احمد تنویر :اُٹھ گئے کیسے کیسے پیارے لوگ
پاکستان کے قدیم تاریخی شہر جھنگ صدر میں مقیم ممتازادیب ،دانش ور ، نقاد ،محقق اور سماجی کا رکن احمد تنویرنے ۱۵۔جولائی۲۰۰۶کو دائمی مفارقت دی ۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستان علم و ادب تھا جس کی علمی فضیلت،ذہانت، انسانی ہمدردی ، وسیع مطالعہ ،تبحر ِعلمی اور وسیع النظر ی کا ایک عالم معترف تھا۔ ایک وسیع المطالعہ تخلیق کار کی حیثیت سے اس نے قریب قریب ہر صنف ِ ادب میں طبع آزمائی کی اور اپنی خداداد تخلیقی صلاحیتوں کا لوہامنوایا۔وہ عالمی ادبیات کا نباض ،پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں کے کلاسیکی ادب کا شیدائی اردو اور پنجابی زبان کا اہم تخلیق کار اور لوک ادب کا رمز آشنا تھا ۔علمی و ادبی حلقوں میں اُسے ایک دائراۃ المعارف کی حیثیت حاصل تھی ۔اُس کی تحریریں قلب اور روح کی تفسیروں کے روپ میں دل و نگاہ کو مسخر کر لیتیں اور ،اُس کے الفاظ گنجینہء معانی کا طلسم ثابت ہوتے تھے ۔ اُس کا وجود روشنی کے ایک سر بہ فلک مینار کی حیثیت رکھتا تھا جسے دیکھ کر منزلوں کی جستجو کرنے والے اپنے مستقبل کی راہ کا تعین کرتے تھے ۔وہ ایک ایسا مفکر اور مدبر تھاجس نے مسلسل چار عشروں تک اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتما م کیا اور علم و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو قاموس و لغت سے بے نیا ز کر دیا۔ ستر کی دہائی میں اُ س کا پہلا شعری مجموعہ منظر ِ عام پر آیا۔اُس کا دوسرا شعری مجموعہ اشاعت کے لیے جانے والا تھا کہ فرشتہء اجل نے اُس کے ہاتھ سے قلم چھین لیا۔جھنگ کی ادبی کہکشاں کا یہ تابندہ ستارہ غروب ہو گیا ۔جھنگ کے جنوب میں واقع شہر خموشاں کی زمین نے اُردو ادب کے اس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چُھپا لیا۔ایک ہنستا بولتا چمن مہیب سناٹوں اور جان لیوا سکوت کی بھینٹ چڑھ گیا ۔انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو سدا اپنا مطمحِ نظر بنانے والے اِس عظیم انسان نے زینہء ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رختِ سفر باندھ لیا۔ قحط الرجال اور بیگانگی کے موجودہ زمانے میں اُس کا وجود اﷲ کریم کی ایک نعمت تھا۔ سب لوگ اُس کی بے لوث محبت ،خلوص ،دردمندی ،انسانیت کے وقار اور سر بُلندی کے لیے کی جانے والی انتھک جد و جہد ،حق گوئی و بے باکی ، نیکیوں اور بے شمار ذاتی خوبیوں کی وجہ سے اُس سے ٹُو ٹ کر محبت کرتے ۔وہ ایک ایسا رانجھا تھا جوسب کا سانجھا تھا ۔ خدمتِ خلق ،انسانی ہمدردی اور ایثار کے جذبات اُس کے رگ و پے میں سرایت کر گئے تھے ۔اﷲ کریم نے اُسے انسان شناسی کی اعلا ترین صفات سے متمتع کیا تھا ۔وہ دردمندوں اور مظلوموں کے دُکھوں کا مداوا کرنے کی مقدور بھر سعی کرتا اور ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیازپرورشِ لوح و قلم میں مصروف رہتا۔تقدیر کے چاک کو سوزنِ تدبیر سے رفو نہیں کیا جا سکتا۔نظامِ کا ئنات ازل سے چل رہا ہے اور ابد تک چلتا رہے گا ۔ہماری محفل کے آفتاب و ماہتاب جب غروب ہو جاتے ہیں تو ہم اپنی بے بسی اور محرومی پر حسرت و یاس کی تصویر بنے کفِ افسوس ملتے رہ جاتے ہیں ۔احمد تنویر کی دائمی مفارقت ایک بہت بڑا نقصان ہے ۔اُس کی عظمت کا راز اُس کے جذبہء انسانیت نوازی میں پوشیدہ تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سارے جہاں کا درد اُس کے دِل و جگر میں سما گیا تھا۔ ایسے عظیم لوگ نایاب ہوتے ہیں اب دُنیا میں ایسے لوگ کہا ں آئیں گے۔انسانیت کے ساتھ بے لوث محبت کرنے والا ایسا شخص اب کہاں سے تلاش کیا جائے جسے احمدتنویر جیسا کہا جا سکے۔
