زنا بالجبر – حالیہ بحثوں کے تناظر میں
——————————————–
کسی عورت کی عصمت دری، یا عوام کی زبان میں عزت لوٹ لینے کے جرم کو ہمارے شریعت پر مبنی قانونی مسودات زنا بالجبر کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس اصطلاح میں نقائص ہیں اور یہ ہماری روایتی فقہ میں بھی اسی طرح موجود نہیں، اس لیے اس کی جگہ کوئی دوسری اور بہتر 'Umbrella term' وضع و اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ پھر مردوں، کم سن بچے بچیوں کو بھی اس کی مختلف صورتوں میں شامل تصور کرنا عقلی اقتصاءات کا تقاضا ہے۔ تاہم، چونکہ ہمارے علما نے بالعموم اہم ترین قانونی مسودات میں اسے ہی اختیار رکھا ہے اس لیے اس مضمون میں بھی یہی مختار رہے گی۔
زنا بالجبر یا rape ایک مشکل الثبوت جرم ہے اور ہمیشہ رہا ہے۔ اسے کن کن طریقوں سے ثابت ہونا چاہیے، ثابت نہ ہونے کی صورت میں کیا ہونا چاہیے، اس طرح کے سب سوالات سے ابھی تک دنیا 'grapple' کر رہی ہے۔ مغرب میں آج بھی کڑے معیارِ ثبوت کے باعث زیادہ تر کیسز میں یہ ثابت نہیں ہو پاتا۔ کینٹکی، امریکہ میں 2010 میں اسی موضوع پر کی گئی ایک ریسرچ کے مطابق رپورٹ ہونے والے ریپ کیسز میں سے صرف 37٪ پر باقاعدہ کیس چل پایا اور ان میں سے بھی صرف 18٪ میں جرم ثابت۔ اسی سے اندازہ کر لیں کہ اس طرح کے کیسز میں قانون سازی کی باتیں کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ قانون میں مظلوم (victim) اور ملزم (accused) کے حقوق کے مابین ایک لطیف بیلنس قائم کرنا پڑتا ہے جو ایک بہت دقیق مشق ہے۔ اسی لیے یہ مضمون اس کی کوئی کوشش بھی نہیں کرے گا۔
تاہم کسی معاملے کا حل کیا ہونا چاہیے، یہ یقیناً ایک مشکل مشق ہو سکتی ہے۔ پر کسی معاملے کے حل کے لیے دی گئی کوئی رائےمجسم غلطان ہونے کے باعث کسی طور قبول نہیں کی جا سکتی، یہ فیصلہ اس کا محتاج نہیں ہوتا کہ پہلے درست جواب تلاش یا اس پر سب کا اتفاق مقصود ٹھہرایا جائے۔ دنیا یا پاکستان کی معاشیات کے ساتھ مثلاً کیا کچھ مسائل ہیں اور اس کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے، ایک سرمدی مباحثے کی متقاضی رہتی ہے۔ پر اس کے لیے کسی ایک نظریے یا طریقہ کار پر متفق ہوئے بغیر کیا ہم ٹی ٹی پی کی طرح کے گروہوں کے اس دعوے کہ اپنے ملک پر مغربی قوتوں کے حملے کے ذریعے معاشیات میں بہتری لائی جا سکتی ہے کو نامعقول کہہ کر مکمل طور پر رد نہیں کر سکتے؟ اس لیے یہ مضمون صرف اس ایک رائے پر مرکوز رہے گا جس کی غلطی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔
ہماری روایتی فقہ میں بالعموم اصلاً اور اوّلاً زنا بالجبر کو زنا بالرضا پر ہی قیاس کیا گیا، اور اسی لیے حدود میں سے شمار کیا گیا ہے۔ یہ بات اتنی واضح ہے کہ اس ضمن میں کسی کو 'hide the ball' کھیلنے سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ تاہم، فقہا عموماً جرائم کی سزاؤں کے لیے حدود کی سزاؤں کے علاوہ بھی اختیارات کے قائل ہیں، اس لیے حد ساقط ہونے کے بعد یا اس کا معیارِ ثبوت پورا نہ ہو سکنے کے باوجود ایسی تعذیری سزاؤں کو حرکت میں لاتے ہیں جن کے ذریعے ثبوت اور سزاؤں کے اعتبار سے مختلف مکاتبِ فکر میں قاضی کو مختلف مزید آپشنز سے آراستہ کر دیا جاتا ہے۔ ان اختیارات کی وسیع تر palette فقہِ حنفی کو حاصل ہے، کیونکہ وہ تعذیر کے علاوہ سیاسۃ کی ایک ایسی وسیع کیٹیگری بھی رکھتی ہے جو دوسری فقہوں میں موجود نہیں۔ یہ فریم ورک اصولی طور پر درست ہے یا نہیں اس پر بحث سے بھی مجھے یہاں کوئی سروکار نہیں۔ کیونکہ ان بحثوں کا الجھاؤ عام لوگوں کے لیے حجاب بن جاتا ہے اور وہ اصل مدعا کا سرا ہی ہاتھ سے جانے دیتے ہیں، بلکہ بعض حضرات تو انہیں چھیڑتے ہی اسی مقصد کی خاطر ہیں۔
میرے اس مضمون کا محور زنا بالجبر کی سزا کے اس پہلے اور اکیلے جزئیے سے ہے جسے حد میں شمار کیا جاتا ہے، اور جس کے تحت زنا بالرضا پر قیاس کے نتیجے میں اسی کی سزائیں زنا بالجبر کے لیے متعیّن ہو جاتی ہیں، اور اسی کا معیارِ ثبوت – یعنی چار چشم دید گواہ – اس کے لیے بھی ضروری۔ چونکہ جب بھی کوئی کسی جرم کو حدود میں شمار کرے گا تو یہ لازماً مقدر ہوتا ہے کہ وہ شخص درحقیقت یہ کہہ رہا ہے کہ فلاں سزا یا فلاں معیارِ ثبوت اللہ رب العزّۃ نے اس جرم کے لیے مقرر فرما دیا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی عالم، فقیہ یا محقق اس بات کا قائل ہے کہ زنا بالجبر حدود میں سے ہے ہی نہیں، تو آپ اس مضمون کے مخاطب بھی نہیں۔ کیونکہ اب آپ اس جرم پر جو بھی کلام کریں گے و ہ ہر اعتبار سے قابلِ بحث ہے، اور اس سے بہتر کسی رائے کو ہمارے اختیار کر لینے میں کچھ مانع نہیں۔ اور اگر کوئی عالم یا محقق اسے حرابہ یا فساد فی الارض میں شمار کرتا ہے، اور یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ بعض فقہا اس کے قائل بھی رہے ہیں، مجھے اس وقت اس دعوے کی درستی سے کوئی سروکار نہیں، پر کوئی اگر یہ رائے رکھتا ہے تو آپ بھی اس بحث کے ظاہر ہے مخاطب نہیں۔ اس بحث کے مخاطب صرف وہ علما و محققین ہیں جو زنا بالجبر کے جرم کو حدِّ زنا کے تحت دیکھتے، اور اسی لیے وہی سزائیں اور شرائطِ ثبوت ضروری ٹھہراتے ہیں۔
