ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
سلسلہ غزل برائے تنقید
No 1
تاریخ : 17-07-2019
غزل نمبر : 1
شاعر : احمد کاشف ۔۔ ناندورہ
تنقید و تبصرہ : غلام مصطفیٰ دائمؔ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہو کے ناراض وہ کیا مجھ سے ذرا بیٹھ گیا
محفلِ عشق میں دل قیس نما بیٹھ گیا
پہلے مصرعے میں کا محبوب ناراض ہوا۔ دوسرے میں شاعر کا دل قیس نما ہو کر عشق کی محفل میں بیٹھ گیا۔ قیس نما بیٹھنا کوئی معروف طریقہ یا تلمیح نہیں۔ جس کی بنیاد پر شعر کا کوئی متعین معنیٰ نکالا جائے۔ قیس نما بیٹھنے کی ایک توجیہ یہ بھی ممکن ہے کہ جَم کر بیٹھنا، نہ اٹھنے کا عہد لے کر بیٹھنا، محبوب ہی کا ہو رہنا، اس کی متابعت…. الغرض اس کی مختلف توجیہات ہو سکتی ہیں۔
شعر معیاری اعتبار سے 60٪ تک پہنچا ہے۔ البتہ شعر کی بندش نے شاعر کی پختگی اور فن پر دسترس کی غمازی کر دی ہے۔
آج پھر لوٹا نہیں وعدہ فراموش مرا
آج پھر سے دلِ آشفتہ نوا بیٹھ گیا
"لوٹا" کی بجائے "آیا" ہو تو مناسب ہوتا۔ کیوں کہ اس سے محبوب کے وعدہ فراموشی کا دعویٰ زیادہ مدلل ہوتا ہے۔ "لوٹا" کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ محبوب ادھر ہی سے گیا تھا اور واپس نہیں آیا۔ دوسرے مصرعے میں "دل بیٹھ جانا" محاورہ کا خوب صورت استعمال ہے۔
قبر مسکن ہے مرا آخری منزل تو نہیں
آکے کچھ دیر تھکا ہارا ذرا بیٹھ گیا
مناسب شعر ہے۔ لیکن قبر میں "لیٹا" جاتا ہے۔ شاعر نے بٹھا دیا۔ کمزور شعر ہے۔ اور قبر میں آنے کو سستانے کے لیے چند لمحے بیٹھنا برتا جا چکا مضمون ہے۔ اور بہتر انداز میں استعمال ہو چکا ہے۔
جانے کیا زور تھا ہلکے سے اشارے میں ترے
جوں ہی محفل سے میں جانے کو اٹھا بیٹھ گیا
واہ۔ بہترین شعر ہے۔ لیکن "زور" کی بجائے "راز" ہوتا تو شعر زمین سے آسمان پر ہوتا۔
عشق کا روگ چھڑائے نہیں چھٹتا کاشفؔ
چارہ گر دے کے زمانے کی دوا بیٹھ گیا
مناسب شعر ہے۔ اور برتا گیا مضمون ہے۔ صرف داغؔ دہلوی نے مختلف اعتبار سے اس خیال کو بیسیوں مرتبہ استعمال کیا ہے۔ یہاں بھی "بیٹھ گیا" تھک ہار کر بیٹھ جانا مراد ہے۔ محاورہ بندی میں شاعر کو دسترس حاصل ہے۔ اس کا اعتراف کیا جاتا ہے۔
==============================
ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
سلسلہ غزل برائے تنقید
تاریخ : 18-07-2019
غزل نمبر : 2
شاعر : ڈاکٹر نصرت حنفی
تنقید و تبصرہ : غلام مصطفیٰ دائمؔ
چھلکی جو اس کے تن سے ذرا سی برہنگی
سوچوں میں گھل گئی میرے خاصی برہنگی
بدن سے برہنگی چھلکنا = عریاں ہونا
سوچوں میں برہنگی گھلنا = عریاں خیالات آنا، عریاں پسندی، عریانئ خیالات
دوسرا مصرع مہمل ہے۔
پہلے مصرع قدرے بہتر اور قابلِ قبول ہے۔ جبکہ دوسرے میں معنیٰ اولاً تو سرے ہی سے پیدا نہیں ہو رہا۔ اور اگر بہ تکلف، دور کی کوڑیاں لائی بھی جائیں تو دونوں مصرعے باہم مربوط نہیں ہیں۔
یہ بات میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ مطلع غزل کا نقیب ہوا کرتا ہے اور بقیہ تمام اشعار کے لیے فکری سطح کا تعین کرتا ہے۔ چونکہ اس غزل کے مطلع میں ایک تو معنیٰ ہی نہیں۔ اور اگر دوڑ دھوپ کر کے کچھ تلازمہ جوڑ لر دیکھا بھی جائے تو جو سب سے بڑا عیب اس مطلع میں ہے، وہ قافیہ کی نادرستی ہے۔ کیوں کہ "سی" اور "صی" ہم قافیہ نہیں ہو سکتے۔
رگ رگ میں اک سرور سا ہے ڈولتا ہوا
رقصاں لہو لئے پہ ہے پیاسی برہنگی
رگ رگ میں سرور ڈولنا = کیف و نشاط کی کیفیت
دوسرا مصرع سراسر مہمل۔ کیا کہا جائے۔ "لہو لئے پہ ہے" کس لغت کے الفاظ ہیں؟
پیاسی برہنگی = وہ برہنگی جو دیکھنے والے کی نظر چاہے۔
لیکن لفظ لفظ اکیلا تو بامعنیٰ ہو سکتا ہے، جبکہ مکمل مصرعے کی صورت دیکھیں تو لاحاصل۔
پہہنے ہوے ہے یوں تو ہر اک آدمی لباس
لیکن عیاں ہے زیرِ قبا سی برہنگی