احمد تنویر کے آبا و اجدادقیام ِپاکستان کے وقت بھارت سے ہجرت کر کے جھنگ پہنچے ۔احمد تنویر نے گورنمنٹ کالج جھنگ سے تعلیم حاصل کی ۔جسے پاکستان کی عظیم اور قدیم تاریخی مادرِ علمی کی حیثیت سے پُوری دُنیا میں ممتاز مقام حاصل ہے ۔گورنمنٹ کالج جھنگ کے علمی و ادبی ماحول نے احمد تنویر کے ذوقِ سلیم کو نکھار کر اُس کی تخلیقی صلاحیتوں کو صیقل کیا ۔ گورنمنٹ کالج جھنگ میں اُس زمانے میں ڈاکٹر سید نذیر احمد ،تقی الدین انجم( علیگ )، ڈاکٹر محمد ظفر خان ،خلیل اﷲ خان ،عبدالباری عباسی ،قیصر رومانی ،جابر علی سید ،غلام رسو ل شوق ،محمد عبدالسعید ،رانا عبدالحمید خان ،یو کرامت،محمد حیات خان سیال اور سید عبدالباقی (عثمانیہ)جیسے نابغہٗ روزگار اساتذہ تدریسی خدمات پر مامور تھے ۔اس خیابان ِ علم میں وہ گُل ہائے رنگ رنگ نمو پا رہے تھے جن کی عطر بیزی سے مستقبل میں نہ صر ف ارض ِ وطن کا گوشہ گوشہ مہک اُٹھابل کہ پوری دنیا میں زندگی کے مختلف شعبوں میں اُ ن کی فقید المثال کامرانیوں اور مسحور کُن عنبر فشانی کی دُھوم مچ گئی۔ فروغ ِ علم اور تخلیق ِ ادب کی اس درخشاں روایت کے بنیاد گزاروں میں اس مادر علمی کے ممتاز طا لبِ علم ڈاکٹر عبدالسلام ،ڈاکٹر وزیر آغا ،سردار باقر علی خان ،کبیر انور جعفری ، مجید امجد ، شیر محمد شعری ،عبدالکریم بھٹی ،صا حب زادہ رفعت سلطان ،خواجہ یو نس حسن ،محمد خان ،حاجی محمد یوسف ، سلطان محمود ،خادم مگھیانوی ،آغا نو بہار علی خان ،عاشق حسین فائق ،ڈاکٹر محمد عمر ،حکیم احمد بخش ،امیر اختر بھٹی ،غلام علی خان چین ،ڈاکٹر محمد کبیر خان ،محمد شیر افضل جعفری ، اﷲ داد،شوکت حیات کُپلانہ ،سید جعفر طاہر ،رام ریاض ،احمد تنویر اور مظفر علی ظفر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔جھنگ میں ادبی نشستوں کے انعقادکی جو مضبوط اورمستحکم روایت صدیوں پر محیط ہے ،اُس کے ابتدائی رجحانات حضرت سلطان باہو کے زمانے (۱۶۲۸تا۱۶۹۱)میں پائے جاتے ہیں۔ احمد تنویر اِس بات پر اصرار کرتا تھا کہ تخلیقی تجربات صرف اُسی صورت میں کامیابی سے ہم کنار ہو سکتے ہیں جب اُنھیں زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں ادبی ر وایات کی اساس پر استوار کیا جائے ۔ اُس کا خیال تھا کہ مشاعروں اور ادبی نشستوں کا فروغِ ادب میں وہی کردار ہے جو ایک بیج کی نمو کے سلسلے میں زرخیز زمین،پانی اور کھاد کا ہے ۔اگر بیج کو تیار زمین ،کھاد اور پانی فراہم نہ کیا جائے تو وہ کبھی روئیدگی کے مرحلے سے نہیں گُزر سکتا ۔اِسی طرح ادبی نشستوں ،مشاعروں اور تنقید و تحقیق کے بغیر نہ تو عصری آگہی پروان چڑھ سکتی ہے اور نہ ہی فروغِ ادب کے لیے نئے تجربات اور نئے افکار کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اردو زبان کے ارتقا کے ساتھ ہی یہاں اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شعر و ادب کی تخلیق کا سلسلہ جاری رہا۔ علی گڑھ تحریک ، رومانی تحریک ، ترقی پسند تحریک اور حلقہء اربابِ ذوق کے زیرِ اہتمام یہاں ادبی نشستوں کا باقاعدگی سے انعقاد کا سلسلہ جاری رہا ۔قیام پاکستان کے بعد ادبی نشستوں کی یہ روایت مزید تقویت پکڑنے لگی ۔احمد تنویر نے جھنگ کی ادبی نشستوں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔وہ مشاعرے کا ایک مقبول شاعر تھا ۔اُسے ملک کے طول وعرض میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں شرکت کی دعوت ملتی تھی اور وہ جھنگ کے شاعروں کی رفاقت میں طویل مسافتیں طے کر کے مشاعروں میں شرکت کرتا تھا۔اس کے معتمد ساتھیوں میں مرزا معین تابش ،حکمت ادیب ،بیدل پانی پتی ،رام ریاض ،امیر اختر بھٹی ،خیر الدین انصاری ،شارب انصاری ،صاحب زادہ رفعت سلطان ،کبیر انو ر جعفری ،محمد شیر افضل جعفری، ظفر سعید ،سجاد بخاری ،صدیق لالی ،طاہر سر دھنوی ،غلام محمد رنگین ،مجید امجد ،خضر تمیمی مہر بشارت خان ،اور دیوان احمد الیاس نصیب شامل تھے ۔ایک روشن خیال ادیب کی حیثیت سے احمد تنویر نے ہمیشہ سُلطانیء جمہور کی حمایت کی اور جبر کاہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت ضمیر سے جینا اپنا نصب العین بنایا ۔سماج ،معاشرے ،تہذیب و ثقافت ،تاریخ اور تمدن کے بارے میں اُس کی روشن خیالی کے سوتے اُس کے وسیع مطالعہ ،مشاہدے اور عالمانہ غور و فکر سے پُھوٹتے ہیں ۔