سب سے پہلے اپنے تصور کو بلند کیجیے، اور ان تقسیموں سے اوپر اٹھیے کہ کیا بات کس نے کہی۔ فقہا کیا کہتے ہیں، ان سے اختلاف کرنے والے محققین کیا کہتے ہیں، غامدی صاحب کیا، یا میں اور آپ کیا سوچتے ہیں، ان سب کو عارضی طور پر ایک طرف رکھ کر بالکل بدیہی بنیادوں سے بات کو سمجھنے کی سعی فرمائیں۔
دنیا کا ہر نظمِ حکومت مظلوم کو یہ حق دیتا ہے کہ اگر اس کے خلاف کسی حق تلفی یا ظلم و زیادتی کا اقدام ہوا ہے تو وہ اس کے مداوے کا استغاثہ لیکر حکومتی اداروں کے پاس آئے۔ ان میں سے بھی ظلم و زیادتی کا اقدام خاص جلال کو متحرک کرتا ہے۔ یہ اقدام جس طرح اس شخص کی جان کے خلاف ہو سکتا ہے، مال کے خلاف، اسی طرح آبرو کے خلاف بھی۔ جب وہ یہ کرتا ہے تو اس کی دادرسی کی ہر ممکن کوشش کرنے، پوری دلچسپی لینے اور معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی ذمہ داری حکومت اٹھاتی ہے، جو عین علم و عقل کا تقاضا بھی ہے اور ہمارے مذہب نے بھی معاشرے کو اس کا پابند کیا ہے۔
تاہم، حکومتی اداروں سے لوگ اس کے علاوہ اور طرح کے قضیوں میں بھی رجوع کر سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی نے کسی کے ساتھ ملکر یا اکیلے کوئی ایسا کام کیا ہے جو کسی قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس پر سزا بھی مقرر ہے۔ جب ایسے معاملے کا کسی متعیّن شخص پر الزام لیکر کوئی الزام لگانے والا حکومت سے رجوع کرتا ہے تو اس معاملے کو تمام دنیا کا شعور اور حکومتیں بالکل اور طرح دیکھتی ہیں، اور یہ عین علم و عقل کا تقاضا ہے۔ کوئی قانوندانی سے آشنا شخص، کجا کہ کوئی قانون کا ماہر، اس طرح کے معاملات اور ظلم و زیادتی کے معاملات کو آپس میں گڈ مڈ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
اسے پہلے ایک نیم متعلقہ مثال سے سمجھیے۔ موٹروے پر حد رفتار سے تجاوز کرنے پر سزا مقرر ہے۔ اب ایک شخص یہ مشہور کرنا شروع کر دیتا ہے یا موٹروے پولیس کے پاس یہ الزام لیکر آتا ہے کہ میں نے فلاں شخص کو فلاں مقام اور وقت پر حد رفتار سے تجاوز کرتے دیکھا ہے۔ ایک دوسری مثال میں ایک شخص جس کی گاڑی کے ساتھ تیز رفتاری کے باعث کسی دوسری گاڑی کی ٹکر ہو گئی اور وہ بھاگ گئی، اپنا استغاثہ لیکر آیا ہے کہ اسے انصاف دلایا جائے۔ یہ دونوں کیسز ایک جیسے ہو گئے؟ دوسرا اپنے ساتھ زیادتی کا مقدمہ لیکر آیا ہے۔ ٹوٹی ہوئی گاڑی اس کے پاس ہے اور اپنے نقصان کا مداوا چاہتا ہے۔ جبکہ پہلا محض ایک ایسا الزام لیکر آیا ہے جس سے اس کا نہ تو کوئی تعلق ہے اور نہ ہی اس کا کوئی نقصان ہوا ہے۔ دنیا کا کونسا شخص ہے جو انہیں ایک سا قرار دے، یا ایک کو دوسرے پر قیاس کرے گا؟ اگر کوئی ہے تو اسے دونوں ہاتھوں سے سیلوٹ!