بہترین شعر ہے۔ اور عصرِ حاضر کی معاشرتی تہذیب و تمدن کی دلچسپ عکس بندی ہے۔ خوب داد قبولیے۔
دوسرے مصرعے میں بہ ظاہر "سی" اضافی معلوم ہوتا ہے، لیکن پورے شعر میں ایک وہی لفظ اہمیت کا حامل ہے۔ شاعر نے "زیرِ قبا برہنگی" نہیں کہا۔ بلکہ کہاں کہ زیرِ قبا جس طرح کی برہنگی ہوتی ہے، بیرونِ قبا ایسی برہنگی ظاہر ہے۔
اس ایک لفظ "سی" نے مجھے اس شعر سے بہت لطف دیا ہے۔
کھل کھیلنے میں طاق ہے یہ اجنبی بہت
یاد آگئی کسی کی شناسی برہنگی
کھل کھیلنا = جانے کہاں کا محاورہ ہے؟ میرے مطالعے میں یہ پہلی مرتبہ آیا ہے۔ معنیٰ معلوم نہیں۔
شناسی برہنگی = یہ کون سی برہنگی ہوئی؟؟ محض قافیہ بندی کے لیے شناسی لفظ لایا گیا ہے، ورنہ فی الحقیقت اس کا کوئی معنیٰ متعین نہیں کیا جا سکتا۔ مکمل شعر ہی مہمل ہے۔
شاید پرانے درد کا بندِ قبا کھلے
نصرت ہے آس پاس قیاسی برہنگی
پہلا مصرع بہترین ہے۔
پرانے درد کا بندِ قبا کھلنا = زخم تازہ ہونے سے استعارہ ہے۔
دوسرا مصرعہ مبہم سا ہے۔ لیکن دیگر اشعار کی طرح مہمل نہیں۔
قیاسی برہنگی سے مراد کسی وجود/احساس کا گمان ہے جو وجودی یا لمسیاتی اعتبار سے شاعر کے دل کے قریب قریب ہے۔ اس پر شاعر کو پرانے زخموں کے کھلنے کا اندیشہ ہے۔ مخصوص معنیٰ کا حامل مناسب شعر ہے۔
==============================
ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
سلسلہ غزل برائے تنقید
تاریخ : 17-07-2019
غزل نمبر : 3
شاعر : عبدالجبار طارس
تنقید و تبصرہ : غلام مصطفیٰ دائمؔ
ہم کو جب بھی وہ یاد آتے ہیں
غم زمانے کے بھول جاتے ہیں
محبوب کی یاد غمِ روزگار بھول جانے کا وسیلہ ہے۔ یہ خیال سینکڑوں مرتبہ برتا گیا ہے۔ اور اس سے بہتر بندش میں استعمال ہوا ہے۔
"ہم کو" کی بجائے "ہمیں" افصح ہے۔
یاد رہے کہ متروکات کا استعمال بندش کو سست کر دیتا ہے۔ اسی طرح حشو و زائد جب شعر میں در آئیں، تب بھی شعر ازروئے بندش مضمحل ہو جاتا ہے۔ ان چیزوں سے غزل کو حتی الامکان بچانا چاہیے۔
سلسلہ عشق چل رہا ہے ہاں
لوگ جیتے جی مرتے جاتے ہیں
" سلسلہ عشق" بلا اضافت نہ کہیں مستعمل ہے نہ معنیٰ دیتا ہے۔ بلکہ بغیر اضافت کے یہ ترکیب سرے سے ہی بے معنیٰ ہو گئی ہے۔
پہلے مصرعے کے آخر پہ "ہاں" حشوِ قبیح ہے۔ اور حشوِ قبیح کا شعر میں پایا جانا بڑی کمزوریوں میں سے ایک ہے۔
دوسرے مصرعے میں لفظِ "جی" کی یائے معروف بھی بلاجواز گر رہی ہے۔
جو ازل سے ہیں عشق کے قیدی
نہ ابد تک رہائی پاتے ہیں
مناسب شعر ہے۔ ہزارہا مرتبہ برتا گیا خیال ہے۔
لفظِ "نہ" بطورِ سببِ خفیف باندھا گیا ہے۔ جو کہ سمجھیں عیب ہے۔
دکھ تو لاکھوں ہیں پر ہمیں دکھ ہے
لوگ لوگوں کا دل دُکھاتے ہیں
لفظِ "پر" بہ معنیٰ "لیکن" متروک ہے۔ اس کا استعمال فصیح اردو میں اب نہیں رہا۔ ہاں! فوقیت کا معنیٰ کے لیے تو ضرور فصیح ہے۔ بلکہ اصلاً فوقیت ہی کا معنیٰ دینے کے لیے یہ لفظ وضع کیا گیا۔
شعر میں عامیانہ خیال ہے۔
کسی بھی شعر میں خیال اگر عامیانہ ہو وہ مخصوص تاثر نہیں دیتا۔ پڑھنے والا اس سے لطف نہیں اٹھا سکتا۔ برعکس ایسے شعر کے جو ہو تو عامیانہ مضمون کا حامل، لیکن اس میں نادر تشبیہ نے معجزاتی تاثر پیدا کر دیا ہے یا طرفہ استعارے نے معنیٰ خیزی میں جان ڈال دی ہے… ایسا شعر بالکل تازہ، جان دار اور اثر لیتا بھی، دیتا بھی ہے۔
اس لیے شعر کہتے ہوئے ہر شاعر لفظوں کو نئی نئی استعاروں اور طرفہ تشبیہات سے رنگیب کرتا رہے تاکہ اس کا لطف مزید بڑھ جاتا ہے۔
سب مکاں دیکھتے ہیں انساں کو
کہ یہ کیسے ہمیں بساتے ہیں
لفظِ "کہ" برائے توضیح یک حرفی باندھنا ضروری ہے۔ اساتذہ نے یک حرفی ہی برتا ہے۔
مکانوں کا یہ دیکھنا کہ انسان ہمیں کیسے بساتے ہیں، خلافِ عقل و فطرت ہے۔ یوں ہوتا تو بات بنتی دکھائی دیتی کہ "مکان یہ دیکھتے ہیں کہ کیسے انسان ہمیں اجاڑتا ہے"۔ یوں یہ فطرتاً بھی درست ہوتا اور عقل بھی تسلیم کرتی۔