وہ جو کچھ دیکھتا ،اُس پر غور کرتا اور اس کا تجزیہ کر کے اپنی رائے قائم کرتا۔جو ں جوں اُس کے غور و فکر اور تفکر و تدبر میں گہرائی اور گیرائی کا عنصر تقویت پکڑتا گیا ،اُس کے اسلوب پر روشن خیالی کا غلبہ ہوتا چلا گیااور اس نے ہر قسم کی عصبیت کو بیخ و بُن سے اُکھاڑ پھینکنے پر زور دیا۔وہ ظلمتِ شب کا شاکی رہنے کے بجائے اپنے حصے کی شمع فروزاں کرنے پر اِصرار کیا کرتا تھا ۔اُس کا استدلال یہ تھا کہ صرف اِسی صُورت میں سفاک ظُلمتوں ،جان لیوا سناٹوں ،جانگسل تنہائیوں اور جامد و ساکت ماحول سے گلو خلاصی ممکن ہے ۔ وہ مایوسی اور اضمحلال کے سخت خلاف تھا ۔اس کا اسلوب رجائیت پر مبنی تھا ۔وہ ان لوگوں کی سوچ پر گرفت کرتا جنھوں نے حقائق سے شپرانہ چشم پوشی کو وتیرہ بنا رکھا ہے ۔اُس کا خیال تھا کہ خزاں کے سیکڑوں منظر سہی لیکن یہ باتتو ہر قسم کے شک و شُبہ سے بالا تر ہے کہ طلوع صبحِ بہارا ں یقینی ہے ۔اِسی طرح ہر تاریک رات کے اختتام پر صبحِ صادق کی روشنی یہ نوید سُناتی ہے نظامِ ہستی چلانے والی ہستی کے ہاں دیر تو ہے لیکن اندھیر نہیں ۔ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے تخت و کُلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں ۔روشنیوں کی راہ میں حائل ہونے والے نیست و نابود ہو جاتے ہیں ۔اس نے اپنی شاعری میں یہ واضح پیغام دیا کہ یقین ،حوصلے ،صبر اور اُمید کا دامن تھام کر آگے بڑھنے والے ہی زندگی میں کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔
اﷲ کریم نے احمد تنویر کوایک مستحکم شخصیت سے نوازا تھا۔تخلیقِ فن کے لمحوں میں وہ خُون بن کے رگِ سنگ میں اُتر جانے کی صلاحیت سے متمتع تھا۔اس کی شاعری سنگلاخ چٹانوں ،جامد و ساکت پتھروں ،چلتے پھرتے ہوئے مُردوں ،حنوط شدہ لاشوں اور بلند و بالا ایوانوں کے تضادات سے آگہی کا موثر ترین وسیلہ ہے۔درِ کسریٰ پر صدا کرنا اُس کے مسلک کے خلاف تھا ۔یہ بات اُسے اچھی طرح معلوم تھی کہ ان کھنڈرات میں موجود بے جان اور بے حِس مجسمے گونگے اور بہرے ہیں ۔ اس کا خیال تھا کہ آج کے تخلیق کار کو دوہرے عذاب کا سامنا ہے وہ حالات کی سفاکی کو دیکھ دیکھ کر کُڑھتا ہے اور اِس کے بعد وہ دُکھی اور مظلوم انسانیت کو درپیش مسائل پتھروں کے سامنے بیان کرنے پر مجبور ہے ۔اِس لرزہ خیز صورت ِ حال کو وہ موجودہ دور کے اعصاب شکن المیے سے تعبیر کرتا تھا۔ وہ اس وسیع وعریض کائنات کی رعنائیوں اور نہایت برق رفتاری سے بدلتے ہوئے معاشرتی حالات کابہ نظر غائر جائزہ لیتا ۔اس کے بعد اپنے مشاہدات اور تجربات کو پُوری دیانت کے ساتھ الفاظ کے قالب میں ڈھالتا چلا جاتا۔فن کار کی انا کو اس نے ہمیشہ مقدم جانا ۔اس کا خیال تھا کہ ایک زیرک تخلیق کار کو ہوا کا رخ پہچان کرموقع ،ماحول اور زمانے کے مطابق اپنے لیے موزوں لائحہء عمل کا انتخاب کرنا چاہیے۔آج کے دور میں مافوق الفطرت داستانوں اورحُسن و رومان کے موہوم افسانوں کی کوئی گنجائش نہیں ۔ وہ ایک قادر الکلام شاعر ،محقق،نقاد ،افسانہ نگار ،انشائیہ نگار ،سوانح نگار اور مورخ تھا ۔ سنجیدگی ،انہماک اور خاموشی سے اپنے کام میں مگن رہنا اس کی فطرت ِ ثانیہ تھی ۔اپنی تعریف اور دوسروں کی غیبت اُسے نا گوار گُزرتی اور وہ اس قسم کی باتیں کرنے والے کو بر ملا ٹوک دیتا ۔ اس نے خود کو ہمیشہ پاکستانی ادب کا ایک طالب علم اور قومی زبان کا ایک خادم سمجھا۔ اس نے زندگی بھر اپنا تخلیقی سفر خُوب سے خُوب ترکی جانب جاری رکھا۔ وہ اس قدر خوش اطوار ،خوش اخلاق شگفتہ مزاج تھاکہ اس کی گل افشانیء گفتار سامعین کو مسحور کر دیتی ۔اس کے ساتھ طویل نشست کے بعد بھی تشنگی کا احساس بر قرار رہتا۔ اُس کی سوچ ہمیشہ تعمیری ہی رہی اس لیے وہ ستائش اور صلے کی تمنا سے سدا بے نیاز رہا ۔کسی کی تخریب یا تنقیص سے اس نے کبھی کوئی تعلق نہ رکھا۔اُس کی شاعری میں رنگ ،خوشبو اور حُسن و خُوبی کے تمام استعارے سمٹ آئے ہیں۔
محرومی کو قسمت کہنا پڑتا ہے
اُس کے میرے بیچ میں دریا پڑتا ہے
