::: احمد داود کی افسانوں کی کتاب " مفتوح ہوائیں" پر ایک مضمون اور ان کی کچھ یادین"
یہ مضمون غالبا 1978 یا 1979 میں لکھا گیا تھا۔ جس زمانے میں ہمارے مشترکہ دوست انور خالد مرحوم رواپنڈی کے ایک کالج میں انگریزی پڑھایا کرتے تھے۔ ان کے ہاتھ احمد دواد نے اپنا پہلا افسانوں کا مجموعہ " مفتوح ھوائیں" بجھوایا تھا۔ ۔ اس میں میرے نام ایک چھوٹا سا خط بھی تھا جس پر لکھا تھا ۔۔" یار میری اس کتاب پر لکھ کر تم مجھے اردو کے افسانوی دنیا میں ذ لیل و رسوا کرسکتے ہو۔ مگر پوری سچائی سے جوتے برسانا۔۔۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ " ۔۔۔ احمد داود ایک کھلا ڈلا انسان تھا۔ کسی سے بھید بھاو نہیں رکھتا تھا۔ ایک دن جزل ضیا الحق کے دست راز برگیڈئیر صدیق سالک کو راولپنڈی کی سڑک پر پان خرید کر جب کھاے ہوئے دیکھا تو احمد داود نے ان کے پاس آکر کہا " برگیڈئیر صاحب آج تو آپ سے بہت خوشبو آرہی ہے " ۔ وہ دوستوں کا دوست تھا۔ جس کو پسند نہیں کرتا تھا ان کو صاف کہ دیتا تھ۔ا یارمجھ سے بات نہ کیا کرو۔"۔ احمد داود کے صرف دو افسانوی مجموعے " مفتوح ہوائیں" اور " دشمن دار آدمی " شائع ہوئے۔ ہنوستان ان کی ایک مختصر ناول " بستی" کے نام سے چھپی تھی ۔ جو زیادہ مشہور نہیں ہوئی ۔ { انتظار حسین کی ایک ناول کا نام بھی " بستی" ہے } ۔ میرا " مفتوح ہوائیں" پر زیر نظر مضمون لاہور کے ادبی جریدے " ادب لطیف"، لاھور { مدیرہ: صدیقہ بیگم} کی جنوری 1991 کی اشاعت میں شامل تھا۔ احمد داود کا 12، دسمبر 1994 میں 42 سال کی عمر میں اچانک انتقال ہوگیا۔
احمد داود کے والد صاحب گوندل گاوں ، حضرو کا دلزاک کے پختوں تھے جو موہن پورہ راولپنڈی میں آکر بس گئے تھے۔ یہ محلہ تقسیم ہند سے قبل بقول احمد داود " چھوٹا خالصستاں" تھا۔ کیونکہ اس محلے میں زیادہ تر گھروں میں سکھ آباد تھے۔ – گوندل کا گاوں اس وجہ سے بھی معروف ہے کہ یہاں بٹیر بازوں نے بٹیروں کی لڑائی کیلئے خصوصی ہال بنا رکھا تھا جہاں دور دراز سے بٹیر باز آتے اور بازیاں لگتی تھی۔
مارشل لا کے زمانے میں ان کے باس خالد سعید بٹ کو نوکری سے سے برخاست کردیا گیا تو احمد داود نے آرٹس کونسل کا ملازم ہوتے ہوئے بھی اپنے افسانوں کا مجموعہ خالد سعید بٹ کے نام معنون کیا – بعد میں جب خالد سعید بٹ بحال ہوئے تو ایسا بھی ہوا ہے کہ انھوں نے احمد داود کی غیر حاضریاں لگا کر اسے تیس دن کی بجائے صرف تیرہ دن کی تنخواہ دی ہے – اسی طرح ہر مہینے اس کی تنخواہ کٹوتی کی نذر ہو جاتی تھی اور احمد داود تنخواہ کی کٹوتی کو ریڈیو سکرپٹ لکھ کر پوری کرلیتا تھا
جب بھی کوئی ادیب یا دانشوراسلام آباد یا پنڈی آتا احمد داود ان سے ملاقات کرنے ضرور جاتے تھے۔ – ہندوستان جگن ناتھ آزاد ، جوگندر پال کی بیگم ، اور دیگر کئی مہمانوں کو اپنی ہنڈا 70 سی موٹر سائیکل پر ہی پنڈی کی سیر کرواتا تھا۔ ایک دفعہ مجھے بھی موصوف اسلام آباد کی سیر کرواہے تھے۔ یکایک انھوں نے اپنی موٹر بائیک روک دی اور کیا "یار پیچھے کے پہیے میں ہوا کم ہے تو اسکوٹر چلا، "میں نے کہا میں چلا تو لوں گا۔ مگر میرے پاس تو اسکوٹر چلانے کا لائسنس نہیں ہے" تو گویا ہوئے "فکر نہ کر سہیل ۔۔۔ پورے اسلام آباد پنڈی کی پولیس میری یار بیلی ہے۔"
داود بنیادی طور پر ترقی پسند اور " ریڈیکل " قسم کے انساں تھے اور خاصے جذباتی بھی تھے۔ ان کی پاکستان بھر میں بائیں بازو اور سوشلسٹ اور نفی دانش کے رجحان و مزاج رکھنے والے لوگوں سے ان کی دوستی یاری رہا کرتی تھی ۔ میں ان کو " افسانے کا انقلابی" کہا کرتا تھا۔ ان کا زہن ہمیشہ متوسط اور غریب لوگوں کی فلاح کے لیے سوچتا رہتا تھا۔ وہ استحصال سے پاک معاشرے کے متمنی تھے۔ وہ مارشل لا اور فوجی آمریت کے سخت مخالف تھے۔ ان کیا ایک افسانے " پرندے کا گوشت اور وسکی" میں ضیا الحق پر اپنی کڑی تنقید درج کروائی ہے۔ وہ میجر اسحاق کی سیاسی جماعت " مزدور کسان پارٹی کے سر گرم رکن بھی تھے۔ بہت نرم دل انساں تھا۔ مجھے راولپنڈی کے ایک ریسٹورنٹ کی " بھنڈی" بہت پسند تھی۔ میں جب بھی پنڈی جاتا تھا احمد داو مجھے اس ریسٹورنٹ میں ضرور لے جاتا تھا ۔ اس ریسٹورنٹ کے بار ایک پھٹا ہوا کمبل اوڈھے ہوئے ایک فقیر کو احمد دواد کھانے کے پیسے دہے تھے ۔ میں نے احمد داود سے دریافت کیا یہ کون ہے ؟ تو انھوں نے بتایا " اس کی محبوبہ کی ایک بیورکریٹ سے شادی ہو گی اور اس کے غم میں یہ پاگل ہوگیا ہے" ۔۔۔۔ خوب رو، بھوری آنکھوں اور خوب صورت موچھوں والا یہ دوست آج بھی مجھے بہت یاد آتا ہے۔ اس کی محبتِں اور اس سے میری لڑایاں میں شاید ھی بھول سکوں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