرنس سمیت اِس بیدار ذہن میں کتنے ہی منصوبے تھے۔
اس بلند قامت شاعر کی شخصیت میں بلا کا اعتماد تھا، یقین کی قوت گفت گو سے جھلکتی،کسی سے مرعوب نہ ہوتا۔یہ صلاحیت بیش قیمت۔ بس اِس کی ایک خامی، یا تو یہ صلاحیت پیروکار عطا کرتی ہے، یا مخالفین۔دوست کم ہی بنتے ہیں۔ ان کے ہاں وہ فکری گہری ملتی ، جو اب ادیبوں میں عنقا ہوئی۔اُن کا ایک فصیح و بلیغ جملہ: ادب موضوعات سے نہیں، اسلوب سے بنتا ہے۔۔۔ بہت سوں کی تنقید ی کتب پر بھاری۔جب وہ کہتے تھے: تشدد انسان کی جبلت ہے، فقط ادب ہی اس جبلت پر قابو پاسکتا ہے۔۔۔ تو آواز میں ٹھہراؤ ہوتا۔ ملکی انتشار کا سبب وہ سیاست دانوں کو ٹھہراتے۔
اس کے سدباب کے لیے سیاسی ، لسانی اور مذہبی تفریق پاٹ کر ادیبوں کے اکٹھ کی ضرورت پر زور دیتے۔۔۔ اور پھر سادہ پیرایے میں نوجوانوں کو یہ سمجھانا کہ مختلف سماجوںکی ثقافت، عقائد ، جغرافیہ، زبان ضرورالگ ، مگر دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کے احساسات یکساں۔ ان مشترکہ احساسات تک رسائی پانے والا ادیب اجنبی سماج میں بھی اپنے لیے قبولیت پید ا کر لیتا ہے، اور اگر وہ اپنے الفاظ میںانسانیت کافلسفہ گوندھ دے، تو اس کا ادب عالمی حیثیت اختیار کر جائے گا، جیسے ٹالسٹائی اور ڈکنز، جیسے کافکا، جیسے مارکیز۔ صاحب، احسن کی شخصیت کا ایک روحانی پہلو بھی تھا، مگر میں اس کا گواہ نہیں۔ سوخاموشی بہتر۔
تووہ ایک گرم دن تھا۔ تپش ، گھٹن ،اور پھر کرب۔۔۔ احسن سلیم نے آنکھیں موند لی تھیں۔ قبرستان میں خاموشی تھی۔ اُس تپتی دوپہر مجھ پرگھنے سایہ دار درخت کی اہمیت آشکار ہوئی۔۔۔عزیزو، ممکن ہے، کل شہرت کی دیوی مجھ پر مہربان ہوجائے، کچھ حکومتی تمغے میرے نام ہوجائیں، میرے بھی’’ فین پیچ‘‘ ہوں، تقریبات میں بہ طور صدر مدعو کیا جاؤں، ادبی میلوں میں میرے سیشن ہوں،کچھ وزیروں سفیروں سے روابط ہو جائیں، شاید تب میری گردن کچھ اکڑ جائے، مجھ میں رعونت آجائے، شاید میں اپنے محسنوں کو بھول جاؤ۔۔۔ سو بہتر ہے کہ میں آج، اِسی لمحے اعتراف کرلوں۔۔۔احسن سلیم، میں اعتراف کرتا ہوں کہ میرے ادبی سفر میں تم نے اہم کردار ادا کیا۔
مجھ سمیت کئی نوجوان یہ اعتراف کرتے ہیں، اور ہم سب تمھارے لیے دعا گو ہیں،
اللہ تعالی تمھارے درجات بلند فرمائے۔ آمین!
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...