آگ بھی لگ جاتی ہے بانس کے جنگل میں
کبھی کبھی خاموش بھی جلنا پڑتا ہے
جب چاہت نفرت کے موڑ پہ آ جائے
تب لفظوں کی کاٹ سے بچنا پڑتا ہے
احمد تنویر کی طبیعت میں بہت عجز و انکسار پایا جاتا تھا۔ہر ملاقاتی کے ساتھ اعلا اخلاق اور بے پناہ اخلاص سے پیش آنا اُس کا شیوہ تھا۔کٹڑہ بیر والا جھنگ صدر میں جہاں وہ صرافہ بازار میں جیولر اور جوہری کے پیشے سے وابستہ تھا اور اِسی سے رِزقِ حلال کماتا تھا ،وہاں اُس کی دیانت داری اور نیک نیتی کی دُھوم تھی۔ وہ خُوب جانچ پرتال کر کے خالص سونے ،چاندی اور جواہرات کے زیور تیار کرتا تھا۔ اس کی دیانت اور صناعی کا پُورے ملک میں چرچا تھا۔وطنِ عزیز کے کمرشل بنک ضرورت مندوں کو زیورات کی ضمانت پر نقدقرضے دیتے ہیں۔اس کے لیے شرط یہ رکھی جاتی ہے کہ کہ کسی ماہر صراف کا تصدیقی سرٹیفکٹ منسلک کیا جائے کہ یہ زیورات خالص ہیں۔اس مقصد کے لیے احمد تنویر کی تحریر کالنقش فی الحجر تھی ۔ وہ زیورات کو کسوٹی پر خوب پرکھ کر اُن کی کیفیت کے بارے میں جو کچھ لکھ دیتا سب مالیاتی ادارے اُسے من و عن تسلیم کر لیتے ۔یہاں سے کچھ فاصلے پر تانگوں کا اڈا تھا جہاں دھوکا باز اور جرائم پیشہ عناصر نے ایک مکرہ دھندا شروع کر رکھا تھا۔ غریب لوگ اپنا خون پسینا ایک کر کے اپنی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کے لیے زیور خریدنے آتے اور یہ ننگ ِ انسانیت درندے جعل سازی کے ذریعے سادہ لوح لوگوں کی جیبوں پر ڈاکا ڈالتے اور اُن کی تمام جمع پُونجی ہتھیا لیتے اور غریب والدین کوسونے کے بجائے پیتل کے سوا کچھ نہ ملتا ۔ ان لُٹیروں کے عزیز و اقارب میں کچھ ایسے عقرب بھی تھے جن کے ہاتھ بہت لمبے اور تجوریاں زرو مال سے لبریز تھیں یوں اُنھیں کسی تعزیر کا خوف نہ تھا ۔لوگ ان کے شر سے بچنے کے لیے خالقِ کائنات کے حضور التجا کرتے کہ اُس قادر و عادل نے اِن فراعنہ کی مُدت کو کیوں بڑھا رکھا ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ ہر فرعون کے لیے ایک موسیٰ ضرور آتا ہے جس کی صداقت پوری قوت کے ساتھ کِذب وافترا کی جہالت کو بیخ و بُن سے اُکھاڑ پھینکتی ہے ۔احمد تنویر نے ان بگلا بھگت مسخروں کے مکر کی چالوں کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیااور ان کا کچا چٹھا کھو ل کر رکھ دیا۔ ایک مہینا بھی نہ گُزرا تھا کہ ان ٹھگوں اور نہنگوں کے نشیمن ویران ہو گئے اور یہ لوگ ایسے گئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔سب لوگ اس کام یابی پر اش اش کر اُٹھے اور احمد تنویر کے حق میں دعا کرنے لگے ۔علم بشریات کے ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا کے ہر معاشرے میں متعفن انڈے ،گندی مچھلیاں ،کالی بھیڑیں،سفید کوّے ،بُوم،شپر اور کر گس کثرت سے پائے جاتے ہیں لیکن قُدرتِ کاملہ نے ایسے درندوں کے زہر کا تریاق بھی پیدا کیا ہے ۔کچھ پارس صفت انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو خاک کو اکسیر بنانے کی صلاحیت سے متمتع ہوتے ہیں اور جو سفاک ظلمتوں میں ستارہء سحر کے مانند اپنے وجود کا اثبات کرتے ہیں ۔ جنھیں دیکھتے ہی ہر عقرب کا ڈنک جھڑ جاتا ہے اور انسانیت ان مُوذی و مکار درندوں اور حشرات کی ایذا رسانی سے محفوظ ہو جاتی ہے ۔احمد تنویر ایسا ہی پارس اور پارسا پارکھ تھا جس نے ہمیشہ حق و صداقت کا علم بلند رکھااور کسی مصلحت کی پروا نہ کی ۔ ادب میں حریت ِ فکر کے اس مجاہد نے بڑی شان کے ساتھ زندگی بسر کی ۔اُس نے چر بہ ساز ،سارق اور کفن دُزد مسخروں کے خلاف قلم بہ کف مجاہد کا کِردار ادا کیا۔تاریخ ہر دور میں اس کے ادبی کام اور عظیم نام کی تعظیم کرے گی۔اُس کی شاعری میں بھی حق گوئی و بے باکی کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔
یہ فصل تو بونی ہے
جس بات سے ڈرتے ہو
وہ بات تو ہونی ہے
معصوم مِرے بچے
پُھولوں کی طرح کو مل
ولیوں کی طرح سچے
یہ اُس کی حویلی ہے
دُشمن ہے جو ظالم کا
مظلوم کا بیلی ہے
خیال رکھتا ہے جُھلسی ہوئی زمینوں کا
