احمد نواز – شاعرِ خُوش نوا از قلم احسان شہابی
آدم زاد اپنی ذات کے اظہاریے کے لیے نت نئے طریقے ڈھونڈتا ہے. شاعری بھی انسانی اظہار کا ایک دیرینہ اور مقبول وسیلہ ہے. مشاہدہ اور تخیل کی فضائے بسیط سے کسی نکتے کو ڈھونڈ نکالنا اور پھر اس کو شعر کی خلعتِ خوشنما پہنانا آسان کام نہیں. تخلیقی کرب کی بھٹی میں پک کر ہی خیالِ خام کندن بنتا ہے. ایک جاں سوز لگن، تڑپ اور صبر آزما ریاضت کے بعد ہی شعر گوئی کا ہنر کسی کی گرفت میں آ سکتا ہے.
عہدِ حاضر میں اُردو شاعری کی مختلف اصناف میں جاری گرانقدر کام نے اس مقبول زبان کے حسن اور وسعتِ ظرف میں مزید اضافہ کیا ہے. موجودہ شعری ماحول میں آج کے نوجوان شعراء اپنی تخلیقیت اور تازہ کاری کے باعث اپنی موجودگی کا مسلسل احساس دلا رہے ہیں. ایسی ہی ایک توانا اور خوش کن آواز احمد نواز کی ہے کہ جسے محض اس کے شعر کی بنیاد پر سنجیدہ ادبی حلقوں کی خاطر خواہ توجہ اور زبردست پزیرائی ملی ہے. اس نے اپنے اشعار کی دلکش بُنت، خیال کی بندش، مصرع سازی، زبان کے تخلیقی استعمال، حسنِ تغزل، لطفِ بیان، معنویت، تازہ کاری، تلازمہ، متنوع اور جاندار مضامین اور عصری شعور کی عمل داری سے اربابِ سخن کی نظر اور دل میں جگہ بنائی ہے.
احمد نواز کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع چکوال سے ہے. پیشے کے لحاظ سے وہ دفاعِ وطن سے وابستہ ہے. وہ ایک خوبصورت شاعر اور اُنس بانٹنے والا منکسرالمزاج انسان ہے۔ لفظوں کو برتنے کا فن اسے خوب آتا ہے۔ انسانی جذبات و احساسات ہوں یا جمالیات۔۔احمد نواز کے لئے کچھ بھی نیا نہیں۔
وہ ایک ایسا پختہ کار اور جدت شعار شاعر ہے کہ جس کا اپنا مخصوص رنگ اور منفرد انداز ہے. اس کے ہاں تخیل کی بلندی، فکر کی گہرائی اور گیرائی، خیال کی رنگینی اور جذبات کی فراوانی پائی جاتی ہے. ایسی حسین اور حسِ لطیف سے مملو شاعری یقیناً اس کی ذات کے حسن اور لطافت کی آئینہ دار ہے.
احمد نواز کی شاعری کے کینوس پر مختلف دلآویز مضامین دیدہ زیب رنگوں کی صورت پھیلے ہوئے ہیں. ان میں محبت، احترامِِ آدمیت، عرفانِ ذات، جستجوئے خدا، فلسفہ، تصوّف، نفسیات، قلبی اور روحانی تجربات، رومانویت، ہجر و وصل کی کیفیات و تجربات، دنیا کی بے ثباتی اور مابعد الطبیعات کے مضامین کے علاوہ سماجی اور عصری مسائل شامل ہیں .وہ ایک درد مند دل کی آنکھ سے دنیا کو دیکھتا ہے اور پھر اپنی شاعری کے ذریعے اپنے مشاہدات اور احساسات کو ورود بخشتا ہے . ذات سے کائنات اور کائنات سے ذات تک کے سفر میں وارداتِ قلبی کو بیان کرنے کی لگن اس کے اندر کے شاعر کو اظہار پر اکساتی ہے. وہ راہگزارِ ہستی میں "میں" کی رکاوٹ کو عبور کر کے محبت کی کھلی فضا میں محوِ پرواز نظر آتا ہے. اس کا شعری اظہاریہ داخلیت اور خارجیت کا حسین امتزاج ہے. وہ شعری محاسن اور جدید شعری حسیات کا بخوبی ادراک رکھتا ہے. شعر گوئی کے عمل کے دوران گویا اسے اپنی ذات کی پرتیں دریافت ہوتی نظر آتی ہیں، جو اس کی جستجو کو اور بھی مہمیز کرتی ہیں اور یوں وہ دائمی سرشاری سے بہرہ مند ہوتا دکھائی دیتا ہے. اس کا کلام شعور سے اور شعر شعریت سے خالی نہیں اور یہ بڑی بات ہے. تخلیقی کرب جھیلنے کے بعد لفظوں کا معتبر ٹھہرنا یقیناً اس کے لیے وسیلہء راحت بنتا ہے.اس کی شاعری بادِ صبا کی گود میں کھیلنے والا بہت خوبصورت پھول ہے کہ جس کی مہک روزافزوں ہے.