نیز شعر میں کوئی پرلطف چیز بھی نظر نہیں آتی۔ سراسر عامیانہ بلکہ بچگانہ شعر ہے۔
سچ یہی ہے کہ خاک کے پتلے
خاک کو خاک میں ملاتے ہیں
لفظِ "خاک" کی بے ہنگم تکرار سے کچھ فائدہ نہیں۔
دوسرے مصرعے میں پہلا" خاک" مناسب نہیں۔ نیز پہلے مصرعے میں "سچ یہی ہے" بالکل سپاٹ فکسنگ ہے۔
نیز دوسرا مصرع شروع ہی تنافر سے ہو رہا ہے، اور ظاہر ہے تنافر لفظی عیب ہے۔
سو رہے ہیں جو لوگ غفلت میں
آؤ طارسؔ اِنہیں جگاتے ہیں
بالکل عامیانہ شعر۔ اگرچہ کوئی تکنیکی خرابی نہیں، لیکن شعر متاثر نہیں کر رہا۔ جسے کہتے ہیں نا شعریت، وہ چیز اس شعر سے، بلکہ مکمل غزل سے ابھی دور ہے۔
——
مجموعی گزارشات :
المختصر یہ کہ مکمل غزل سے شاعر کی فنی ناتجربہ کاری جھلک رہی ہے۔ مطالَعہ کا بہت زیادہ فقدان ہے۔
اکثر اشعار کسی تشبیہ و استعارے کے بغیر ہیں۔ اور علمائے بلاغت کا مسلمہ اصول ہے کہ جو شعر تشبیہ و استعارے سے گہنوں سے سجا ہوا ہوگا، کئی گنا بہتر ہوتا ہے اس شعر سے، جو سپاٹ ہو۔
اس لیے شاعر سے مطالعہ بڑھانے، اور زیادہ سے زیادہ مشق کی گزارش کی جاتی ہے۔ تاکہ شاعر کے ہاں فنی پختگی کے ساتھ ساتھ موضوعاتی تنوع بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ برقرار رہے۔ والسلام!
==============================
ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
سلسلہ غزل برائے تنقید
تاریخ : 25-07-2019
غزل نمبر : 4
شاعر ۔۔ جعفر بڑھانوی
گفتگو ۔۔ ریاض شاہد بحرین
لگتا ہے جہاں موت کا بازار دن بدن
مرتا وہیں ہے حق کا پرستار دن بدن
مطلع کا پہلا مصرع ترتیبِ لفظی کی وجہ سے بوجھل ہو رہا ہے روانی کا حسن ناپید ہے۔ ذرا سی تبدیلی مصرع کا رواں کر سکتی ہے۔ جیسے کہ
لگتا جہاں ہے موت کا بازار دن بدن
مطلع کمزور ہے مصرع میں تاکید ہے کہ جہاں موت کا بازار دن بدن لگتا ہے حق کا پرستار وہاں مرتا ہے۔ موت کا بازار کیوں لگتا ہے اور حق کا پرستار کیوں مرتا ہے اس کا ذکر نہیں۔
افسوس میری قوم کا کردار دن بدن
ہو جائے نہ انا میں گرفتار دن بدن
کردار اچھا ہوتا ہے یا برا ہوتا ہے اس کا ذکر نہیں ہے کہ قوم کا کونسا کردار ہے جو انا میں گرفتار ہو جائے گا۔ یہ شعر بھی متاثر نہیں کر سکا
لکھتا رہوں گا قوم کی تمہید کے لئے
اپنے جگر کے خون سے اشعار دن بدن
مثبت خیال میں پرویا ہوا شعر ہے مگر تمہید سے آگے کی بات ہونا چاہئے تھی۔ رہنمائی کی بات ہوتی تو شعر لاجواب ہو جاتا
میری زباں کا قتل کیا جائے گا یہاں
بڑھنے لگی ثقافتی یلغار دن بدن
میری زباں سے مراد شاید اردو زبان ہے۔ اگر ایسا ہے تو میری زباں کی بجائے اردو زباں کا تذکرہ کرکے وسیع معنی لیا جا سکتا ہے۔ اور کون سی ثقافتی یلغار ہے۔ بات پھر یہاں کردار والی آ جاتی ہے ثقافت ایک معاشرے کی رہنمائی کرتی ہے۔ یہاں شاعر کو اس کی تمیز کرنا چاہئے تھی
میں آہنی دیوار بنا قوم کے لئے
آئے ہیں میرے سر کے خریدار دن بدن
ایک اچھا شعر جس میں اپنی قوم کا دکھ اور اس کی محبت میں لبریز جذبات کا اظہار ہے
مغرب کی ہوا حسن کا بازار سجا کر
بچے کرے گی قوم کے بیمار دن بدن
مذکورہ شعر میں مغربی معاشرے کی بد ترین ثقافت کا ذکر کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور شاعر کسی حد تک اس میں کامیاب بھی نظر آ رہاہےقوم کا نوحہ پیش کرنے کی اچھی کوشش ہے۔
جعفر خدا سے کر یہ دعا قوم کے لئے
ہم کو بچانا شر سے مددگار دن بدن
غزل کا مقطع دعائیہ کلمات اور قوم و ملک کی محبت سے مزین ہے گو کہ اس خیال کو بیشتر مرتبہ برتا جا چکا ہے مگر غزل کی ہیئت اور اسلوب ایسے ہی مقطع کا متقاضی تھا
مجموعی طور پراچھی کوشش ہے مگر غزل میں کوئی اچھوتا پن نہیں۔ شاعر جلد بازی کا شکار لگا جبکہ غزل کو بار دگر دیکھ کر کیی طرح کے مضامین شامل کئے جا سکتے تھے۔
شاعر کو بھرپور داد