سپاہِ ابر پہ اپنی کمان رکھتا ہے
وہ حوصلے بھی بڑھاتا ہے شہر والوں کے
شگفتگی کا بھی دِل میں گُمان رکھتا ہے
حلال رِزق کِھلاتا ہے اپنے بچوں کو
غریب شخص غریبی کی آن رکھتا ہے
وہ اعتبار بھی کرتا ہے میری چاہت کا
وہ فاصلے بھی کئی درمیان رکھتا ہے
مکان رکھتا نہیں ہے تو کیا ہوا تنویر
وہ اپنے سر پہ تو اِک آسمان رکھتا ہے
احمد تنویر کو اِس بات کا رنج تھا کہ آج کے دور میں حرص اور ہوس نے نوع انساں کو شدید فکری انتشارکی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔درد کی مسموم ہوا نے زندگی کی تمام رُتیں ہی بے ثمر کر دی ہیں۔تنہائی کی شامِ اَلم نے روح کو زخم زخم اور دِل کوکِرچی کِرچی کر دیا ہے ۔اُس نے واضح کر دیا کہ تنہائی کے لرزہ خیز ،اعصاب شکن حالات ، جان لیوا صدمات اور اس کے مضمرات سے نجات کا واحد ذریعہ انسانیت کے ساتھ بے لوث محبت اور ایثار ہے ۔وہ اس بات پر زور دیتا تھا کہ بے لوث محبت ،بے باک صداقت ،ایثار ،خلوص اور دردمندی کی اساس پر استوار ہونے والے اس سدا بہار تعلق کی مثال اُس فصل گُل کی ہے جو خزاں کی سفاکی سے محفوظ رہتا ہے اور اِسے اندیشہء زوال نہیں ہے ۔محبت کا یہ تعلق فرد کو حصارِ ذات سے نکال کر کائنات کے مسائل کا حقیقی احساس و ادراک عطا کرتا ہے ۔بنی نوع انساں کے ساتھ روحانی وابستگی اور قلبی محبت احمد تنویر کی جبلت میں شامل تھی ۔انسانیت کے ساتھ محبت کے اس ابد آشنا جذبے نے اُسے ایک ایسے ولولہ ٗتازہ سے آشنا کیا جس کے معجز نما اثر سے اُس نے سفاک ظُلمتوں میں بھی حوصلے اور اُمید کی شمع فروزاں رکھی اور طلوع صبحِ بہاراں کی تمنا میں روشنی کا سفر جاری رکھا۔
اﷲ کریم نے احمد تنویر کو جس اعلا جمالیاتی حِس سے نوازا تھا ،اُسے رو بہ عمل لاتے ہوئے وہ حُسنِِ فطرت کی تحسین میں مصروف رہتا۔ اُس کے اسلوب میں جمالیاتی سوز و سرور کا گہرا عمل دخل دکھائی دیتا ہے ۔ اِس کا واضح اظہار اُس کی تخلیقی فعالیت میں ہوتا ہے،جہاں اظہار کے جُملہ محاسن کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے۔ تشبیہات و استعارات ،صنائع بدائع ،خوب صورت الفاظ ،بر محل محاورات اور دل کش تراکیب کے استعمال سے اس نے ایک صناع کی طرح اپنی تخلیقات کے حُسن کو چا رچاند لگا دئیے ہیں ۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اُس کی تخلیقی تحریروں میں جمالیاتی سوز و سرور کی جو مسحور کُن کیفیت نگاہوں کو خیرہ کر دیتی ہے اُس کے سوتے حسنِ فطرت کی جلوہ آرائیوں سے پُھوٹتے ہیں۔زبان و بیان پر اپنی خلاقانہ دسترس کے اعجاز سے وہ حالات و واقعات اور حُسن کی جزئیات کی لفظی مرقع نگاری اس قدر دل نشیں انداز میں کرتا ہے کہ اُس کی تخلیقی تحریریں حُسن کاری کا اعلا نمونہ اور جمالیات کی محیر العقول تصویریں بن جاتی ہیں ۔اس کی باتیں زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کر کے سعیء پیہم اور عمل کی برکات پر یقین کو پختہ کرنے کا وسیلہ ثابت ہوتیں ۔آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ معاشرہ قنوطیت کا شکار ہے ۔ہر شخص یہ شکوہ کرتا ہے کہ تاریکیاں اور ویرانیاں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ وسعت افلاک میں کوئی جگنو یا ستارہ جھلملاتا دکھائی نہیں دیتا۔ نا خوشگواراور شدید موسموں کے باعث اُمنگوں کی بیل منڈیر چڑھتی دکھائی نہیں دیتی ۔مجبوروں کی زندگی اس دنیا کے آئینہ خانے میں خواب نما تمثیل کے سوا کچھ بھی تو نہیں ۔وقت کے اس حادثے کو کیا نام دیا جائے جہاں جاہل کو اس کے جہل کا انعام ملنے لگاہے اور شہر تمنا کے دریوزہ گر اپناکاسہ تھامے ضمیر کے عوض آسائشوں اور مراعات کی بھیک مانگ رہے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہم کی پر چھائیوں نے یقین کو دھندلا کر زندگی کی رعنائیوں کو گہنا دیا ہے ۔احمد تنویر نے انتہائی کٹھن اور صبر آزما حالات میں بھی قناعت اور استغنا کی اعلاترین مثال پیش کی ۔