مصر کے شہر قاہرہ کے قریب ہی دریائے نیل کے مغرب میں یہ تین مثلث نما اونچی پتھر کی عمارتیں ہزاروں سال سے کھڑی ہیں۔انہیں دنیا کے سات عجوبوں میں سے ایک عجوبہ مانا جاتا ہے یہ تقریباً بیس لاکھ پتھروں سے مل کر بنائی گئی ہیں اور 146 میٹر اونچی ہیں.
آج تک یہی مانا جاتا رہا کہ ان بڑے بڑے ٹنوں کے حساب سے وزنی پتھروں کو کئی سال غلام مزدوروں کے ذریعے اٹھوایا جاتا رہا لیکن 2002 میں فرانس کے ایک ماہر مادیات Joseph Davidovits نے اپنی کتاب میں Pyramid کے بارے میں حیرت انگیز تحقیق پیش کی۔
انہوں نے کہا کہ یہ پتھر دراصل اصلی چٹانی پتھر نہیں بلکہ بنائے گئے ہیں۔ انہوں نے پتھروں کا Nano- Technology استعمال کرتے ہوئے بغور مشاہدہ کیا تو پتہ چلا کہ پتھر میں پانی کے انتہائی ننھے سے قطرے اور ہوا کے ذرات موجود ہیں جو قدرتی پتھروں میں موجود نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ یہ پتھر چونے کے پتھر اور مٹی کا ایک خصوصی گارا بنا کر بنائے گئے ہیں جو دریائے نیل کے قریب ہی دستیاب ہیں۔ اس مقصد کے لئیے لکڑی کے سانچے اور Rails یارستے Pyramid کے اردگرد بناکر اس گارے کو جگہ جگہ پہنچایا گیا اور وہاں سے سانچوں میں مختلف شکل کی بڑی اینٹوں یا پتھروں کئ شکل دے کر اسے 900 ڈگرئ تک پکایا گیا۔ پتھروں کی ساخت ان کی عمر کا بھی تعین کرتی ہے جو کم از کم 4500 سال ہے۔
ان Pyramids کے اندر باقاعدہ ہوا کا نظام موجود ہے ، مصر ایک گرم علاقہ ہے اور باہر گرمی ہونے کے باوجود اندر کا ٹمپریچر 20 سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ اس کے علاوہ اندر بادشاہ اور ملکہ کا چیمبر یعنی کمرہ بھی موجود ہے۔
اب زرا قرآن کی اس آیت کا ترجمہ ملاحظہ کریں:
" اے اہل دربار، میں نہیں سمجھتا کہ میرے علاوہ بھی کوئی تمہارا خدا ہے۔ سو اے ہامان آگ دہکا میرے لئیے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...