احمد نواز نے حمد و نعت، قصیدہ، سلام اور منقبت کے علاوہ قطعہ، ثلاثی، گیت نگاری، نظموں اور بالخصوص غزلوں کی صورت میں اپنی ذات کا آبرومندانہ اور شاندار اظہار کیا ہے. فنِ شعرگوئی میں اس نے جو خوبی پائی ہے، وہ دیدنی ہے. اس نے عصرِ حاضر کی غزل کی فضا میں اپنے منفرد اور دلفریب رنگ بکھیر کر اس کے حسن اور جاذبیت میں اضافہ کیا ہے. دعا ہے کہ احمد نواز کا یہ گلشنِ سخن ہمیشہ شاداب اور پُربہار رہے اور اہلِ دل کی آنکھوں کو لُبھاتا رہے. آمین.
ذیل میں احمد نواز کے کلام سے منتخب اشعار اور چند غزلیں پیش ہیں کہ جن سے اس کی شعری کائنات کو سمجھنے میں مدد ملے گی. غزلیہ شاعری کے بعد احمد نواز کی نظم کی اڑان، اُپچ اور اُسلوب کے تعارف کے طور پر ایک نظم " خِرد کے گھاؤ" بھی شامل کی گئی ہے.
……………………………
مُنتخب اشعار
کچھ نہ ہوتا جو ماورائے نظر
آنکھ بے موت مر گئی ہوتی
کہا تھا کس کو تُو نے "کُن" خدایا!
کوئی تو تھا جو تیرے دھیان میں تھا
زندگی کے زنداں میں جبر کی حکومت ہے
آدمی کی آزادی ناتمام حسرت ہے
بند ہو کے کھلتی ہے آنکھ دیکھنے والی
ایک عمرِ لاحاصل آگہی کی لاگت ہے
ڈر ہی ہر اک فرد کا دُشمن ،ڈر ہی پہرہ دار ہے
آسانی کے دور میں جینا کس درجہ دشوار ہے
نسبت سے اوقات بدلتے دیکھی ہے
پتھر کی بھی ذات بدلتے دیکھی ہے
آنکھوں پر اس جہان کی ہیئت کھُلی نہ تھی
جب تک مجھے شعور کی عینک لگی نہ تھی
پھر ایک یہ اجازت بھی میں نے دی اس کو
حجاب بن کے مرا مجھ کو بے حجاب کرے
بات ہو بات کی دلیل نہ ہو
کوئی ایسا بھی بے سبیل نہ ہو
جب بھی صحرا میں شام آتی ہے
خود کلامی ہی کام آتی ہے
کچھ فسانے زباں سے باہر تھے
کچھ فسانے بیان ہو نہ سکے
مجھے چُھو کر چلا جائے
خیال اُس کا ہوا سا ہے
ذہن کو جانے کیا نظر آیا
دیر تک سوچتی رہی آنکھیں
اک عمر گزاری ہے یُونہی دربدری میں
تب جا کے کوئے یار میں دریاب ہوئے ہم
اپنا ہونا گنوا دیا اُس نے
جس نے ہونے کا بھید پایا ہے
تیری آنکھوں میں یہ نمی کیسی
آس پر پڑ گیا ہے پانی کیا
خدا سے تعزیت کرنے چلا ہوں
کہ انساں خودکشی تک آ گیا ہے
یمِ ہستی میں بہتے بہتے آخر
مجھے پانی پہ چلنا آ گیا ہے
آنکھ بھر دیکھا نہ مُفلس کو کسی نے عُمر بھر
قبر میں رکھنے سے پہلے قد کی پیمائش ہوئی
لامکاں کا خیال میں آنا
لامکاں تک اُڑان ہے لاریب
عجب جہاں ہے جہاں ہر جہاں کے سینے میں
براجمان ہزاروں جہان ملتے ہیں
وہ دی ہے وقت کو وسعت تری محبت نے
ہر ایک لمحے کے پہلُو میں اک زمانہ ہے
کرے گزشت سے پیوست میرے جیون کو
جو لاشعُور میں گزرا مقام ٹھہرا ہے
وفورِ شوق سے منزل قریب آتی ہے
شعورِ ذات سے ہوتا ہے راستہ روشن
آج دیکھا ہے آئنہ میں نے