اس کا کہنا تھا کہ جھوٹ اور سچ میں امتیاز کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان خود آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے کا ظرف اور موقع پرستوں کو آئینہ دکھانے کا حوصلہ رکھتا ہو۔جس طرح احمد تنویر کا ظاہر بالکل اُجلا اور شفاف تھا اُسی طرح اُس کا باطن بھی صاف تھا ۔ہ دل کی بات لبوں پر لانے میں کبھی تامل نہ کرتا۔ہزار خو ف میں بھی اس کی زبان نے اس کے دل اور ضمیر کی ترجمانی کی ۔وہ منہ اندھیرے گھر سے نکلتامسجد میں نماز ِ فجر با جماعت ادا کرتا اور پھر رات گئے تک زندگی کے کاروبار میں مصروف رہتا۔دن بھر تو وہ بچوں کے لیے محنت مزدوری کرتا اور رات کو تخلیقِ ادب میں مصروف ہو جاتا اور اپنی نا مکمل غزلیں پُوری کرتا ۔مسودوں اور ادھوری تحریروں کی نوک پلک سنوار کر انھیں ادبی مجلات کو روانہ کرنے کے لیے لفافوں میں بند کرتا۔اس کی تخلیقات جن ادبی مجلات میں شائع ہوتیں ان میں افکار ،سیپ ،قومی زبان ،فنون ،اوراق ،ماہ نو ،ادبیات ، ادب لطیف ،تجدید نو ،نوادر ،عروج ،اوراق ،نیرنگ ِ خیال ،اقدار اور زعفران شامل ہیں ۔ امیر اختر بھٹی کا کہنا تھا کہ ا حمد تنویرنے طوفانِ حوادث اور سیلِ زماں کے حصار سے زندگی کی ناؤ بچانے کی جدو جہد میں جس بلند ہمتی کا ثبوت دیا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ اُس کے دیرینہ ساتھی غلام علی خان چین کی رائے تھی کہ احمدتنویر کی زندگی کے وہ مہ و سال جن میں وہ عشق و محبت اور حسن و رومان کی وادی میں مستانہ وار گھوم سکتا تھا محنت کشی کی نذر ہو گئے۔اپنے ہو نہار بچوں کے روشن مستقبل کے خواب دیکھتے دیکھتے متعدد حقائق اور بے شمار حسین لمحات اُس کے لیے خیال و خواب ہو کر رہ گئے۔ اس کے شہرِ آرزو میں اب خوب گہما گہمی ہے اور اس کی اولاد کی کوششوں سے انسانی ہمدردی اور ایثار کی صورت میں روشنی کا وہ سفر جاری ہے جس کا آغاز احمد تنویر نے کیا تھا۔جب تک دنیا باقی ہے احمد تنویر کی نیکیاں زندہ رہیں گی اور لوگ اس کی خوبیوں کو یاد رکھیں گے ۔ہر عہد کا مورخ اس کے نام کی تعظیم کرے گا۔
دوستوں کے انتخاب میں وہ وضع ِ احتیاط کا قائل تھا لیکن جب وہ کسی سے پیمانِ وفا باندھ لیتا تو وفاداری کو بہ شرط استواری اصلِ ایماں کی ایک صورت سمجھتا اور ہر صورت میں معتبر ربط کو برقرار رکھتا۔دوستی کے سلسلے میں احمد تنویر نے بہت کڑے معائر پیش نظر رکھے ۔وہ اپنے دوستوں ، ساتھیوں ،رفقا اور عزیزوں کے لیے ہمیشہ دیدہ و دِل فرشِ راہ کرنے پر تیا ر رہتا اور اُن کی ہربات تسلیم کرتا۔اُن کے مشورے پر عمل کرتا اوراُن کے خلاف کوئی بات سُننا گوارا نہ کرتا۔وہ بیماروں کی عیادت ،لوگوں کے دُکھ اور سُکھ میں شرکت ضرور کرتا ۔اِس سلسلے میں وہ اپنے یا بیگانے کی تفریق کا قائل نہ تھا۔کسی کو کانٹا بھی چُبھتا وہ تڑپ اُٹھتا اور اُس کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنے پہنچ جاتا۔پروفیسر عباس ہادی کی وفات پر وہ دھاڑیں مار مار کررو رہا تھا۔پروفیسر غلام قاسم خان کی فطین بیٹی جو گورنمنٹ کالج برائے خواتین ،جھنگ سے گریجویشن کر رہی تھی اچانک حرکت ِ قلب بند ہونے کے باعث دائمی مفارقت ے گئی تو احمد تنویر کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی ۔اپنے عہد کی عظیم شخصیات سے اس کے قریبی رابطے رہے ۔وہ چاہتا تھا کہ اِن نابغہء روزگار ہستیوں نے اپنی زندگی میں جو عظیم کار نامے انجام دئیے ہیں ،اُن کی قدر کی جائے اور ان کی زندگی کو لائق تقلید سمجھتے ہوئے اپنے حالات کو بہتر بنایا جائے۔جن ممتاز شخصیات کے ساتھ اس نے معتبر ربط رکھا ان میں ڈاکٹر نثار احمد قریشی ،ڈاکٹر بشیر سیفی،نظیر صدیقی، احمد ندیم قاسمی ،ڈاکٹر وزیر آغا ، راجا رسالو، سبط الحسن ضیغم ،سید ضمیر جعفری ،شفیق الرحمٰن ،صابر آفاقی ،محسن بھوپالی ،غفار بابر ،محمد فیروز شاہ ،عطا شاد ،صابر کلوروی ، ڈاکٹر محمد علی صدیقی ، ممتاز مفتی ، شبنم رومانی ،صہبا لکھنوی ،وارث میر ، شریف کنجاہی ،خالد احمد ، ڈاکٹر فرمان فتح پوری ،جون ایلیا ،قدرت اﷲ شہاب ،ارشاد گرامی ،ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان ،محمد حیات خان سیال ،رحیم بخش شاہین ،ڈاکٹر محمد ریاض ، اسیر عابد ،اقبال زخمی ، اُستاد دامن ،سید اختر حسین اختر ،محمد آصف خان ،دلاور فگار اور منیر نیازی کے نام قابلِ ذکر ہیں ۔