::: " ریڈیکل ادبی تنقید کا پس منظر، اسکی ماہیت اور اس کے چند مغربی اور اردو ناقدین " :::
اردو ادب میں ریڈیکل تنقید پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ حالانکہ دینا کی ادبی اور ثقافتی انتقادات میں یہ موضوع ایک عرصے سے تنقیدی دانش کا حصہ رہا ہے۔ ریڈیکل کا لفط انگریزی میں سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں اس ماخوذ لفظ کے معنی " اصل" یا " حالت" کے ہوتے ہیں۔ اسے عربی رسم الخط کے ساتھ بطار صنف استعمال کیا جاتا ہے۔ 1869 میں سرسید احمد خان نے اس لفظ کو " مکتوبات سرسید" میں لکھا تھا۔ " ریڈیکل" لاطینی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی " جڑ" ہوتے ہیں جو بنیاد پرستی سے قریب ہے۔ اس تنقیدی روئیے مین مسئلے اور متنازعہ فی امور پر گہرائی سے مطالعہ اور تجزیہ کرکے " جڑوں" تک پنچا جاسکتا ہے۔
یہ پرانی اور نئی نسل کی فکری اور جذباتی جنگ بھی ہوتی ہے۔ جو اپنی شناخت کو متعین کرنا چاہتی ہے۔ جہاں پرانی اور قدامت پسندانہ فکریات کو " سیدھا " کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے اقتدار اور STATUS QUE کے تصادم اور کشمکش کی جنگ بھی ہے۔ جو ایک آزادی کا متمنی ہے۔
جدید ریڈیکل لسانی اور ادبی تنقید میں بلاونت، بارتھس، فوکو، ایگلٹن، دریدا، چومسکی، ری منڈ ولیم، وغیرہ پیش پیش ہیں ۔ ان کے ادبی اور اور فکری نظریات نے ریڈیکل انتقادات کی فکریات کو بئی راہیں فراہم کی مگر دریدا کی ریڈیکل تنقید مکمل طور پر کوئی رہنمائی فراھم نہیں کرتی۔ وہ دیگر علوم کے امتزاج سے " انّا کا انصاف" فراھم کردیتے ہیں۔ اور انھیں ایک ریڈیکل حوالے سے مظہریت کے تناظر میں ردتشّکیلیت کا ایک کھلاڑی تسلیم کرلیتے ہیں جس میں تاقض ھی "انصاف" کی ادبی اقدار کو ابھارتی ہے جو کلاسیکی تربیت سے عاری ہوتا ہے۔ اس میں کسی نہ کسی طور پرسیڈ، ملارمے، پراوسٹ، اخطو، ژان ژینے، دروس، آینسکو، ایربیل
اور بیکٹ کے ادبی فکری اور تنقیدی نظریات میں " ریڈیکل ازم" نظر آتا ہے۔ اس قسم ہ کی ادبی تنقید کو ثقافتی انقلاب بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے بطن میں کلاسیکی فکری روایت کی جمالیات میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ اس تنقیدی روئیے میں زیادہ تر لبرل اور یساریت پسند ادبا اور فلاسفہ پیش پیش ہوتے ہیں۔ اس کے متن اور عنوانات میں موضوعی اور معروضی، افقی ، عمودی، حقیقی ، عینی حرکیات اور سکونیات پوشیدہ ہوتی ہیں۔ اور ان کے حقائق کا جبر بھی حاوی ہوتا ہے اس کی اصل وجہ معاشرے کی ناانصافی ، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، اعصابی تناو اور بحران ہوتا ہے۔ ریڈیکل ادبی نظریہ ثقافتی میدانوں کی " تشکیل نو" بھی کرتا ہے۔جو ثقافتی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک وسیع سیاسی سیاق کا حامل ہوتا ہے۔ اس صورتحال میں تشکیک کا عنصر خاصا ہوتا ہے جو بعض دفعہ ابہام کا بھی شکار ہو جاتا ہے۔
ریڈیکل فکریات سب سے زیادہ مارکسی، ردتشّکیل، تانیثیی اور نوابادیاتی تنقیدی تحریروں میں سب سے زیادہ دکھائی دیتی ہے یو کبھی کبھار کلاسیکل لبرال ازم کا روپ دھار لیتی ہے لیکن تاریخی نوعیت کی قدامت پسندانہ خود نوشت ریڈیکل تنقید کا خاصا بھی ہوتا ہے۔ اور پنے آپ کو یہ لوگ " ریڈیکل استدلال" بھی کہتے ہیں۔
اردو میں کچھ ادبی ناقدین کو تحریروں کو " ریڈیکل تنقید" کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے ۔ جن میں چند ناقدین کو مکمل طور پر ریڈیکل نقار نہیں کہا جاسکتا۔ مگر ان کے تحریروں میں " ریڈیکل ازم" کی بو آتی ہے۔ اردو میں سید احتشام حسین، اختر حسین رائے پوری، ممتاز حسین، سبط حسن، محمد حسن، عبادت بریلوی، قمر رئیس، کلیم الدین احمد، سید محمد عقیل، ظہیر کاشمیری، اختر انصاری، علی جواد زیدی، عتیق اللہ، باقر میدی، انیس ناگی، افتخار جالب، وارث علوی، فضیل جعفری، وحید اختر، انجم اعظمی، آغا سہیل، عبد العیلم نامی اورعلی احمد فاطمی شامل ہیں۔ { فہرست نامکمل ہے} :::
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