==============================
ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
سلسلہ غزل برائے تنقید
تاریخ : 25-07-2019
غزل نمبر : 5
شاعر ۔۔ ایڈوکیٹ متین طالبؔ ناندورہ
گفتگو ۔۔ ریاض شاہد بحرین
مجھ کو محسوس ہر اک شخص کا غم ہو آمین
آنکھ میری سبھی کے درد میں نم ہو آمین
ایک دعائیہ مطلع ہے۔ جس میں شاعر دوسروں کا درد محسوس کرنے کی دعا کر رہا ہے۔ اچھا مطلع ہے مگر دوسرا مصرع ذرا سے ردو بدل سے رواں ہو سکتا ہے۔
داستاں جس سے حقیقت کی رقم ہو آمین
اتنا بیباک خدا میرا قلم ہو آمین
بہت خوبصورت حسنِ مطلع ہے۔ اور حسب حال آج کے صحافیوں کی داستاں پیش کرتا شعر ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ شعر ہر سخنور کے لئے کہ سچ کی روشنائی اس ظلمت کدے کو مٹانے کے لئے ضروری ہے
دل پرستش میں انا کی نہ کہیں لگ جائے
نیست و نابود انا کا یہ صنم ہو آمین
پہلے مصرع میں الفاظ کی نشست و برخاست کا مسئلہ نظر آ رہا ہے۔ مصرع اگر یوں ہو جائے
دل انا کی نہ پرستش میں کہیں لگ جائے
تو میرا خیال ہے مصرع بہتر ہو جائے گا۔ عمدہ خیال ہے ایک اچھا شعر ہے
مجھ کو مظلوم کی توفیقِ حمایت ہو عطا
ظلم کو روکنے کا ہاتھ میں دم ہو آمین
سیدھا سادہ مضمون جس میں مظلوم کی حمایت کا جذبہ کارفرما ہے۔
آستانہ ہو ترا اور جھکا سر ہو مرا
کپکپاتاہو بدن دیدۂ نم ہو آمین
انسان عبادت کی حالت میں رب کائنات کے حضور اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے ندامت کے آنسو بہا کر دعا مانگے تو رب کائنات اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ شاعر اس حالت میں رہنے کی دعا کر رہا ہے بہتر شعر ہے
موسم گل میں بھی تنہائی مقدر ٹھہرے
مجھ پہ اس پیڑ کے جیسا نہ ستم ہو آمین
موسم گل خوشی کا استعارہ ہے اس کے ساتھ تنہائی کی بات کچھ سمجھ نہیں آئی۔ یا یوں کہہ لیں کہ مصرع مجھ پر کھل نہیں سکا کیونکہ پیڑ موسم گل میں ہرا بھرا ہوجاتا ہے شاخوں پر پتے آ جاتے ہیں پھر پیڑ کی تنہائی چہ معنی۔
پیاس دریا سے چھپا کر ہی مجھے رکھنا ہے
تشنگی میرے لبوں کی ذرا کم ہو آمین
یہ شعر کھل نہیں سکا شاعر کیا کہنا چاہ رہا ہے۔ دریا سے پیاس کا چھپانا کچھ سمجھ نہیں آیا۔ جبکہ دریا تو فراخدلی کے معنوں میں آتا ہے۔
شربتِ دید کا دیوانہ کھڑا ہے طالب
آ بھی جاؤ کہ ذرا مجھ پہ کرم ہو آمین
شربتِ دید کی ترکیب کم از کم میرے لئے نئی ہے۔ جام دیدتو پڑھا سنا ہے مگر شربتِ دید بصارت سے تا حال نہیں گزرا۔ یہ مصرع بھی پوری طرح نہیں کھل سکا کہ شاعر کیا کہنا چاہتا ہے جبکہ طالب جو کہ تخلص بھی ہے اس کے استعمال سے مصرع بہت جاندار و شاندار نکل سکتا ہے
مجموعی طور ایک اچھی غزل ہے۔ شاعر مزید محنت کر کے اس غزل کو ایک بہترین غزل کر سکتا ہے۔ تمام غزل دعائیہ اشعار سے مزین ہے اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ آمین۔
==============================
ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
سلسلہ غزل برائے تنقید
تاریخ : 17-07-2019
غزل نمبر : 6
شاعر ۔۔ کلیم اطہر
گفتگو ۔۔ شمس الحق شمس
میں روز اخبار پڑھ کے اتنا دہل رہا ہوں
کہ اب تو اپنے ہی گھر سے کم کم نکل رہا ہوں
شاعر اس شعر میں کہنا چاہتا ہے کہ روزانہ اخبار میں حادثات زمانہ کی خبریں پڑھ پڑھ کے ایک خوف کا عالم طاری ہے جسکی وجہ سے اب گھر سے بھی کم ہی نکلتا ہوں کہ کہیں کسی حادثے کا شکار نہ ہو جاؤں
لیکن یہاں بیان مکمل نہیں ابلاغ دور تک نہیں لفظ اتنا بھرتی کا لفظ ہے اس لیے یہ مقدار کے لیے ہے یعنی اگلے مصرع میں مقدار ہوتی کہ کتنا ڈر رہے ہیں اور اور اس دہلنے کی وجہ کیا ہے ؟
بہت ہی کمزور مطلع ہوا ہے
پہلے مصرع میں کچھ ایسا ہوتا کہ حادثات زمانہ سے دہل رہا ہوں ثانی میں ہوتا کہ اسی وجہ میں گھر سے کم نکل رہا ہوں تو بات بن جاتی
تُو میری باتوں پہ کان مت دھر، کہ میں جنوں میں