آج تم آنکھ میں نظر آئے
بالآخر ہم ہی سو جاتے ہیں تھک کر
کوئی منظر یہاں سوتا نہیں ہے
تجھ کو طے کر کے پا لیا خود کو
مجھ سے مجھ تک کا فاصلہ تُو ہے
میرا ہونا مرے گماں تک ھے
یہ کہانی فقط بیاں تک ہے
اپنی کھڑکی سے پرائی رونقیں احمد نہ جھانک
رنگ مُشتِ چشم میں جو ہیں ہوا ہو جائیں گے
تو کیا ہوا جو میں دنیا بدل نہیں سکتا
اسے میں حسنِ نظر سے تو دیکھ سکتا ہوں
ایک صورت ہے کہ بچ جائے یہ دنیا احمد
خواب ہر آنکھ کو، پھر خواب کو تعبیر ملے
قحط الابصار کے اُس دورِسیہ بختی میں
نُور زادے نے سرِدشت اُگائی آنکھیں
خواب سازی کا ہْنر ذہن کو آتا ہے مگر
دل بھی اس کام میں کچھ ہاتھ بٹا دیتا ہے
سب کو حالات نے ڈھالا ہے الگ سانچوں میں
یہ حقیقت مری نفرت کو مٹا دیتی ہے
کتنا چاہا جا سکتا ہے یار! کسی کو
بے حد چاہت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے
سوچ سمجھ کر نیکی کرنا ٹھیک ہے لیکن
اصل میں نیکی وہ ہے جو سرزد ہوتی ہے
زخم ہو جائے مندمل پھر بھی
اچھا خاصا نشان رہتا ہے
حیف! ہم مثلِ نباتات جئیے
مٹ گئے کھِل کے بس اک بار, اور بس
نقش بنتا نہیں ہے پانی پر
اوِر بضد ہوں میں رائیگانی پر
جب نگاہوں میں یار آتا ہے
اپنی آنکھوں پہ پیار آتا ہے
یاد بھلی ہے آ جاتی ہے
تم تو آنا بھول گئے ہو
درد مسافر ہو جائیں گے
آخر ہم بھی سو جائیں گے
اس کو میری فلاح چاہیے
اب وہ ایسا بھی بے نیاز نہیں
فلک تسخیرنا ممکن نہیں تھا
کہاں تک طائرِ لاچار جاتا
میں اُس سے پوچھتا معنی ابد کے
کوئی جو وقت کے اُس پار جاتا
اب مجھے اپنی ذات ہے درپیش
اب مرے سامنے ہمالہ ہے
تری نظر میں جو ٹھہرے تو معتبر ٹھہرے
وگرنہ ہم تو زمانے کے بے ہنر ٹھہرے
آٹھواں رنگ دیکھنے کے لیے
تیسری آنکھ ڈھونڈتا ہوں میں
کب سے آنکھوں میں نم نہیں آیا
ایک مدت سے بے نمُو میں ہوں
تجھ کو محسوس کر لیا ورنہ
تیرا انکار کرنے والا تھا
میں کسی تشنہ فام پیکر میں
پیار کا رنگ بھرنے والا تھا
مرے بابا تھے جب تک اس جہاں میں
میں گُل تھا اور اک گُل دان میں تھا
میری تجدید کی جا رہی ہے وہاں
دیکھ آیا ہوں میں وقت کے پار بھی
عجب کٹھ پتلیاں رقصاں تھیں ہر سو
کسی پوشاک میں پیکر نہیں تھا
دل سے تعظیمِ خاک کرتا ہوں
اور کوئی ہنر نہیں آتا
اک نیا رنگ دیکھنے کے لیے
اک نیا زاویہ ضروری ہے
ازل کے پردہ نشیں کی تلاش جاری ہے
گْماں کے ہاتھوں یقیں کی تراش جاری ہے
کہاں سے آئے ہیں وحشی یہ میرے شہروں میں
جو بات بات پہ لوگوں کی جاں کو آتے ہیں
مری طلب ہے کہ ہر درد سے نجات ملے
مجھے تو دردِ محبت میں مبتلا کر دے
حسرتِ دید میں یہ کام بھی کر آیا ہوں
اپنی آنکھیں تری دہلیز پہ دھر آیا ہوں
……………………………..