اُردو کی کلاسیکی شاعری اسے بہت پسند تھی ۔اردو کے جن کلاسیکی شعرا کے اثرات اس کے اسلوب میں نمایاں ہیں ان میں میر تقی میر ،غالب،سودا،آتش،حسرت ،داغ ،حالی ،انیس اور دبیر شامل ہیں ۔اردو ادب کے جدید دور کے جن تخلیق کاروں کے اسلوب سے وہ متاثر تھا ان میں احمد ندیم قاسمی ،ڈاکٹر وزیر آغا ،احسان دانش ، مجید امجد ، سید جعفر طاہر ، منشا یاد ،ساغر صدیقی ،منیر نیازی ،فیض احمد فیض ،احمد فراز ،تنویر سپرا، حبیب جالب ،جوش ملیح آبادی ،قتیل شفائی ،محمد شیر افضل جعفری اور محسن بھوپالی کے نام قابلِ ذکر ہیں ۔ علی گڑھ تحریک کے زیر، اثر تخلیق ہونے والے ادب کی اہمیت اورافادیت کا وہ قائل تھا ۔نظیر اکبر آبادی کی نظم نگاری کو وہ اردو نظم کے ارتقا میں سنگِ میل قرار دیتا تھا ۔شبلی نعمانی کی سوانح نگاری ، سیرت نگاری اور سر سید کی مقصدیت سے لبریز مضمون نگاری کا وہ دلدادہ تھا۔اردو ادب میں طنز و مزاح کے معیار سے وہ مطمئن تھا ۔وہ طنز و مزاح کو وہ کسی قوم کی تہذیبی شائستگی اور اخلاقی رفعت کی علامت سمجھتا تھا۔ جن مزاح نگاروں نے زندگی کی نا ہمواریوں،بے اعتدالیوں ،تضادات اور کجیوں کے بارے میں ہمدردانہ شعور پیدا کر کے فن کارانہ انداز میں اپنی گُل افشانیء گفتار سے قارئین کے لیے تزکیہء نفس کا اہتمام کرنے کی کوشش کی ان کے اسلوب کا وہ شیدائی تھا۔اس نے شفیق الرحمٰن ،کرنل محمد خان ،ابن انشا،چراغ حسن حسرت ،نذیر احمد شیخ ،محمد خالد اختر ،اکبر الہ آبادی اور رتن ناتھ سرشار کی تصانیف کا نہایت توجہ سے مطالعہ کیا۔عالمی ادبیات کے تراجم سے اس کی دلچسپی زندگی بھر بر قرار رہی ۔ اُس نے اپنا ذاتی کتب خانہ بنا یا تھا جس میں ادبی مجلات اور نادر کتب کی تعداد تین ہزار کے قریب تھی ۔ اُسے کمپیوٹر اور انٹر نیٹ سے بھی گہری دلچسپی تھی اُس نے سائبر لا ئبریریوں اور عالمی معیار کے اون لائن ادبی مجلات سے بھر پور استفادہ کیا۔تراجم کو دو تہذیبوں کے ما بین ایک سنگم سے تعبیر کرتا تھا ۔اس کی خواہش تھی کہ عالمی ادب کے تراجم سے پاکستانی ادبیات کی ثروت میں اضافے کی مساعی کو تیز کیا جائے۔ خیر الدین انصاری نے ہندی اور گُر مُکھی کی نمائندہ تخلیقات کو جب اُردو زبان کے قالب میں ڈھالنے کا سلسلہ شروع کیا تواحمد تنویر نے اِسے بہت پسند کیا۔ وہ ژاک لاکاں ، سوسئیر ،ژاک دریدا ،رولاں بارتھ ،ٹیری ایگلٹن ،ٹی ۔ایس ایلیٹ اور میتھیو آرنلڈ کے مضامین نہایت توجہ سے پڑھتا تھا۔جدید تنقید اورلسانیات کے موضوع پر ممتازادیب اور نقاد خیر الدین انصاری اور سمیع اﷲ قریشی کے ساتھ تبادلہء خیال کر کے وہ بہت خوش ہوتا تھا۔پروفیسر حافظ حاجی محمد حیات کی وقیع تصنیف ’’نو رِ حیات ‘‘۱۹۹۵میں شائع ہوئی ۔گورنمنٹ کالج جھنگ کے سلطان باہو ہاسٹل میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں احمد تنویر مہمانِ خصوصی تھا۔اپنے صدارتی خطبے میں اُس نے کتاب کے محاسن پر جو سیر حاصل بحث کی ،اُسے سامعین نے بے حد سراہا ۔اس کتاب میں فلسفہ ،نفسیات ،سوشیالوجی اور علمِ بشریات کے موضوع پرمصنف نے تحقیق و تنقید کا حق ادا کر دیا ہے احمد تنویر نے ان تمام موضوعات پرمدلل گفتگو کی اور مصنف کے اسلوب کا عالمانہ تجزیہ پیش کیا۔خطبہء صدارت کے اختتام پر طلبہ اور اساتذہ نے احمد تنویر کے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام کیا۔اس موقع پر ممنونیت کے جذبات سے پروفیسر حافظ حاجی محمد حیات کی آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں انھوں نے احمدتنویر کو گلے لگالیا اور گلو گیر لہجے میں کہا،’’اس دیار میں میری زبان سمجھنے والا ایک ہی شخص ہے اوروہ احمد تنویر ہے ۔اس قدر وسیع المطالعہ شخص میں نے اپنی زندگی میں پہلے کہیں نہیں دیکھا۔‘‘