نہ جانے کب سے دہن سے کیا کیا اُگل رہا ہوں
یہاں معنوی خرابیاں ہیں اولا تو یہ شعر بے معنی ہے کیونکہ جب بات سنانی ہی نہیں ہے تو پھر بات کرنے کا کیا فائدہ پہلا مصرع بدل لیں تو بات بن جائے گی مثلا
شعور کی بات لا شعوری میں بول بیٹھا
مجھے پتہ ہے تُو چھت سے نیچے اتر گئی ہے
مگر میں پھر بھی تری گلی میں ٹہل رہا ہوں
شاعر محبوبہ کی زیارت کے لئے کوچہ جاناں میں چکر کاٹ رہا ہے تھوڑی سی زیارت ہوئی جب وہ چھت پہ آیا لیکن وہ وہاں سے چلا گیا لیکن شاعر ابھی بھی گلی میں چکر کاٹ رہا ہے یہ جانتے ہوئے کہ وہ چھت پر نہیں ہے لیکن امید ہے کہ وہ پھر کسی بہانے چھت پہ آ جائے
کوئی نیا خیال نہیں کوئی لفظ کی ترتیب میں خاص روانی نہیں رگیدہ ہوا ہے
تری جفاؤں کی آگ ایسی لگی ہوئی ہے
میں موم کی طرح نیچے نیچے پگھل رہا ہوں
اچھا ہے دوسرا مصرع بحر سے خارج لگ رہا ہے نیز تھوڑا الفاظ کی بندش بھی آگے پیچھے کر لیں
مجھے بھلانے کو میرے خط وہ جلا رہا ہے
میں جس کے مژگاں پہ اشک بن کر مچل رہا ہوں
اچھا شعر ہے پہلا مصرع تبدیلی کا خواہاں دوسرے مصرع میں مژگاں کو پلکوں سے بدلیں تاکہ الفاظ کی سادگی برقرار رہے اور پہلا مصرع اس طرح کرکے دیکھیں
ہزار کوشش میں ہے کہ مجھ کو وہ بھول جائے
پھر اس کی یادوں نے کل اے اطہر بکھیر ڈالا
مجھے لگا تھا میں دھیرے دھیرے سنبھل رہا ہوں
مقطع میں تخلص کا استعمال درست نہیں ہے الفاظ بھرتی کے ہیں
کچھ ایسے
بکھیر ڈالا کلیم کو تیری یاد نے جب
اسے لگا تھا میں الخ
اطہر کلیم
==============================
ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
سلسلہ غزل برائے تنقید
تاریخ : 26-07-2019
غزل نمبر : 7
شاعر : امین اوڈیرائی پاکستان
گفتگو : شفاعت فہیم ،انڈیا
گام دو گام سے بھی آگے تھا
نشہ تو جام سے بھی آگے تھا
تھے مقیّد مکیں مکانوں میں
گھر در و بام سے بھی آگے تھا
ہجر میں لمحہء وصال کا دکھ
فکرِ ایام سے بھي آگے تھا
طنز کے تیر تھےچھپے اس میں
لہجہ دشنام سے بھی آگے تھا
کوفہء صبح کے ستائے ہوئے
اور سفر شام سے بھی آگے تھا
آ گیا ذات پر جو میری امین!
حرف الزام سے بھی آگے تھا
امین اوڈیرائی
تبصرہ بر غزل امین اوڈیرائی صاحب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل کا مطلعہ ہے ۔۔۔
گام دو گام سے بھی آگے تھا
نشہ تو جام سے بھی آگے تھا
دوسرا مصرع خوب کہا ہے ۔لیکن پہلا مصرع سمجض دے بالا تر ہے ۔۔گام دو گام سے بھی آگے تھا ۔ ایک تو گام دع گام کہنے کی۔کیا ضرورت تھی علاوہ اسکے کہ یہ قافیہ ہے ۔ پھر گام دو گام سے بھی ، یہاں گام دوگام۔کے بعد بھی کی۔کیا ضرورت پیش آئی ۔۔حسم۔دع گام آگے تھا میں ہی۔بات تو پوری ہوگئی ۔یہ سے بھی بھرتی کے الفاظ ہیں ۔
تھے مقید مکیں مکانوں میں
گھر درو بام سے بھی آگے تھا پہلا مصرع بھر پور ہے لیکن گھر درو بام سے بھی آگے تھا سے کیا مراد ہے ۔ کچھ نہیں کھل پارہا کہ دونونوں مصرعوں میں کیا ربط ہے
ھجر میں لمحئہ وصال کا دکھ
فکر ایام سےبھی آگے تھا
ہجر میں لمحئہ۔وصال۔کی یاد آئیگی یا دکھ ہوگا یہ۔محل۔نظر ہے ۔آگے فرماتے ہیں فکر ایام۔سے نھی آگے تھا ۔۔یہاں ایام بمعنی زندگی کے استعمال۔کیا ہے جو قافیہ۔کی مجبوری ہے لیکن پھر بھی معنی دے رہا ہے ۔ مگر لمحئہ وصال۔کا دکھ پریشان کررہا ہے چونکہ مصرع لفظ یاد چاہتا ہے لیکن یاد مونث ہے اور ردیف۔ تھا ۔ مذکر ۔غالباً اس پابندی نے یاد کی جگہ دکھ کروا دیا ۔
طنز کے تیر تھے چھپے اس میں
لہجہ دشنام۔سے بھی آگے تھا
عمدہ شعر ہے اور سنوار کر کیا گیا ہے گیا ہے خوب ہے
کوفئہ صبح کے ستائے ہوے
اّور سفر شام سے بھی آگے تھا، صبح اور شام کے ساتھ کوفہ اور شام۔کی تلمیح استرمال۔کرکے ایک حسن پیدا کیا ہے اور عمدہ کاوش ہے لیکن شعر میں۔فاعل غائب ہونے کے سبب کمزور ہوگیا ،اس میںہوے کی جگہ اگر ہم بھی ہوتا تو شعر عمدہ اور بھر ہور ہوجاتا