غزلیں
حریمِ ذات میں پھر جا گزیں نہیں رہتا
جو دلنشیں نہیں رہتا کہیں نہیں رہتا
کبھی کبھی مجھے تیرا گمان ہوتا ہے
کبھی کبھی مجھ اپنا یقیں نہیں رہتا
تو کون ہے مجھے چلمن سے جھانکنے والا
اگر مکان میں کوئی مکیں نہیں رہتا
عجب نگر سے جہاں درد جا بجا ہے مگر
غضب ہے کوئی یہاں درد بیں نہیں رہتا
یہاں وہاں مری پرچھائیوں کے مسکن ہیں
وگرنہ میں کہیں اپنے تئیں نہیں رہتا
میں اپنے آپ پہ قابو رکھوں تو کیسے نواز
مرا یہ دل مرے زیرِ نگیں نہیں رہتا
……………………………..
اہلِ زر کْوچہءِ افلاس کو کب دیکھتے ہیں
وہ تو بس اپنا جہاں اپنی طرب دیکھتے ہیں
دیکھتے کب ہیں وہ محرومیِ چشمِ مضطر
یوں تو کہتے ہیں کہ اب دیکھتے ،اب دیکھتے ہیں
یوں بدل دیتا ہے جلوہ تیرا سب معمولات
چومنے لگتی ہیں آنکھیں تجھے، لب دیکھتے ہیں!
نازنیں! کون تجھے میری نظر سے دیکھے!
دیکھنے کو تو تجھےآئینے سب دیکھتے ہیں
دیکھتے ہیں کہ کوئی دیکھنے والا تو نہیں
اور پھر جم کے ترے عارض و لب دیکھتے ہیں
پھڑپھڑاتا ہے جنوں، دل بھی مچلتا ہے مگر
دیکھتے وقت بھی ہم حدِّ ادب دیکھتے ہیں
بعد میں مجھ کو وہ خوش ہو کے عطا کرتے ہیں
پہلے پل کو مرا حسنِ طلب دیکھتے ہیں
اُن کا کہنا تھا کہ اک بار اِدھر دیکھیں گے
آنکھ مشتاق ہے، اب دیکھیے، کب دیکھتے ہیں
حادثہ کیسا ہی ابصار شکن ہو احمد
دیکھنے والے مگر اس کا سبب دیکھتے ہیں
………………………….
کیا عجب لوگ ہیں اور کیسی دعا مانگتے ہیں
رب سے سب کچھ ہی مگر رب کے سوا مانگتے ہیں
نیکیاں کرتے ہیں بس وہ جو موافق آئیں
اور پھر ان پہ جزا حسبِ رضا مانگتے ہیں
دیکھ کر حضرتِ انسان کی یہ بے قدری
مانگنے والے بھی بس بہرِ خدا مانگتے ہیں
میں کئی سال سے بوسیدہ پڑا ہوں گھر میں
پر یہ بچے مجھے ہر روز نیا مانگتے ہیں
' لامکاں' سُن کے نہیں ان کی تشفّی ہوتی
اب تو یہ لوگ ترے گھر کا پتہ مانگتے ہیں
صرف سادہ ہی نہیں رنگ کے اندھے بھی ہیں لوگ
دستِ خونریز سے جو رنگِ حنا مانگتے ہیں
ہم سے معمول کی حاجات نہ روئی جائیں
مانگنے پر کبھی آئیں تو جُدا مانگتے ہیں
اک محبت کی نظر، پیار کے دو بول بہت
ہم فقیر اور بھلا آپ سے کیا مانگتے ہیں
پہلے جتلاتے ہیں لوگ اپنی وفائیں احمد
اور پھر ہم سے وفاؤں کا صلہ مانگتے ہیں
…………………………..