ادبی محفلیں سجاناہمیشہ احمد تنویر کا اہم ترین شوق رہا۔جب بھی کسی کتاب کی رونمائی ہوتی ،محفلِ نعت ،محفلِ مسالمہ ،شامِ افسانہ یا کسی ادیب کے اعزاز میں کسی نشست کا اہتمام ہوتا ہر جگہ احمد تنویر موجود ہوتا اور اپنے حسنِ انتظام سے ادبی نشست کو یادگار بنا دیتا۔رام ریاض کے شعری مجموعے ’’پیڑ اور پتے ‘‘،خیر الدین انصاری کی خود نوشت ’’لہکتی ڈال ‘‘اور سجاد بخاری کے شعری مجموعے ’’خیمہء جاں ‘‘کی تقریب ِ رونمائی قارئینِ ادب کو ہمیشہ یاد رہے گی ۔ان اہم تقریبات کاانتظام احمد تنویر نے کیا تھا۔ اردو شاعری میں نعت گوئی سے احمد تنویر کو دلی لگاؤ تھا۔وہ خود بھی نعت کا اچھا شاعر تھا اور نعت گو شعرا کی نعتوں کی دل و جاں سے قدر کرتا تھا ۔نعت سُن کر فرطِ عقیدت اور عشق رسولﷺ سے اُس کی آنکھیں پُر نم ہو جاتیں ۔ جھنگ میں مقیم اُردو زبان کے ممتاز شاعر رام ریاض(ریاض احمد شگفتہ) کی نعت گوئی کو احمد تنویر نے ہمیشہ عقیدت اور عشقِ رسولﷺکا بلند ترین معیار قراردیا۔رام ریاض کی یہ نعت اُسے بہت پسند تھی ۔وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ رام ریاض کی یہ نعت قبولیت کا درجہ حاصل کر چُکی ہے :
جو بھی شیریں سخنی ہے میرے مکی مدنیﷺ
تیرے ہونٹوں کی چھنی ہے میرے مکی مدنی ﷺ
نسل در نسل تیری ذات کے مقروض ہیں ہم
تُو غنی اِبنِ غنی ہے میرے مکی مدنیﷺ
جولائی ۲۰۰۶کے اوائل میں مجھے احمد تنویر کی علالت کے بارے میں معلوم ہوا ۔میں مہر بشارت خان کے ساتھ اُس کے گھر روانہ ہوا ۔خلافِ معمول احمد تنویر باہر نہ نکلا بل کہ ان کے ہو نہار فرزند نے ہمیں بٹھایااور چائے سے تواضع کی ۔تھوڑی دیر کے بعد ہم احمد تنویر کے کمرے میں بیٹھے تھے ۔احمد تنویر بسترِ علالت پر تھا اور اس کی جسمانی کم زوری بڑھ چُکی تھی۔وہ جری تخلیق کار جو زندگی بھر طُو فانوں میں پلنے ،تُند و تیز مخالف ہواؤں کا ُخ بدلنے اور کٹھن حالات کے سامنے سینہ سپر رہنے کا ولولہ اپنے دل میں لیے عزم و ہمت کی چٹان بنا رہا اس وقت بستر سے لگا حالات کے رحم و کرم پر تھا۔ہم نے دِل تھام کر احمد تنویر سے گفتگو کی ۔وہ حسب ِ معمول چاق چو بند تھااور اُس کے چہرے پر تبسم نمایاں تھا۔ اُس کا لہجہ حسبِ معمول دبنگ تھا اور الفاظ کی ترنگ نے بھی ماضی کی یاد تازہ کر دی اُس نے ہم سے سب دوستوں کی خیریت دریافت کی اور اپنی بیاض پیش کی جِس پر اُس کی تازہ شعری تخلیقات درج تھیں ۔ہم پُر اُمید تھے کہ جو شخص اس علالت میں بھی تخلیقِ فن میں مصروف ہے وہ یقیناًاپنی زبردست قوتِ اِرادی کوبروئے کار لا کر اور بیماری کے خلاف قوتِ مدافعت سے بیماری کو پسپا کرکے صحت یاب ہو جائے گا ۔ وہ مجید امجد کی شاعری کا دلدادہ تھا ۔دورانِ گفتگو احمد تنویر نے اپنے مخصوص دبنگ لہجے میں مجیدامجد کے یہ اشعار پڑھے جِن کی باز گشت آج بھی سُنائی دے رہی ہے :
جو دِن کبھی نہیں بِیتا وہ دِن کب آئے گا ؟
انہی دنوں میں سے اس ایک دِن کو کون دیکھے گا ؟
میں روز اِدھر سے گُزرتا ہوں کون دیکھتا ہے ؟
میں جب اِدھر سے نہ گُزروں گا کون دیکھے گا؟
ہزار چہرے خود آرا ہیں کون جھانکے گا؟
مِرے نہ ہونے کی ہونی کو کون دیکھے گا؟
۱۵۔جولائی ۲۰۰۶ کو احمد تنویر کے نہ ہونے کی ہونی سُن کر ادبی حلقوں میں صفِ ماتم بچھ گئی ۔شہر کا شہر سوگوار تھا ،اہم تجاری مراکز اُس کے سوگ میں بند ہو گئے ۔ ہزاروں لوگ اس عظیم انسان کے جنازے میں شریک تھے ۔اُس کا آخری دیدار کیا تو اُ س کی آنکھیں تو مُند گئی تھیں لیکن اُس کے چہرے پر دائمی مسکراہٹ موجود تھی ۔یہی تو مردِ مومن کی پہچان ہے ۔سب عزیزوں نے اس خورشید ِ جہاں تاب،انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی پہچان،عظیم انسان اور ادب کے ہمالہ کی سر بہ فلک چوٹی کو پُر نم آنکھوں سے سپردِ خاک کیا۔احمد تنویر کی لحد گُلاب کے پھولوں سے ڈھک گئی ۔امیر اختر بھٹی نے روتے ہوئے دعا مانگی:
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہء نو رستہ اِس گھر کی نگہبانی کرے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