آگیا ذات پر جو میری امین
حرف ،الزام سے بھی آگے تھا
حرف آنا معنی بد نامی ہونا ،عیب لگنا ،الزام لگنا ۔۔۔تو یہ ،الزام سے بھی آگے تھا ۔چہ معنی دارد ۔ یہ عیب یہ الزام یہ بدنامی الزام سے بھی آگے تھا سے کیا مطلب ہوا نہیں سمجھ میں آتا
امین صاحب ای استاد شاعر ہیں غالباً یہ۔غزل۔کہتے وقت انہوں غور و خوص نہیں کیا اور فکر سے کام نہیں لیا
==============================
ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
سلسلہ غزل برائے تنقید
تاریخ : 22-07-2019
غزل نمبر : 10
برائے تنقید
شاعر مصطفی دلکش
گفتگو ۔ شمس الحق شمس
حسیں یادوں کی اے جاناں نشانی چھوڑ جاؤں گا
میں ہر اک موڑ پر اپنی کہانی چھوڑ جاؤں گا
مطلع بلکل عامیانہ ہے مضبوط ربط نہ بن سکا جس سے شعریت مفقود ہے پہلا مصرع دیکھیں حسیں یادوں کی اے جاناں نشانی چھوڑ جاؤں گا اب اگر دوسرے مصرع میں اس نشانی کا بیان ہوتا جو واقعی قاری کو اپنی جانب کھینچ لے تو مطلع زمین سے نکل کر آسمان پہ آ جاتا اور عوامی اور برتے ہوئے مضمون میں ایک جدت ہوتی
مری یادوں کی خوشبو چار سو پھیلے گی آنگن میں
میں جاتے جاتے چمپا رات رانی چھوڑ جاؤں گا
یہاں بھی شاعر نے جلد بازی دکھائی تھوڑا توجہ کرتے تو شعر نکھر جاتا
جیسے
پہلے مصرع میں لفظ آنگن کی جگہ گلشن لائیں اور دوسرے مصرعے میں چمپا کی جگہ بوئے لائیں تو شعر میں کافی حد تک توسیع ہو جائے گی
حفاظت کرتے رہنا تم نشانی ہے بزرگوں کی
میاں سن لو کئی یادیں پرانی چھوڑ جاؤں گا
یہ شعر بالکل فارغ ہے کیونکہ یہاں ربط ڈھونڈنا آسان نہیں اور عام قاری سے تو کوسوں دور اور آدھے معنی شاعر کے ہی اندر رہ گئے یعنی بیانیہ کمزور ہے تھوڑا توجہ سے بات بنائی جا سکتی ہے اسکو اگر یوں کر لیا جائے
بزرگوں کے تحفظ میں لہو تک وقف ہے میرا
میں اپنی یہ وراثت خاندانی چھوڑ جاؤں گا
ستالے آج جی بھر کے مگر یہ بات بھی سن لے
اے جان جاں تری آنکھوں میں پانی چھوڑ جاؤں گا
بالکل عامیانہ الفاظ کی نشست برخواست کے بعد کچھ اس طرح سے ہو بطور مثال
ستم سے قبل سوچا کر کی تحلیل ہوں تجھ میں
کہ بدلے اشک میں خوں مثل پانی چھوڑ جاؤں گا
ہجومِ رنگ بو نغمہ محبت کا ترے حصے
محبت کی بہار جا ودانی چھوڑ جاؤں گا
دوسرا مصرع بحر سے خارج لگ رہا ہے پہلے کی سمجھ نہیں آئی
تجھے تنہائی میں مجبور کر دونگا ترنم پر
مری جاں سن وہ ساز لن ترانی چھوڑ جاؤں گا
یہاں بھی دوسرا مصرع بحر میں نہیں لگ رہا ہے مجھے تو بظاہر مصرع میں کوئی ربط نہیں لگ رہا ہے
نہ اترا اتنا اے جاناں حسیں چہرے پہ تو ورنہ
میں دلکش ہوں حسیں تیری جوانی چھوڑ جاؤں گا
اگر تخلص استعمال تھوڑا آگے پیچھے ہوتا تو شعر میں جان آ جاتی جیسے
نہ نازاں ہو حسیں چہرے پہ اے جاناں یونہی بے جا
نہیں تو میں تری دلکش جوانی چھوڑ جاؤں گا
بصد معذرت میں کوئی ناقد نہیں ہوں بس سیکھنے کی غرض سے عرض کر دیا میری کوئی بھی بات تسلیم کرنا ضروری نہیں ہے اساتذہ موجود ہیں یہاں وہ بہتر راہنمائی کریں گے ان شاءاللہ
مصطفیٰ دلکش ممبئی مہاراشٹر الہند مہاراشٹر
==============================
ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
سلسلہ غزل برائے تنقید
تاریخ : 26-07-2019
غزل نمبر : 12
شاعر : ڈاکٹر سراج گلاؤٹھوی انڈیا
گفتگو : ریاض شاہد بحرین
پہلا مطلع
میں آنکھوں میں غریبوں کے بھی سپنے دیکھ لیتا ہوں
تمنّاؤں کا گھر بچّوں کے بستے دیکھ لیتا ہوں
غریبوں کی آنکھوں میں بسنے والے سپنوں کو دیکھ لینا اورپھر انہی غریب بچوں کے بستوں میں خواہشات زیست کی کمی کا اندازہ کر لینا واقعی شاعر کی نگاہ عمیق کا کمال ہے۔
دوسرا مطلع :
جو مزدوری کسی بوڑھے کو کرتے دیکھ لیتا ہوں
تو اپنی قوم کی غیرت کو مرتے دیکھ لیتا ہوں
