وہ پانچ بھائی تھے اور دو بہنیں ..بڑی بہن شادی کے بعد بیرونِ ملک جا بسیں اور بڑا بھائی آصف پولیس میں نوکر ہو گیا.. ہمارے گھر کی مغربی چھت ان کی چھت سے گلے ملتی تھی اس لیے کافی دوستی رہی سبھی سے.. گھر میں ابا جان کا رعب تھا بڑے بھائی آصف سے لے کر کے چھوٹے بھائی احسن تک سبھی ابا جان سے بلکہ اماں جان سے بھی بہت دبتے تھے..احسن چاروں بھائیوں کا لاڈلا تھا چھوٹا جو تھا..زمیں داری ہو یا ڈور ڈنگر احسن کو کوئی نہ کہتا باقی بھائی مل بانٹ کے کر لیتے.. بہت سلجھے ہوئے اور تمیزدار لڑکے تھے پڑھائی میں سبھی ہی بہت اچھے تھے .. وقت گزرتا گیا اور تین بڑے بھائیوں کی اور دوسری بہن کی بھی شادیاں ہو گئیں.. گھر میں میاں بیوی کی ہمیشہ چونچ لڑتی رہتی تھی تمام عمر لڑتے رہے مگر اولاد کی جرات نہ تھی کہ مداخلت کرتے .. پہلے ان کے ابا جان چل بسے اور ماں کا چونچ لڑانے کا ساتھی نہ بچا تو دل بھر گیا دنیا سے اور شوھر کے پیچھے پیچھے دنیا سے چل دیں.. موت کا غم سخت مگر وقت اور حالات سب بدل دیتے ہیں …
زمیں دار تھے مگر کوئی بہت زیادہ زمیں یا مربع کے مالک نہ تھے ..مگر پھر بھی ماں باپ کے جاتے جائیداد کی چھانٹ بانٹ شروع ہو گئی.. اس مہنگائی کے ابتلائی دور میں سب بھائیوں کے حصے چَپـہ چَپـہ زمین ہی آنی تھی .. سو آئی مگر لالچ کہ روح تک کے چیتھرے اڑا دے …
ایک دن اس گھر پہ زلزلہ آیا، سب سے اور سب کے لاڈلے چھوٹے بھائی احسن نے سب سے بڑے بھائی آصف پہ گولی چلا دی .. شدید زخمی آصف ہسپتال پہنچایا گیا .. بات تھانے تک کوپہنچی مگر مسلم لیگ نواز کے ایم این اے جو کہ طالبان کے ساتھی بھی ہیں،ہر بات اپنے ڈیرے پہ پنچایت میں کرتے ہیں..سو اب مقدمہ آزاد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی کسی عدالت میں نہیں مگر طالبان کے معتمد ساتھی اور مسلم لیگ نواز کے چہیتے ایم این اے کے ڈیرے پہ چل رہا ہے کہ رہے نام اللہ کا ..
دورانِ مقدمہ احسن نے گولی مارے جانے سے انکار کیا حالانکہ عینی شواہد موجود تھے..مگر بات اس پہ آن رکی کہ مسجد جا کے سب کے سامنے احسن قرآن اٹھائے کہ اس نے گولی نہیں چلائی .. مسجد جھوٹی عزت بنانے اور قرآن قسمیں اٹھانے کو ہی بچا ہے ہم میں ..سو مسلمان کا اسلام قرآن پہ حلف لینا ہی بچا ہے ..سو ہم کیے جاتے ہیں لاڈلے جو ٹھہرے خدا کے .. سارا گاؤں گواہ ہے کہ چھوٹی بہن روتی رہی روکتی رہی کہ قرآن مت اٹھاؤ مگر ماشا اللہ احسن نے مسجد میں قرآن پہ ہاتھ دھرے اور قسم دی کہ اس نے گولی نہیں چلائی.. گاؤن والے دانتوں میں انگلیاں دئیے کھڑے تھے …
اسی پہ بس نہیں ، پھر ایک دن قیامت ٹوٹی ان کی بڑی بہن اپنے شوہر کے ہمراہ سات سمندر پار سے اپنے گاؤں آئی ہوئی تھیں..ایک دن احسن اپنی بہن کے گھر گیا اور بڑی بہن کو جو اکثر بیشتر بھائیوں کی مالی امداد بھی کیا کرتی تھیں،کو اتنا مارا پیٹا کہ اَدھ موا کر کے سڑک پہ پھینک دیا اور بہنوئی کو اتنی شدید چوٹیں آئیں کہ انکھوں کی بینائی جاتی رہی ہے ان کی … بہن اور بہنوئی کو مارنے کی وجہ ؟؟؟ سنیـے اور سر پہ دو دو ہتڑ مار کے روئیے کہ احسن کو ڈر تھا کہ بہن بھی کہیں جائیداد میں حصہ نہ مانگ لے .. !!!!
احسن نے بڑے بھائی کو اور بڑی بہن کو کیوں مارا ؟؟
حاکم وقت کی آنکھوں سے پٹی کھولی جائے اور وہ حقیقت کی تلخ اور خونیں شکلوں کو دیکھیں .. حالات اس قدر اور اس حد تک خرابی کی طرف جا رہے ہیں کہ کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی .. جن کی محبت اور بھائی چارے کی لوگ اپنی اولادوں کو مثالیں دیا کرتے تھے آخر کیوں اس حد تک آگئے کہ گلے ہی کاٹ دیں اک دوجے کے .. کام دھندہ ہے نہیں ساری عمر بڑے بھائی اور بہنیں کھلا پلا نہیں سکتے .. اک دوجے کا خون پی رہے ہیں لوگ اک دوجے کا ماس کھا رہے ہیں .. اور یہاں سندھ اور پنجاب فیسٹولز میں لوگوں کے ٹیکس کے پیسے کو تیلی دکھائی جا رہی ہے .. خون کھولتا ہے یہ تلخ حقیقتیں دیکھ کے سن کر کے .. جی میں آتی ہے کہ قیامت ہی اٹھا دی جائے .. حشر برپا کر دیا جائے .. دنیا ختم کر دی جائے .. خدا تو نہیں ہیں مگر خلیفہ خدا تو ہیں.. اب اور احسن نہیں پالے جاتے اب اور ماس کھاتے،ہڈیاں چباتے اور خون پیتے لوگ نہیں دیکھے جاتے .. اب انت ہو چکی .. جی میں آتی ہے کہ قیامت ہی اٹھا دی جائے !!!