اب ایک کسی قدر متعلقہ مثال سے سمجھیے۔ کوئی شخص کسی کے خلاف اپنے سے کوئی چیز چھین لینے پر انصاف کے لیے استغاثہ لیکر آیا ہے۔ اس کے بر خلاف ایک شخص کسی دوسرے شخص پر یہ الزام لیکر آیا ہے کہ وہ فلاں عورت کے ساتھ فلاں مقام پر بوس و کنار کر رہا تھا، میں نے خود دیکھا ہے۔ کیا دونوں مستغیثین سے ایک طرح کے شواہد درکار ہونے چاہئیں، یا دونوں مقدمات میں حکومت کی دلچسپی ہی ایک سی ہونی چاہیے؟ پہلا زیادتی کے مداوے کے لیے استغاثہ ہے جس میں حکومت اس کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے گی، اور دوسرا محض ایک الزام اور تہمت جس کے ثبوت کا پورا بوجھ اسی پر ہے۔
پس اسی طرح جب کوئی شخص کسی دوسرے جوڑے کے متعلق یہ الزام لیکر آئے کہ انہوں نے آپس میں زنا کا ارتکاب کیا ہے، اور ایک شخص خود اپنی عزت لٹ جانے کا، تو علم و عقل کا وہ کونسا معیار یا مسلمہ ہے جس کے تحت انمیں سے ایک کیس کو دوسرے سے مماثل قرار دے کر ثبوت و سزا لازماً ایک سے قرار دیے جائیں گے؟
اب اپنی شریعت کو دیکھیے۔ معاشرے کو حکم دیا کہ اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو یہ پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ اس کو انصاف دلانے کے لیے سرگرداں ہو جائے۔ ظلم و زیادتی کے نوعیت کے معاملات میں سے کسی ایک میں بھی اللہ تعالی نے ثبوت کا کوئی معیار مقرر نہیں کیا۔ نہ چوری کے لیےکوئی ثبوت کا معیار بیان فرمایا، نہ قتل کے لیے، نہ ہی حرابہ و فساد فی الارض کے لیے۔ ظاہر ہے اسی لیے کہ علم و عقل جس طریقے سے بھی جرم کے ثبوت تک پہنچا دیں ان سب طریقوں کو اختیار کیا جائے۔ اور اس کے بالکل بر عکس زنا کے معاملے میں ثبوت کا ایک تقریباً ناممکن معیار اس لیے بیان کر دیا کہ ہر عاقل جانتا ہے کہ یہ تو اصلاً ایک تہمت و بہتان کے ثبوت کا معاملہ ہے، نہ کہ کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کے مداوے کا۔ اسی لیے یہاں اصل معاملہ خود الزامات کی حوصلہ شکنی کا تھا جو اللہ نے بہترین طریقے سے کر دی۔ آہ! پر یہ کیا حادثہ ہے کہ جس کے تحت شریعت تو خدا کی طرف سے قرار پاتی ہے، پر عقل شائید ابلیس کی طرف سے!
یعنی ذرا تصور کریں کہ میرا کسی راکشس نے عضو تلف کر دیا، یا کسی ڈاکو نے میرا مال لوٹ لیا، تو میں بلا تردّد حکومتی اداروں سے مداوے کے لیے رجوع کر سکتا ہوں۔ پر اگر کسی نے میری عزت لوٹ لی تو پھر تو مجھے بہت سوچ سمجھ کر رپٹ کرانی چاہیے کیونکہ چار چشم دید گواہوں کی عدم دستیابی پر میں تو خود اسّی کوڑوں کی زد میں ہوں۔ کیا ہمارے مذہب نے جان مال اور آبرو کی یہی تقسیم سکھائی ہے؟ اور کیا آبروکو اتنا ہی بے وقعت جانا ہے؟