شاعر کے اس خیال سے کسی حد تک متفق ہوا جا سکتا ہے مگر مکمل نہیں۔ پھر بھی شاعر نے اپنے مشرقی معاشرے کی بے حسی کی جانب جو اشارہ کیا ہے کسی حد تک اس پر داد دی جا سکتی ہے۔
تیسرا مطلع:
کبھی غربت زدہ لوگوں کو ہنسے دیکھ لیتا ہوں
تو جھوم اٹھتا ہے دل منظر جو ایسے دیکھ لیتا ہوں
اس مطلع میں شاعر غریبوں کی خوشی کو دیکھ خود جھوم اٹھنے کے منظر کو دلفریب بنا کر پیش کرتے ہوئے ان کی خوشی میں عملاٗ تو نہیں اخلاقاٗ شامل ہو رہے ہیں مناسب سا شعر کہہ سکتے ہیں
چوتھا مطلع :
تمہارے دل میں الفت کے ستارے دیکھ لیتا ہوں
اندھیرے میں محبّت کے اجالے دیکھ لیتا ہوں
یہ شعر غزل کا شعر ہے۔ پہلے مصرع میں اگر دل میں الفت کے ستارے کی بجائے تری آنکھوں میں الفت کے ستارے کا ذکر کرتے تو شعر کا مزہ دوبلا ہو جاتا۔ دل میں الفت کا احساس تو محسوس کیا جا سکتا ہے ستارہ صرف آنکھوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔
پانچواں مطلع :
ستمگر کو کبھی جو ظلم ڈھاتے دیکھ لیتا ہوں
امیرِ شہر کو بھی مسکراتے دیکھ لیتا ہوں
ستمگر کا امیر شہر سے کیا تعلق ہے ؟؟ یا تو امیر شہر ستمگر ہو یا اس کے ایماء پر ظلم ہو رہا ہو تو پھر کوئی بات بنتی ہے۔ مگرشعر میں ستمگر کے ظلم کی تال میل امیر شہر سے جڑتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔
چھٹا مطلع :
بلکتے اور سسکتے بھوکے بچّے دیکھ لیتا ہوں
امیروں کے پڑوسی کو تڑپتے دیکھ لیتا ہوں
بلکتے اور سسکتے بھوکے بچوں کا امیروں کے پڑوسی کے تڑپنے سے کیا تعلق ؟؟ شعر مبہم ہے
ساتواں مطلع :
سمندر پی رہا ہے کتنے دریا دیکھ لیتا ہوں
ہیں پھر بھی ہونٹوں اس کے کتنے سوکھے دیکھ لیتا ہوں
شعر کا دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے۔ مگر شاعر جو اس شعر میں کہنا چاہ رہا ہے اس میں کامیاب ٹھہرا کہ کتنے دریا سمندر میں غرق ہو رہے ہیں مگر پھر بھی تشنہ لب رہ جاتے ہیں۔
آٹھواں مطلع :
گھٹا کی گود میں جب چاند جاتے دیکھ لیتا ہوں
میں صحرا میں بھی گلشن کے نظارے دیکھ لیتا ہوں
جب چاند گھٹا کی گود میں چلا گیا تو صحرا میں حد نگاہ ظلمت کا دور دورہ ہو گا ایسے میں گلشن کا نظارہ کیاے کیا جا سکتا ہے۔ یہ مطلع کھل نہیں سکا
نواں مطلع / مقطع :
سراج اس مرمریں پیکر کو چھو کر دیکھ لیتا ہوں
پگھلتا ہے بدن سانسوں سے کیسے دیکھ لیتا ہوں
بہت عمدہ شعر جتنی تعریف کیجائے کم ہے۔ غزل کا بہترین شعر جس میں محبت کی اوج ہے اور دو چاہنے والوں کی سانسوں سے اجسامِ حساسیہ عشق و مستی میں جذب ہو جانے کے لئے بے قرار ہو جاتے ہیں انہی لمحات کو دو مصرعوں میں عمدہ پرویا۔ بہت خوب۔
9 شعروں کی غزل میں 9 زبردستی کے مطلعے۔
تجرباتی غزل کہیں یا مشق سخن۔ مگر ایک اچھی غزل نہیں کہی جا سکی۔ اشعار پڑھ کر ایسا لگا کہ زبردستی کے اشعار لکھے گئے ہیں۔ یعنی آمد نہیں آورد ہے۔ تجربہ/مشق اچھی بات ہے مگر غزل کو بار بار پڑھکر اشعار کو بہتر سے بہتر کر کے پیش کرنا چاہئے۔
یہ ایک مشقی غزل ہے۔ شاعر کو اس کے تجربے پر مبارک باد ہو
==============================
ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
سلسلہ غزل برائے تنقید
تاریخ : 26-07-2019
غزل نمبر : 13
شاعر :۔ سرفراز بزمی
گفتگو :۔ غلام مصطفیٰ دائمؔ
عبور کر وادئ تذبذب فراز کی رہگزر سے پہلے
متاع عزم و یقیں ہے واجب ، سفر میں رخت سفر سے پہلے
مطلع غزل کے لیے فکری فضا قائم کرتا ہے۔ اس کا کلیدی تفاعل توسیعی آہنگ کا حامل ہونا چاہیے۔ تاکہ قاری اور بالخصوص ناقد اولاً ہی تخلیق کار کی استعدادِ تخلیق و تصنیع کی تعیین میں مناسب رویہ اپنا سکے۔ کیوں کہ ہر تخلیقی معاشرے کا ایک Horizon of expectation یعنی توقعات کا افق ہوتا ہے جس کی روشنی میں وہ معاشرہ کسی فن پارے کی تعیینِ قدر کرتا ہے۔
معزز شاعر سرفراز بزمی صاحب نے مطلع کے لیے جس افق سے اپنے سفر کا آغاز کیا ہے، مایوس کن بات یہ ہے کہ یہ افق بہت سوں کے لیے میانِ راہ ہے۔
