: " بانی: مکان اور لامکان کا غزلیہ جدید تر شاعر" :::
اردو کے معتبر و تازہ لہجے کا شاعر بانی کا اصل نام راجند منچذا تھا۔ بانی 12 نومبر 1932 میں پاکستاں کی سرائیکی پٹی کے شہر ملتان میں پیدا ھوئے ۔ سترہ (17) سال کی عمر میں تقسیم ہند کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ دہلی آگئے۔ بھارت کی جامعہ پنجاب سے اقتصادیات میں ایم ۔اے کی سند حاصل کی۔ پھر وہ دہلی میں پاکستان سے نقل مکانی کی ھوئی ڈیرہ اسماعیل خان ( صوبہ پختوان خواہ۔ سابقہ صوبہ سرحد) کی برداردی کے قائم کئے ھوئے ایک اسکول میں مدرس مقرر ھوئے اور اپنی موت تک اس اسکول سی منسلک رھے۔ساتھ ھی وہ دہلی کی ادبی نشتوں اور محافل کی جان بھی رھے اور اردو غزل کے نئے امکانات پر بحث و مباحثہ بھی کرتے رھے اور نئی نئی اردو غزل کی حسیت کو اردو سے روشناس کروایا۔انھیں اردو کی نئی کلاسیکی غزل کا شاعر بھی کہا جاتا ھے۔ وہ اپنی غزلیات میں متنازعہ تمثالوں کو استعمال نہیں کرتے تھے۔اس میں تمثال آفرینی بھی پائی جاتی ھے۔ یہ ان کا اپنا جداگانہ اسلوب تھا لیکن وہ غزل کے روایتی آہنگ کو برقرار رکھنا چاھتے تھے۔ بانی فراق گورکھ پوری کی طرح اردو میں ہندی شعری اسلوب کے اثرات کو اچھا شگون تصور کرتے تھے۔ بانی کی غزلیات میں ابہام، تناقص اور احساسات کی پیچیدگی بھی ملتی ھے۔
بانی تند مند، درمیانہ قد کے کے خوب صورت انساں تھے۔ ترشی ھوئی موچھیں بھرا بھرا چہرہ کھلا ھوا رنگ کے مالک تھے۔ وہ خوب صورت آنکھوں میں خواب لیے اردو کی تازہ غزل اور اس کے جمالیاتی لہجے کو نیا رنگ دے رھے تھے۔ یکایک اپنے شعری سفر کے عین عروج پر وہ گھٹیا اور گردوں کی شدید بیماری نے انھیں گھیر لیا اور ایک گھبرو جوان کئی سال اس مرض میں مبتلا ھوکر نہایت تکلیف اذیت کےساتھ 49 سال کی عمر میں 11، اکتوبر 1981 کو دہلی کے ھولی فیملی ہسپتال میں اس جہان فانی سے رخصت ھوئے۔
بانی کی شعری کیفیات بھی اچھوتی نوعیت کی ہیں۔ ان کی شاعری کو پڑھ کر فورا ھی یہ احساس ھوتا ھے۔ کی ان کے غزلوں میں پختگی ، تازہ کاری، تہذیبی نفاست، احساسات کی مٹھاس اور لفظیات کی خوشبو سے معطر ھے۔ اپنے آبائی شہر ملتان سے جلادطنی کا ناسٹلجیا ( پس کربیہ) دبے قدموں ان کی شعری کائنات میں داخل ھوکر ان کے شعری اظہار کا حصہ بنتی ھے۔ بانی کی شاعری ذات سے گریزیت ھے اور اپنے آپ میں گمشدگی کی شاعری ھے۔ جس کی حقیقت بھی مشکوک ھے۔ ان کا شعری سفر تکیل کی کی معدومیت اور مکاں و لامکاں کے قطبین کو واضح نشانات عطا کرتا ھے اور قوتوں اور انسانی مزاحمت اورتعارض سے خود کلامی کے عمل میں ان کی شعری کائنات جنم لیتی ھے۔ اور ان کا تخلیقی آفاق ان کی غزلوں میں ماورائی احساس کو اجاگر کرتی ھے۔ بعض دفعہ یہ بھی ھوتا ھے کی تخلیقی عمل میں ان کے یہاں بحران داخلی کشمکش سے گذر کر اپنے شعری کو نیا منصب کو عطا کرتی ھے۔ بانی کی شاعری کو پڑھکر یہ احساس ھوتا ھے کہ ان کے شعری ریاضیت اور غزلیاتی اسلوب کے مزاج سے عمیق آگاہی اور اس میں " فنی" اور جمالیاتی تبدیلوں کا خواہاں تھا۔ وہ اپنے شعری رویوں میں " بت شکن" بھی نظر آتے ہیں مگر وہ انتہا پسندی کا شکار نہیں ھوئے اور نہایت محتاط انداز میں غزل کی ماہیت کو سمجھتے ھوئے پہلے خود کی شعری حسیت پر " تنقید ذات" کیا اور اپنی غزلوں میں سقم اور اسلوب کے واھماتی طلسمات کو اپنی مخصوص داخلی بے چینی کے ساتھ بڑی مہارت سے دور بھی کر دیتے ہیں۔ ان کی شاعرانہ معنیات، شعری رموز، لفظیات و تلازمات بئے روپ سے ان غزلوں سے رنگ آمیز ھوتے ہیں۔ اور ایک ایسے لسانی آفاق کو خلق کرتے ہیں جو نیا تو ھوتا ھے اور قاری کو بھی نئے مزاج اور اسلوب پر سوچنے اور محظوظ ھونے کی دعوت دیتا ھے۔ ان کی غزلیات کی معروضی فضا غیر ضروری لوازمات اور بے جذبہ اور کھوکھلی لیپا پوتی پوتی سے دور رھتا ھے۔ ان کی شاعری میں زندگی کے پرسرار منظر نامے میں نامیاتی اور ما حولیاتی ( ECOLOGICAL) آلودگی کے ان احساسات کو بھی بیاں کرتی ھے جو فرد کی زندگی میں اس کے ذہن اور معاشرتی بیں العمل میں فرد کے ٹوٹے ھوئے رشتون کا سانحہ اور حسی ماجرا بھی سنایا جاتا ھے ، ساتھ ھی انسان کی پرسرار خاموشی بھی ان کے لیے ازیت ناک ھے۔ جو ان کے باطن کی سچائی ھے۔
۔۔۔۔۔ اس طرح نارسائی بھی کب تھی یہ کیا امتحان ھے
گاہ بنجر صدا، گاہ پامال چپ درمیان ھے ۔۔۔۔
بانی کی شاعری رومانی اور جسمانی عشق سے انحراف ھے۔ جسم اور نفس پرستی ان کے یہاں نظر آتی ھے۔ اس تخلیقی عمل میں نئے انسانی رشتون اور انسانوں پر آسمانون سے برسنے والے عذابوں کو اپنے ذہن اور نئے لسانی اسلوبیاتی لہجہ سے انفرادی اظہار کی شناخت بناتی ھے۔ بانی نے اپنی غزلوں میں انسان کی لاسمتیت اور بکھرے ھوئے وجود کو نئی تاویلات کے ساتھ پیش کیا ھے۔
۔۔۔۔۔ نہ منزلیں تھیں، نہ کچھ دل میں تھا نہ سر میں تھا
میں کہ عکس منتشر ایک ۔۔ایک منظر میں اکیلا
بانی شعور کے اس شعری بیداری کا نام ھےجس میں ڈرامائی تصادم بھی ھے جو بڑ ہ کر طربیہ سے المیاتی ھوجاتی ھے۔جس سے ان کا قاری ان کے کرب، ازیت اور المناکیوں کو محسوس کرکے ایک مخصوص قسم کی "جمالیاتی اذیت" تو محسوس کرتا ھے۔یہی بانی کا شعری ہنر ھے۔ کہ قاری بھی اپنے طور پر ان شعروں کو اپنے تناظر میں تشریح کرنے لگتا ھے اور اسکے اطراف پھیلی ھوئی اشیاء ، جذبوں، انسان کی من وتو کی دینا کو اپنی ذات سے باھم اور منسلک سمجھتا ھے۔ بانی کا یہی اسلوبیاتی ہنر ان کو اپنے ھم عصر شعرا سے الگ اور منفرد بناتی ھے۔ جن میں مسائل حیات کی گونج سنائی دیتی ھے۔ اور اس کی سرسراہٹ کو قاری کی سوچ وفکر کو کئی نئی جہات اور زاویون سے آشکار کرتی ھے۔ بانی نے جدید غزل کو جدید تر بنایا اور اس کے تبدیل ھوتے ھوئے مزاج کو مزید جدید سے جدید تر بنا دیا۔
