اُن پانچ کے گلے تو پتلی تار کے ساتھ اسی لیے گھونٹے گئے کہ وہ جائداد کے مالک تھے۔ سترہ سالہ رومانہ اور چودہ سالہ آدم کے ساتھ سات سالہ حیدر بھی اس لیے قتل کیا گیا کہ اس کے باپ اور ماں کے نام زمین تھی۔ ہاتھ پائوں رسیوں کے ساتھ باندھے گئے‘ منہ ٹیپ سے بند کیے گئے اور آسٹریلیا سے وطن واپس آنے کی سزا دی گئی۔ عامر اللہ خان نے جب کلاشنکوف ٹائپ کا کوئی ہتھیار خریدا تو آسٹریلیا سے اُس کے دوستوں نے اسے کہا کہ تم اتنی بڑی کمپنی کے ایگزیکٹو ہو‘ تمہیں یہ خریدنے کی کیا ضرورت ہے؟ عامر اللہ خان کا جواب تھا کہ پاکستان میں رہنے کے لیے تمہیں یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔
لیکن تین سالہ احمد رضا کا کیا قصور تھا؟ اس کے باپ کے پاس تو جائداد تھی نہ ماں کے نام زمین؟ ان لوگوں نے تو مشکل سے ایک موٹر سائیکل رکھا ہوا تھا۔ چھ بہنوں کے اکلوتے بھائی احمد رضا کو کیوں قتل کیا گیا؟ سات سالہ حیدر کا باریک تار سے قتل تو اس ملک میں منطقی جواز رکھتا ہے‘ اس لیے کہ غربت کی طرح امارت بھی اس سرزمین پر جرم ہے خاص طور پر وہ امارت جو خون پسینے کی محنت سے حاصل کی گئی ہو۔ اس ملک میں اگر آپ ڈاکٹر ہیں‘ وکیل ہیں‘ کسی بڑی کمپنی کے ایگزیکٹو ہیں اور سیاست سے دور ہیں تو پھر آپ کو یا آپ کے متعلقین کو یہاں امن و امان سے رہنے کا کوئی حق نہیں۔ ہاں اگر آپ سیاست میں دخیل ہیں‘ علاقے کے ناخدا ہیں‘ پولیس آپ کی جیب میں ہے۔ سرکاری ملازموں کے تبادلے کرا سکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کی کمان میں دس بیس پچاس سو یا دو سو بندوق بردار پرائیویٹ فورس بھی کام کر رہی ہے تو پھر تو آپ یہ سمجھیے کہ یہ ملک آپ کا ہے اور آپ اس سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
تین سالہ احمد رضا کے گلے پر جب ڈور پھری ہے ا ور اس کا گلا کٹا ہے تو ہلکی سی چیخ تو نکلی ہوگی۔ تین سالہ بچے کے گلے سے نکلی ہوئی چیخ کتنی بلند ہوگی؟ چڑیا کی چیخ کی طرح؟ کبوتر کی چیخ جتنی؟ تو کیا اُن لوگوں نے سنی ہوگی جو تکّے کھا کر چڑے اڑا کر پتنگیں اُڑا رہے تھے؟ کیا یہ باریک چیخ… اتنی ہی باریک جتنی باریک وہ ڈور تھی جس نے گلا کاٹا… ڈیڑھ دو گھنٹوں کی مسافت پر واقع وزیراعلیٰ ہائوس میں سنی گئی ہوگی جہاں سب کے گلے محفوظ تھے؟ جہاں چڑیا پر نہیں مار سکتی۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کون سا وزیراعلیٰ ہائوس؟ تو تین چار یا زیادہ وزیراعلیٰ ہائوسز میں سے جو ہائوس گوجرانوالہ سے نزدیک تر تھا‘ کیا خبر وہاں تین سالہ احمد رضا کی چیخ کی ہلکی سی پرچھائیں پڑی ہو! امجد جب شادی کی تقریب سے نکلا تو اس نے اپنی چھ بیٹیوں کے اکلوتے بھائی کو موٹر سائیکل پر اپنے آگے بٹھا لیا۔ گوجرانوالہ کی اپر چناب روڈ گواہ ہے اس بات کی کہ جب تین سالہ احمد رضا وہاں سے گزر رہا تھا تو اس وقت تک اس نے کوئی جرم نہیں کیا تھا لیکن ابھی موٹر سائیکل نے اپر چناب روڈ کا سفر ختم نہیں کیا تھا کہ ڈور پھری اور احمد رضا کی شہ رگ کٹ گئی۔ چھ بہنیں میت سے لپٹ لپٹ کر رو رہی تھیں لیکن آہ! تین سالہ احمد رضا کی میت تو اتنی چھوٹی تھی کہ چھ بہنیں بیک وقت لپٹ ہی نہیں سکتی تھیں۔ اُس کی تو لاش بھی ننھی سی تھی۔ تین سال کے صرف چھتیس مہینے ہی تو بنتے ہیں! چھتیس مہینوں میں احمد رضا کتنا بڑا ہو سکتا تھا!