بہرحال! جب غزل کی فضا متعین ہو گئی تو اسی سطح پہ اس کا ناقدانہ جائزہ لینا چاہیے۔ تاکہ اسے اس کی رسومیات Convention کے تحت پڑھا اور پرکھا جائے۔ سو آغاز کرتا ہوں۔
وادئ تذبذب عبور کر کے فراز کی رہگذار پہ چلنے کی ترغیب ہے۔ دوسرا مصرع پہلے مصرعے کی توسیع و تبیین ہے۔ لفظی رعایات کا خصوص اہتمام کیا گیا ہے :
وادئ تذبذب کی مناسبت سے عزم و یقین
رہگذر کی مناسبت سے رختِ سفر
عبور کر [حکمیہ] کی مناسبت سے واجب
شعر میں لفظی ارتقاء معنوی ارتقاء کے لیے وسیلہ بن رہا ہے۔ معنیٰ کی کشید میں زیادہ دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا۔ بلکہ لفظی علائم ازخود اپنی سادہ بیانی کی دلیل ہیں اور اسے کے مطابق معنیٰ برآمد کیا گیا ہے۔
بنیادی طور پر شعر میں فلسفۂ عروج کو علت و معلول اور تدریجی ارتقاء کے مراحل کا حسنِ بیان ہے۔
اظہاریہ بھی قابلِ قبول ہے۔
یہ ماہ و انجم ، ثری ثریا ، چمن بیاباں ، خزاں بہاراں
ہیں سب حقیقت میں بے حقیقت، حقیقتِ منتظر سے پہلے
فلسفۂ حقیقت الاشیاء کا بیان۔ دوسرا مصرع بہ ظاہر لطیف تکرار کے سبب خوب صورت لگ رہا ہے۔ لیکن شعر میں 08 ایسے پہلو ہیں جو شعر کو کمزور کرنے میں اپنا پورا زور لگا رہے ہیں :
⛧ ثری ثریا کی غیر مستعمل ترکیب
⛧ چمن بیاباں کی عطفی ترکیب، لیکن اداتِ عطف کی عدمِ موجودگی۔
⛧ خزاں بہاں۔ اس کا محل نہ تھا۔ کیوں کہ اس سے ماقبل ترکیب میں بھی یہی دو عناصر اپنی دوسری شکل میں مذکور ہیں۔
⛧ دوسرے مصرعے کا آغاز لفظِ "ہیں" سے۔
⛧ پہلے۔ یعنی یہ تمام چیزیں حقیقتِ منتظر کے بعد بے حقیقت نہ رہیں گی۔
⛧ پہلے مصرعے کے آغاز میں لفظِ "یہ" حشو ہے۔
⛧ تمام عالم کو فنا ہے۔ لیکن یہاں صرف آسمانی علائم کا مختصر ذکر اور زمینی علائم کا عدمِ ذکر تشنگی کو بڑھا رہا ہے۔ جبکہ خزاں بہاراں اضافی چیزیں ڈال دیں۔
⛧ لفظِ "سب" کہہ کر منطقی قاعدہ "العالم حادث" کی تشریح تو کر دی لیکن پہلے مصرعے میں اس کی تردید بھی ضمناً موجود ہے۔ ہاں! جزو بول کر کُل مراد لیا جائے اور اور بات ہے۔
کہاں تھے یہ راہ و رسم منزل ،کہاں تھے دار و رسن سلاسل
تھا کون مقتل میں سر کشیدہ ، تمہارے شوریدہ سر سے پہلے
متن سے بہ ظاہر یہ برآمد ہو رہا ہے کہ :
شاعر محبوب کے وابستگان اور معاملاتِ عشق و عاشقی کے انجامِ کار سے متعلق جزوی تفصیلات حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔ سر کشیدہ کی ترکیب نامناسب ہے۔ کیوں کہ کشیدہ بمعنیٰ کھینچا ہوا/کھینچی ہوئی/سونتی ہوئی/ وغیرہ ہے۔ لیکن یہاں کشیدہ کو کشتہ کے معنیٰ میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہاں! سر کشیدہ بمعنیٰ مغرور و مفتخر ہو تو ترکیب درست قرار پائے گی۔ لیکن مقتل کا تلازمہ ٹوٹ جائے گا اور معنیٰ کہیں کا کہیں رہ جائے گا۔
"کہاں تھے دار و رسن سلاسل" نہایت نامناسب ٹکڑا۔ اس ترکیب میں "سلاسل" کی کیا ترکیب ہے؟ معلوم نہیں۔ شعر نہایت کمزور ہے۔
کھنک رہی ہے ابھی تو پایل ، برس رہے ہیں ابھی تو بادل
یہ کیا ؟ کہ بہنے لگا ہےکاجل ہجومِ برق و شرر سے پہلے
شعر میں متفرق معنوی احتمالات کی کثرت ہے کہ حتمی معنیٰ متعین کرنے میں قدرے دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ شعر میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔ اس لیے اس پہ گفتگو کرکے غیر مساوی راہوں کی طرف چلنا کارِ عبث ہے۔ دیگر سینیئرز اس پہ گفتگو کریں تو کچھ کھلے۔
ملا جو موقع تو ہم صفیرو ! میں اپنی روداد یوں کہوں گا
کہ رو پڑے گی فضائے محمل حضور میں چشم تر سے پہلے
پہلا مصرع واضح ہے۔ دوسرے میں فضائے محمل اور حضور کا محل سمجھ سے بالاتر ہے۔
فضائے محمل سے محبوب کا آشیانہ مراد ہو سکتا ہے۔ لیکن قرینہ نہایت کمزور ہے کہ یہ بھی مراد لیں تو شعر تب بھی لفظِ "حضور" پہ اٹک جاتا ہے۔