احمد جاوید : ایک برس گزر گیا …
چھپن برس کی عمر میں پریم چند گزر گئے .بیالیس برس کی عمر میں منٹو چلا گیا …ادیب نہیں مرتے ..بڑا ادیب اپنے افکار و خیالات کی روشنی میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے ..ایسا ہی ایک افسانہ نگار تھا ..احمد جاوید …
ایک برس قبل اردو افسانے کی ایک بڑی آواز خاموش ہو گئی۔ احمد جاوید چلے گئے –فکشن کی ایک مضبوط کڑی ٹوٹ گئی۔ انیس سو ستر کے عشرے میں جدیدیت کے خیمے سے جو معتبر آوازیں گونجیں، ان میں ایک بہت اہم نام احمد جاوید کا تھا۔ آہستہ آہستہ اپنے دلچسپ اسلوب، فکری روش، ایک عجیب سا تیکھا پن، سدھے ہوئے خوبصورت جملوں اور اس کے ساتھ ان کے مخصوص بیانیہ نے میرے جیسے قاری کا دل جیت لیا۔ .کچھ اور چاہیے وسعت میرے بیاں کے لئے، کے مصداق ایک چھوٹی سی کہانی کو بھی علامتوں، استعاروں کی مدد سے آفاقی بنانے کا جو ہنر ان کے پاس تھا، وہ کم لوگوں کے پاس تھا۔ اس لئے جدید شہسواروں کی بھیڑ میں بھی احمد جاوید کے یہاں کہانی پن اور فکر کی تازگی موجود تھی۔ ان کے بیانیہ میں کوئی الجھاؤ نہ تھا۔ علامتیں اور استعارے قاری کے ساتھ ساتھ رقص کرتے ہوئے اپنے سارے بھید کھول دیا کرتے تھے۔ میں نے احمد جاوید کو سب سے پہلے ان کے افسانوی مجموعہ چڑیا گھر کے حوالے سے جانا۔ احمد جاوید نے چڑیا گھر میں چوہے، بھیڑ بکری، بھیڑیے، کوے، کبوتر، کتے، کیڑے مکوڑے، سانپ، چڑیا، جنگل، جانور، آدمی کی پوری فوج اکٹھا کر لی تھی۔ یہ سب ان کی کہانیوں کے عنوان تھے۔ یعنی چڑیا گھر حقیقت میں ایک ایسا چڑیا گھر تھا، جہاں جانور اور انسان کا بھید مٹ گیا تھا۔ احمد جاوید اس منظر، پس منظر کے شاہد تھے۔ بقول احمد جاوید، انیس سو ستر کے عشرے میں سیاسی ماحول میں خاصی ہلچل پیدا ہوئی، جس نے مختلف اذہان کو متاثر کیا۔ سقوط بنگلہ دیش کے المیہ نے تشویش کی لہر پیدا کی۔ اس کی عکاسی ادب میں جا بجا دکھائی دیتی ہے۔
پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد شہر کو تمثیل بنا کر احمد جاوید نے ایک گمشدہ شہر کی داستان اسی کے اثرات سے متاثر ہو کر لکھی۔ ایک شہر تمثیل بنا اور یہ تمثیل آخر آخر تک ان کی کہانیوں کا حصّہ رہا۔ ایک غیر علامتی کہانی اور چڑیا گھر اسی تمثیل کے شہر سے جلوہ گر یا برآمد ہوئے۔ .انیس سو سستر میں جب پاکستان میں مارشل لا نافذ ہوا، تو احمد جاوید کے اندر کے انسان نے ایک بار پھر انگڑائی لی۔ .اس ماحول میں زندہ رہنا مشکل تھا۔ مجھے یاد ہے، نعیم آروی نے ایک کہانی لکھی تھی، ہجرتوں کی مسافت۔ .یہ کہانی ضیا الحق کے دور حکومت کو بنیاد بنا کر لکھی گئی۔ لیکن یہاں بھی آمریت، ظلم و جبر کی داستان اپنی سفاکیت کے ساتھ موجود تھی۔ سقوط بنگلہ دیش کو لے کر رضیہ فصیح احمد نے صدیوں کی زنجیر جیسا شاہکار ناول اردو ادب کو دیا۔ تمثیل کے شہر سے پرندوں، جانوروں، حشرات الارض کو فنکارانہ چابک دستی سے، جنگل کی ویرانی کی جگہ داستانوں میں رقص کرانے کا جو سلیقہ یا قرینہ احمد جاوید کے یہاں تھا، وہ اتنا منفرد تھا کہ وہ صرف انہی کا حصّہ تھا۔ جانوروں اور پرندوں کی دنیا کو گویا وہ اپنے چاروں طرف آباد کر لیتے تھے۔ پھر ایک انوکھا داستان گو سامنے ہوتا جس کا سارا زور اس بات پر ہوتا کہ روایت سے الگ اور جدیدیت کو اپنانے کے با وجود قصّے، داستانوں کی ایک نیی دنیا آباد کی جائے – کہانی سے کھیلنا انھیں آتا تھا۔ ۔ کہانی چوہا سے یہ اقتباس دیکھئے۔…
میز سے سیکھنے والے چوہے کی لاش اٹھا کر کوڑا کرکٹ کے ڈرم میں پھینکتے ہوئے معلوم نہیں کیوں، سائنسدان کو پہلی بار تاسف ہوا
اور اس نے خیال کیا کہ سیکھنے والے چوہے جو کچھ سیکھتے ہیں، اپنے اوپر تجربہ کرنے کے خیال سے سیکھتے ہیں۔ اپنے لئے کچھ بھی نہیں۔
چوہے کو نہیں معلوم تھا کہ اس کے ساتھ ایسا بھی ہو گا۔ اگر ہوتا تو وہ آہستہ آہستہ سیکھتا۔ اور کبھی اپنے علم کو مکمّل نہ ہونے دیتا۔ ہلاکت ہر چوہے کا مقدر ہے۔ کیا بعید، کوئی ایسا سائنسدان اے، جو چوہوں کو آدمی بننا سکھا دے۔ ..
ایک طرف سائنسدان دوسری طرف ایک سیکھنے والے چوہے کی، تجربہ گاہ میں موت–اس نا پرساں عہد میں ہماری حالت اس چوہے سے بدتر ہو چکی ہے، جہاں سیاسی لیبارٹری میں مسلسل انسانی جسم کا پوسٹ مورٹم ہو رہا ہے۔ ہم سیکھنے کے ہر عمل سے گزرنے کے با وجود سیاست کے لئے وہی کیڑے مکوڑے اور چوہے ہیں، جنہیں روز ہی صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ احمد جاوید جیسے صاحب قلم کا کمال کہ آئینہ ادراک سے پردۂ افلاک میں ہونے والے حادثوں کے عکس کو بھی محسوس کر لیا کرتے تھے۔ .اور ساتھ ہی تمثیل کا شہر بھی آباد کر لیا کرتے تھے۔ .
جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے۔
٭٭٭
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“