گوجرانوالہ اور لاہور کے زندہ دلوں کو سلام! جو خوش خوراکی کے ساتھ پتنگ اڑانے کے لیے بھی مشہور ہیں‘ لیکن تفریح کے نام پر قتل صرف گوجرانوالہ اور لاہور ہی میں نہیں ہوتے۔ ہمارے بھائی جو خیبر پختونخوا میں رہتے ہیں‘ خوشی کے موقع پر ہوائی فائرنگ کرتے ہیں تو کئی معصوم جانیں ان کی خوشی پر قربان ہو جاتی ہیں۔
کیا سارا حساب کتاب روزِ آخرت پر چھوڑا جا رہا ہے؟ کیا کسی نے حساب لگایا ہے کہ پچھلے پندرہ یا بیس سالوں میں ڈور پھرنے سے اور ہوائی فائرنگ کرنے سے کتنے بے گناہ ہلاک ہوئے ہیں؟ اور ان کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا ان کی ذمہ دار ریاست نہیں ہے؟ کیا حکمران نہیں ہیں؟ جس ملک میں وعظ کرنا اور وعظ سننا لوگوں کا مشغلہ ہو اس ملک میں ہر شخص نے یہ بات سنی ہوئی ہے کہ فرات کے کنارے مرنے والے کتے کی ذمہ داری امیر المومنین پر تھی۔ تو کیا ہمارے بچے‘ ہمارے احمد رضا فرات کے کنارے مرنے والے کتوں سے بھی گئے گزرے ہیں؟
اُس خدا کی قسم! جس نے احمد رضا کو پیدا کیا اور زندگی دے کر اس ملک میں بھیجا‘ ریاست کے حکمران ضرور پکڑے جائیں گے۔ اس دنیا میں۔ اس دنیا میں نہیں تو ایک اور دنیا میں…!
اور ایک بات… اگرچہ غلیظ گالیوں سے بھری ہوئی ای میلوں میں اس بات سے خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ اگر کافروں کے کسی ملک میں… اگر سنگاپور میں‘ سوئٹزرلینڈ یا کینیڈا میں‘ اگر ڈنمارک‘ ناروے یا جرمنی میں… ڈور پھرنے سے یا ہوائی فائرنگ سے ایک شخص بھی ہلاک ہوتا تو ریاست وہ ایکشن لیتی کہ ایسا سانحہ دوبارہ ناممکنات میں سے ہوتا۔ ڈور استعمال کرنے والے تو رہے ایک طرف‘ ڈور بنانے کی نوبت ہی نہ آتی۔ آسٹریلیا کے موسم گرما میں درجۂ حرارت بڑھتا ہے تو پودوں پتوں اور گھاس کو خود بخود آگ لگ جاتی ہے۔ باربی کیو آسٹریلیا کا قومی شعار ہے۔ ہر پارک‘ ہر پکنک سپاٹ‘ ہر باغ میں باربی کیو کے لیے گیس کا انتظام سرکار نے کیا ہوا ہے۔ ہر گھر کے صحن میں باربی کیو کا چبوترہ بنا ہوا ہے۔ جس دن درجۂ حرارت ایک خاص حد سے زیادہ ہوتا ہے تو حکومت اعلان کرتی ہے کہ آج باربی کیو پر پابندی ہے۔ اُس خدا کی قسم! جس نے احمد رضا کو پیدا کیا‘ یہ پابندی ہر پارک‘ ہر پکنک سپاٹ اور ہر باغ میں نبھائی جاتی ہے۔ اپنے گھروں کے پچھواڑوں میں بھی باربی کیو کوئی نہیں بناتا۔ اس لیے کہ سب جانتے ہیں یہ پابندی کسی کے ذاتی مفاد کے لیے نہیں‘ یہ تو اجتماعی بہبود کے لیے عائد کی گئی ہے۔ لیکن یہ وہ حکومتیں ہیں جن کے وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ اور وزیر قوم کے سامنے جواب دہ ہیں۔ جن سے ایک ایک پائی کا حساب لیا جاتا ہے۔ جنہیں وزارتوں سے اس لیے برطرف کردیا جاتا ہے کہ سرکاری پیڈ کے کاغذ پر ذاتی سفارش کیوں کی؟
احمد رضا کا قاتل کون ہے؟ ڈور بنانے والے؟ بیچنے والے؟ اُس سے پتنگ اڑانے والے؟ کاٹنے والے؟ یا ریاست؟… یا یہ سارے؟