ہمارے فقہا کو یہ غلطی کیوں لگی، یہ سوال ہے۔ اس کا جواب اصول میں بالکل عیاں ہے کہ انہوں نے دو ایسے معاملات کو ایک دوسرے پر قیاس کر لیا جو کسی اعتبار سے قابلِ قیاس نہیں تھے۔ یعنی جو قانون سازی اللہ تعالی نے معاشرے کو تہمت و بہتان کی لا متناہی مشقوں سے باز رکھنے کے لیے کی، اور جنسی نوعیت کی الزام تراشیوں کی روک تھام کے لیے کی، اسے انہوں نے زیادتی کی نوعیت کے مقدمات پر قیاس کر لیا۔ زیادتی کی نوعیت کے مقدمات اتنے واضح طور پر علیحدہ ہوتے ہیں کہ انہیں تہمت و بہتان پر قیاس کرنا علمی اعتبار سے غلط ہے ہی، عملی اعتبار سے تو ظلمِ عظیم ہے۔ پر مجھے تو زنا بالجبر کو بالرضا پر قیاس کرنے کی وجہ ہی سمجھ میں نہیں آ سکی۔ کیا چوری کے مقدمے کو اوّلاً قرض پر قیاس کیا جائے گا؟ یا اعضا تلف کرنے کے مقدمات کو اوّلاً organ donation پر؟ یعنی یہ کیا طریقہ ہے ایک زیادتی کے معاملے کو رضامندی کے معاملے پر قیاس کرنے کا۔۔۔۔بالکل سمجھ سے باہر ہے۔
ہمارے فقہا چونکہ زنا بالجبر کو زنا بالرضا پر ہی قیاس کرتے ہیں اسی لیے ایسا بیانِ قانون ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر فلاں شرائط پوری ہوئیں تو مستغیثہ پر قذف کی حد جاری نہیں کی جائیگی۔ یعنی یہاں بھی کمال دیکھیں۔ میں اسے دوسرے جرائم پر محمول کر کے اس جملے کی حیرت انگیز لغویت واضح کرتا ہوں: کسی مقتول کے ورثا اگر انصاف لینے آئے تو اگر انہوں نے فلاں شرائط پوری کر دیں تو خود ان پر قذف کی سزا جاری نہیں کی جائیگی ؛ اگر کوئی عضو تلف کیے جانے پر انصاف کے لیے آیا تو اگر اس نے فلاں شرائط پوری کر دیں تو خود اس پر قذف کی سزا جاری نہیں کی جائیگی ۔؛ اگر کسی کا مال ڈاکو لوٹ لے گئے اور وہ انصاف کے لیے قانونی ادارے کے پاس آیا تو اگر اس نے فلاں شرائط پوری کیں تب ہی خود اس پر قذف کی سزا جاری نہیں کی جائیگی ۔
چنانچہ یہ بات بالکل عیاں ہے کہ اس معاملے میں ہمارے جلیل القدر فقہا سے استنباطی غلطی ہوئی ہے۔ تاہم، اوروں کی طرح مجھے بھی اصرار ہے کہ غلطی کو بس غلطی کہیں اور اس سے آگے بڑھ کر فقہا کی تنقیص نہیں ہونی چاہیے۔ پر اگر کچھ لوگ غلطی کہنے کو بھی تنقیص شمار کریں تو اس کا تو نہ کوئی حل ہے، اور نہ ہی معذرت کی ضرورت۔ پس جو سرا میں نے آپ کے ہاتھ میں پکڑایا ہے اسے نہ چھوڑیے گا۔ کہ زیادتی کی تلافی کے مقدمات کی نوعیت کو تہمت و بہتان کی نوعیت کے مقدمات پر کبھی قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ اس اصول کا اطلاق اپنے دین کے کسی قانون پر کر کے دیکھ لیجیے۔ نہ کہِیں اللہ نے، نہ کبھی رسول اللہ ﷺ نے کسی مقدمے میں بھی زیادتی کا استغاثہ لیکر آنے والے سے چار گواہ طلب کیے یا اسے قذف کی دھمکی دی۔
اس لیے اگر اس اصول کی خلاف ورزی ہمارے فقہا کریں تو غلط، کوئی محقق کرے تو غلط، اور غامدی صاحب کریں تو بھی غلط ہی ہو گا۔ غامدی صاحب کی فکر میں البتہ یہ غلطی میرے فہم کے مطابق قطعاً مفقود ہے۔ پر یہ مضمون میں چونکہ غامدی صاحب کے نقطہ نظر پر تو لکھ نہیں رہا، اس لیے اس پر عمومی بحث کی فی الحال ضرورت بھی محسوس نہیں کرتا۔