بانی کی شعری فطانت کو شعری ریاضیت کے حوالے سے دریافت کیا جاسکتا ہے ۔ ان کی شاعری میں خود شکن رویّہ ان کے تخلیقی فن کی معراج ہے۔ جو خود شناسی کا انکشاف ہے جو اپنے ہاتھوں سے رویوّں اور اظہاری پیکروں کی نقشہ بندی کرتی ہے اور لگتا ہے کی ان کی غزلیات میں پوشیدہ واردات اور احساس معاشرت آزمائشی لمحوں سے ترتیب پاتی ہے جو کبھی کبھار خود کو مسمار کرتی نظر آتی ہے۔ اور ایک مر مرکزیت میں سے کئی زیلی مرکذیتیں خلق کردی جاتی ہے اور اپنی تشکیل کی تشکیل نو کے متبادلات خود ہی تلاش کرلیتی ہے۔ وہ منطقی تجربات مشاہدات کو بھی بعض دفعہ شدت کے ساتھ مسترد دیتے ہیں۔ بانی کی شاعری لمسی عشق اور جسمانی رومانیت سے انکار کردیتی ہے۔ جس کو " عنیت کی شاعری" بھی کہا جاسکتا ہے لہذا بانی کی شاعری کو نو کلاسیکی شاعر کہا جاسکتا ہے ۔
بانی کی شعری تصایف یہ ہیں:
1۔ " حرف معتبر" (1972)
2۔ "حساب رنگ" (1976)
3۔ " شفق سحر" (1982) اس شعری مجموعے کو ان کے دوستوں شمس الرحمان فاروقی، گوپی چند نانگ، رام پرکاش راہی اور جی رام داس فلک نے بانی کے انتقال کےبعد شائع کیا۔
۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-
بانی کی ایک غزل ملاخطہ فرمائیں:
مرے بدن میں پگھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
اِک اور ذات میں ڈھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
مری صدا نہ سہی۔۔ہاں۔۔ مرا لہو نہ سہی
یہ موج موج اچھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
کہیں نہ آخری جھونکا ہو مِٹتے رِشتوں کا
یہ درمیاں سے نکلتا ہوا سا کچھ تو ہے
نہیں ہے آنکھ کے صحرا میں ایک بوند سراب
مگر یہ رنگ بدلتا ہوا سا کچھ تو ہے
جو میرے واسطے کل زہر بن کے نکلے گا
تِرے لبوں پہ سنبھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
یہ عکسِ پیکرِ صد لمس ہے، نہیں۔۔ نہ سہی
کسی خیال میں ڈھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
بدن کو توڑ کے باہر نکلنا چاہتا ہے
یہ کچھ تو ہے، یہ مچلتا ہوا سا کچھ تو ہے!
کسی کے واسطے ہوگاپیام یا کوئ قہر
ہمارے سر سے یہ ٹلتا ہوا سا کچھ تو ہے
یہ میں نہیں۔۔ نہ سہی۔۔۔ اپنے سرد بستر پر
یہ کروٹیں سی بدلتا ہوا سا کچھ تو ہے
وہ کچھ تو تھا، میں سہارا جسے سمجھتا تھا
یہ میرے ساتھ پھسلتا ہوا سا کچھ تو ہے
بکھر رہا ہے فضا میں یہ دودِ روشن کیا
اُدھر پہاڑ کے جلتا ہوا سا کچھ تو ہے
مِرے وجود سے جو کٹ رہا ہے گام بہ گام
یہ اپنی راہ بدلتا ہوا سا کچھ تو ہے!
جو چاٹتا چلا جاتا ہے مجھ کو اے بانی!
یہ آستین میں پلتا ہوا سا کچھ تو ہے!!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