دلربا ہے، مگر جُدا بھی نہیں
یہ ترا حُسن کچھ نیا بھی نہیں
مجھ کو اُس کی سمجھ نہیں آتی
اوِر وہ انسان ہے، خدا بھی نہیں
حد تو یہ ہے کہ بے وفائی پر
اُس کو خفّت نہیں، ذرا بھی نہیں
جانے کس بُت کے پاؤں پڑتا ہوں
جو مرا ہاتھ تھامتا بھی نہیں
میں کہ اُس لمس کے سرور میں ہوں
اب تلک جو مجھے ملا بھی نہیں
مجھ کو کہتا ہے زندگی، لیکن
خوش دلی سے گزارتا بھی نہیں
ایک تو وہ نہیں بُرا اتنا
اوِر مجھے اُس سے مسئلہ بھی نہیں
میرے اندر یہ کون بستا ہے
میں جسے خاص جانتا بھی نہیں
عمر بھر دشتِ آگہی چھانا
اوِر بجز پیاس کچھ صلہ بھی نہیں
کس لیے زحمتِ دُعا سائیں!
میں نے تو آپ سے کہا بھی نہیں
مجھ کو لاحق ہے دردِ تنہائی
جُز ترے جس کی کچھ دوا بھی نہیں
……………………………..
ہجر کو یار کا اوتار بنا رکھّا ہے
اُس کی ہر یاد کو تہوار بنا رکھّا ہے
میری نظروں میں نظر آتا ہے وُہ، آنکھوں کو
یار کا آئینہ بردار بنا رکھا ہے
اُسکی یادوں کے حسیں پھول کھلا کر دل میں
دامنِ دشت کو گُل زار بنا رکھا ہے
مُجھ میں اک خوف زدہ شخص ہے ایسا جس نے
میرے ہر کام کو دشوار بنا رکھا ہے
اُس کو بتلاؤ قناعت کی دوائی کھائے
جس کو بُہتات نے بیمار بنا رکھا ہے
جب سے کم مائیگیِ لفظ کھُلی ہے مجھ پر
خامشی کو رہِ گفتار بنا رکھا ہے
بے نیازی بھی ادا اس کی ہے جس نے اپنا
اک زمانے کو طلب گار بنا رکھا ہے
اپنے پاؤں سے کُچلتے ہیں وہی سر اِن کے
جن کو جمہور نے سرکار بنا رکھا ہے
دیکھنے والے کو فن کار بنا دے، احمد
تُو نے ایسا کوئی شہکار بنا رکھا ہے ؟
……………………………..
نظم
خِرَد کے گھاؤ
اگرچہ اِک فریب ہے
جہان دِلفریب ہے
قدم قدم پہ حیرتیں
جنم جنم ہیں حسرتیں
نظر نظر فراز ہے
ڈگر ڈگر نشیب ہے
جہان دلفریب ہے
تہِ وجود میں
کوئی وجُود ہاتھ نا لگے
کئی سُروں کو چُھو کے بھی
سرُود ہاتھ نا لگے
ازل سے جو ہےمنبعِ شہُود، ہاتھ نا لگے
جو زیبِ دید ہو نہیں سکا
وہی تو حسنِ لاوجود دیدہ زیب ہے!
جہان دِلفریب ہے
نظر کی مار سے پرے
حقیقتِ بعید ہے
یہ جَست بھر سی جُستجو
متاعِ رہرواں ہے بس
جو جانتے ہیں راہ میں
مسافروں کی تاک میں
مسافتوں کی ہار ہے
مگر وہ من میں نم لیے
دقیق ریگ زار میں
بنا کسی رفیق کے
زیاں گری میں مست ہیں
جو راستوں میں کٹ گئے
مگر سفر نہیں کٹا
چراغ کے سراغ میں
جو رزقِ تیرگی ہُوئے
تلاشنے کی مشق
مثلِ جلق ہے
جو ذہن کے تناؤ کا اک عارضی علاج ہے
مگر خرد کے گھاؤ کا
کہاں کوئی علاج ہے!
نگاہِ بے لباس کے لیے فقط
لبادہءِ شکیب ہے
جہان اک فریب ہے
اگرچہ دل فریب ہے!
جہان اک فریب ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“