اب آئیں ان اعتراضات و سوالات سے مختصراً تعرض بھی کیے لیتے ہیں جو معاملے کو اس علمی و عقلی زاویے سے دیکھنے پر وارد کیے جا رہے ہیں۔ یہ کوئی بہت قابلِ لحاظ تو نہیں، پر چونکہ بار بار پیش کیے جا رہے ہیں اس لیے محض تالیفِ قلوب کے لیے موضوع بنائے لیتے ہیں۔
ایک سوال نما اعتراض یہ سامنے آیا ہے کہ اس طریقے سے عصمت دری کی مستغیثہ کے الزام ہی کو بس کافی سمجھ لینا شائید باور کرایا جا رہا ہے۔ یہ اعتراض کیسے اور کیوں پیدا ہوا میری سمجھ سے تو باہر ہے۔ کیونکہ یہ تو ایک جانی مانی حقیقت ہے کہ ایک common sensical بات کو بیان میں لانے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی، اس لیے عاقل حضرات نفسِ مسئلہ پر بحث کو مرکوز رکھا کرتے ہیں۔ یہ بدیہی بات ہے کہ جس طرح زیادتی کے نوعیت کے باقی مقدمات میں انصاف کے ادارے پہلے یہ تسلی کرتے ہیں کہ جرم ہوا بھی ہے کہ نہیں، اسی طرح عصمت دری کے مقدمات میں بھی کریں گے۔ اس کو بیان میں لانا کیونکر ضروری تھا؟
ایک سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ اگر مستغیثہ جھوٹ بول رہی ہو تو پھر کیا کیا جائے گا۔ تو بھئی وہی کچھ کیا جائے گا جو زیادتی کے نوعیت کے دوسرے criminal مقدمات میں کیا جاتا ہے۔ کوئی جس طرح چوری کا جھوٹا الزام لگا سکتا ہے، ڈاکے کا لگا سکتا ہے، قتل وغیرہ کا لگا سکتا ہے، تو اسی طرح rape کا بھی ظاہر ہے لگا سکتا ہے۔ یعنی یہ اس طرح کے سوال پوچھنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے، ناقابلِ فہم ہے۔
ایک سوال البتہ غامدی صاحب کے اس موضوع سے کسی قدر متعلق نقطہ نظر پر ہوا ہے، اور کرنے والے ڈاکٹر مشتاق صاحب ہیں، اس لیے اسے نظر انداز کرنا مناسب نہیں۔ اس لیے بھی کہ غالباً وہ یہ دکھانا چاہ رہے ہیں کہ علمی و عقلی مسلمے کا وہ سرا جو میں نے اوپر قارئین کو پکڑایا تھا وہ غامدی صاحب کی فکر میں بھی ان سے چھوٹ گیا ہے۔ تو بھئی اگر چھوٹ گیا ہے تو انہوں نے بھی غلط کیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ تو نہیں اخذ کیا جا سکتا ناں کے عقلی مسلمہ تبدیل ہو گیا ہے۔ اس لیے اس پر اس زاویے سے تو بحث کی کوئی ضرورت نہیں۔
تاہم چونکہ میں پورے اطمینان سے سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کو غامدی صاحب کا مؤقف سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے، اس لیے اس tangent کو بھی مختصراً زیرِ بحث لے آتے ہیں۔
غامدی صاحب کا مؤقف ڈاکٹر صاحب کے مطابق ان کے اپنے الفاظ میں یہ ہے کہ: " ان تین باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب فساد فی الارض میں زنا شامل ہو تو غامدی صاحب اس کے ثبوت کےلیے چار گواہ ضروری سمجھتے ہیں "۔
یہ غامدی صاحب کا تو کوئی جملہ نہیں کہ اسی جملے کو بنیاد بنانا ضروری ہو۔ یہ تو ڈاکٹر صاحب کا اپنے فہم کے مطابق بیان ہے۔ اس لیے سب سے پہلے اس بیان کے مقابل میں میں اپنا بیان رکھتا ہوں جو میرے نزدیک درست مؤقف کی عکاسی کرتا ہے۔ کیونکہ ڈاکٹر صاحب سے بہتر کون جانتا ہو گا کہ قانونی جملوں کی تالیف ہی بہت سے مسائل کو جنم دے دیتی ہے۔ غامدی صاحب کا مؤقف یوں ہے: جرم چاہے فساد فی الارض کا ہو یا زنا بالجبر کا، اگر کوئی اپنے ساتھ زیادتی کا استغاثہ لیکر آیا ہے تو جرم ثبوت کے مسلمات کے مطابق ہر طریقے سے ثابت ہوسکتا ہے۔ اور جرم اگر زنا بالرضا کا ہے، اورکوئی محض الزام و تہمت لیکر آیا ہے، تو چاہے الزام متخذات اخدان کا ہو اور چاہے مسافحات کا ، یعنی چاہے محض ایک دفعہ زنا کرنے والے جوڑے کا معاملہ ہو یا باقاعدہ قحبہ گری کے طریق پر بار بار زنا کرنے کا، جرم چار گواہوں سے ہی ثابت ہو گا۔
امید ہے کہ اسی سے مسئلہ حل ہو جانا چاہیے۔ پر کچھ مزید bread crumbs پھیلا دیتا ہوں تا کہ ڈاکٹر صاحب کو صحیح مؤقف اخذ کرنے میں دقت نہ پیش آئے۔
جو غلطی اس ضمن میں ڈاکٹر صاحب کے پورے thesis کو متاثر کیے ہوئے ہے وہ ہے کہ مستغیث یا مستغیثہ کون ہے۔ یعنی وہی سرا قارئین کو پھر یاد دلاتا ہوں۔ کیا قانونی اداروں کے پاس مقدمہ کوئی ایسا شخص لیکر آیا ہے جو اپنے ساتھ ہونے والی کسی زیادتی کا مداوا چاہتا ہے، یا ایسا شخص آیا ہے جس کے پاس محض کچھ معلومات ہے اور وہ اس معلومات کی بنیاد پر کسی ملزم کے لیے سزا کی استدعا کرتا ہے۔ظاہر ہے، یہ دونوں بالکل مختلف صورتیں ہیں جن پر بحث اوپر کی جا چکی ہے۔ اب اس کا اطلاق کر کے دیکھیے۔
قحبہ گری کا الزام کون لیکر آیا ہے۔ فرض کر لیں کہ وہ بیچاری عورت خود استغاثہ لیکر آ گئی ہے جس سے دھندا کرایا جا رہا تھا۔ تو ڈاکٹر صاحب کے خیال میں غامدی صاحب کا مؤقف یہ ہونا چاہیے ناں کہ اس سے چار گواہ مانگے جائیں گے۔ تو ایسا قطعاً نہیں۔ وہ عورت تو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا مقدمہ لیکر آئی ہے، نہ غامدی صاحب کی کوئی نص اور نہ ہی کوئی مقدر استنباط اس عورت سے چار گواہ کا مطالبہ کرتا ہے۔اس عورت کی دادرسی ہر اس طریقے سے کی جائیگی جو زیادتی کی نوعیت کے دوسرے مقدمات میں کی جاتی ہے۔
اس کے بالکل بر عکس محلے کا کوئی آدمی کسی عورت پر یہ الزام دھرنے آیا ہے کہ وہ قحبہ گری کا کام کرتی ہے۔ تو اس شخص سے اسی طرح زنا بالرضا کا مقدارِ ثبوت مانگا جائیگا۔ یہ بالکل باہمی طور پر مربوط اور ایسا عالی شان مؤقف ہے جو قرآن کی لا متناقض حیثیت کو پوری قطعیت سے واضح کر دیتا ہے۔
اصل میں جتنا میں سمجھ پایا ہوں ڈاکٹر صاحب جب اس طرح کی سٹیٹمنٹ پڑھتے ہیں کہ فلاں جرم اس طریقے سے ثابت ہو گا تو یہ بات نظر انداز کر دیتے ہیں کہ جرم کا الزام لگانے والا کون شخص ہے۔ بہت سے جرائم اس طریقے سے بیان ہوتے ہیں کہ کہیں معروف نوعیت، اور کہیں ان میں یہ بات جلی حروف میں اور کہیں عبارت میں مقدر ہوتی ہے کہ الزام لگانے والا کون ہے۔ زنا بالرضا کے معاملے میں تو والذین یرمون المحصنت کے الفاظ نے یہ بات واضح کر دی کہ کسی تیسرےشخص نے الزام لگایا ہے۔ کوئی اپنے ساتھ زیادتی کا استغاثہ لیکر نہیں آیا، اسی لیے چار گواہوں جیسی ثقیل شرط عائد کر دی۔ اسی سورۃ میں متصلاً بعد یہی الزام ایک شوہر اپنی بیوی پر لیکر آیا ہے، تو دیکھا جا سکتا ہے کہ معاملے کو بالکل دوسرے طریقے سے حل کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح والّٰتی یاتین الفاحشۃ والے معاملے میں بھی یہ بات باور کرنا قطعاً مشکل نہیں کہ کوئی زیادتی کا استغاثہ لیکر نہیں آیا۔ اسی لیے چار گواہوں کی شرط بدستور برقرار ہے۔
امید ہے کہ اتنی تفصیل ڈاکٹر صاحب کے لیے کافی ہو گی۔ تاہم، اگر ان کے follow up سوالات ہوئے تو میں حاضر ہوں۔ ویسے بھی یہ مضمون عمومی اعتبار سے زنا بالجبر پر تھا، نہ کہ غامدی صاحب کے مؤقف کے دفاع کیلیے۔
آخر میں میں ایک دفعہ پھر تمام علما و دینی طالبعلموں سے استدعا کروں گا کہ اگر انہیں اس غلطی کا احساس ہو گیا ہے جو ہمارے فقہا سے اس بارے ہوئی ہے،یعنی یہ کہ انہوں نے زنا بالجبر کو ان شرائط و سزاؤں پر قیاس کر لیا جو اللہ نے زنا بالرضا کا الزام و تہمت دھرنے والوں کے لیے مقرر فرمائیں تھیں،تو ببانگِ دہل اس کا اقرار کیجیے۔ اس ایک استنباط سے ہمارے دین پر، اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر نا دانستگی میں ایک ایسا بہتان جڑ دیا گیا ہے جس سے نہ صرف یہ کہ دین کی دعوت کو نقصان پہنچا ہے، اللہ کے متعلق عجیب ناانصافی کا گمان کرنے کا موقع مل گیا ہے، بلکہ واضح طور پر عصمت دری کے شکار مظلوموں کے ساتھ بھی ناانصافی ہو گئی ہے۔ مجھے اس سے غرض نہیں کہ آپ علما زنا بالجبر کو حرابہ میں شمار کر کے اس مسئلے کا حل کرتے ہیں، یا سیاسۃ و تعذیر کے ذریعے۔ یہ سب بحثیں on the table ہیں اور ان پر نا معقولیت کے زاویے سے کوئی بحث نہیں ہو سکتی۔ بحث ہو گی تو فنی اعتبار سے۔ پر زنا بالجبر کے لیے زنا بالرضا کی شرائط و سزاؤں کو کسی طور قبول نہیں کیا جا سکتا۔ صرف یہ ایک نکتہ سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ آئیے یہ مل کے کوشش کریں کہ اس جزئیے کو جو ہمارے قانونی مسودات میں پہلے جز کی حیثیت سے درج ہوتا ہے سے نجات حاصل کر کے اپنے رب پر اس داغ کو دھونے کی سعی کریں۔ یہ ہم سے زیادہ آپ پر اللہ کا حق ہے۔ اور اگر آپ نے ادا نہ کیا تو میں تو ادا کرتا رہوں گا!
جن باتوں کی نامعقولیت صرف ایک دفعہ باآوازِ بلند کہہ دینے سے واضح ہو جاتی ہے، ان کے دفاع پر صفحوں کے صفحے کالے کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوا کرتا۔ ہمارا دین اس طرح کی غیر حقیقت پسندانہ قانون سازیوں سے بالکل پاک ہے۔ اور ہماری بہنیں مائیں بیٹیاں تسلی رکھیں۔ ان کے رب نے ان کی عصمت دری پر ان سے کوئی چار گواہ نہیں مانگے۔ وہ بلا خوف ایسی کسی صورتحال میں قانون سے رجوع کر سکتی ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