دنیا کا سب سے بڑا ملک ہونے کے باوجود روس کو صدیوں سے ایک بڑے مسئلے کا سامنا رہا ہے۔۔۔ پورا سال متحرک رہنے والی بندرگاہوں کا فقدان۔۔۔ اور نصف یا نصف سے زیادہ سال بندرگاہوں کے منجمد رہنے کا مطلب ہے بحری تجارت میں بہت بڑے پیمانے کی طویل رکاوٹ۔
چنانچہ روس عرصہ دراز سے گرم پانیوں تک رسائی کے لیے ہر ممکن کوششیں کرتا آیا ہے ۔۔۔ اور تب بھی کچھ ایسا ہی ہوا
بحیرہ زرد Yellow Sea میں واقع چین کی “پورٹ آرتھر” روس کے لیے بحری تجارت کا بہترین ذریعہ ثابت ہوسکتی تھی ۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ یہ بندرگاہ ایک دوسرے دیش میں واقع تھی ۔۔۔ تاہم روسی ایسی چھوٹی موٹی باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیا کرتے اور سنہ 1900 میں روس نے چین کے صوبہ منچوریہ پر حملہ کردیا ، بہت جلد روس اپنے ہدف یعنی پورٹ آرتھر کو حاصل کر چکا تھا ۔
لیکن ۔۔۔۔۔
جاپان کو روس کا چین پر حملہ اور پورٹ آرتھر پر قبضہ قطعاً پسند نہ آیا کہ بھئی چین پر حملے کا حق صرف ہمیں ہے روسیوں کو یہ حق کس نے دیا ۔
چنانچہ ۔۔۔۔ 1904 میں جاپان نے پورٹ آرتھر پر حملہ کردیا تاکہ اسے روس کے غاصبانہ تسلط سے آزاد کرکے اپنے غاصبانہ تسلط میں لے سکے 😪
چند ماہ میں ہی اس جنگ میں روس کو بھاری نقصان پہنچ رہا تھا اور انہیں بحری مدد کی سخت ضرورت تھی ۔۔۔۔
چنانچہ روس کے زار “نکولس دوئم” نے روسی بحریہ کے بالٹک بیڑے کو منچوریہ میں محصور روسی فوج کی مدد کے لیے بھیجنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔ اس بیڑے کی کمان ” ایڈمرل زینوے روز” کے ہاتھ میں تھی جو اپنی غصیلی طبعیت کی وجہ سے اتنا معروف (یا غیر معروف) تھا کہ اس کا عملہ ہمیشہ دوربینوں سے بھرا کریٹ رکھا کرتا تھا کہ جب بھی ایڈمرل صاحب غصے میں دوربین سمندر میں اچھال دیں تو انہیں نئی دوربین پکڑا دی جائے!!
لیکن۔۔۔۔ شمالی روس کی بندرگاہیں موسم سرما کی وجہ سے منجمد تھیں۔۔۔ تو اب اس بیڑے کو طویل چکر کاٹ کر پورے ایشیاء، یورپ ، افریقہ سے ہوتے ہوئے گھوم کر چین کی بحری حدود تک پہنچنا تھا ۔۔۔۔ اور یہ سفر پورے 29000 کلومیٹر طویل تھا ۔
چنانچہ یہ بیڑہ اپنی منزل کی طرف گامزن ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی سفر اپنے ابتدائی ایام میں ہی تھا کہ بیڑے کے دو بحری جہاز آپ میں ٹکرا گئے جس سے دونوں کے ہی ڈیک کو نقصان پہنچا ، اور مرمت کے لیے بیڑے کو روک لیا گیا۔
چند روز کی مرمت کے بعد جب بیڑہ پھر سے روانہ ہوا تو عملے کے درمیان کچھ ایسی افواہیں گردش کرنے لگیں کہ راستے میں جاپانی بحریہ کی آبدوزیں کہیں بھی گھات لگائے موجود ہوسکتی ہیں ۔۔۔ گزرتے دنوں کے ساتھ جاپانی آبدوزوں کا خوف بڑھتا ہی جارہا تھا اسی بوکھلاہٹ کے عالم میں ایک روسی جہاز نے ماہی گیروں کی ایک کشتی پر اندھادھند فائر کھول دیا ۔۔۔۔ آفٹر آل آبدوز اور چوبی کشتی میں اتنا زیادہ فرق بھی کیا ہے ؟
تاہم ماہی گیروں کی خوش قسمتی تھی کہ فائر کرنے والے روسی تھے اور ان کی تربیت اتنی ناقص تھی کہ کشتی معمولی ڈیمج کے علاؤہ کسی نقصان سے بچ گئی۔۔۔چند دن بعد کا ذکر ہے ایک رات ایک روسی بحری جہاز نے باقی بیڑے کو پیغام دیا کہ ” مجھ پر 8 عدد جاپانی آبدوزوں نے حملہ کردیا ہے ۔۔۔” حالانکہ وہ اس وقت ڈنمارک کے نزدیک تھے جاپان سے کوسوں دور۔۔۔۔ چنانچہ اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جب دیگر بحری جہازوں نے جوابی کارروائی کی تیاری شروع کی تو “انکشاف” ہوا کہ وہاں 8 تو درکنار سرے سے ایک بھی آبدوز موجود نہیں اور یہ سب گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے۔۔۔۔۔
کچھ وقت بعد روسی بیڑہ برطانیہ کے سمندروں تک پہنچ چکا تھا ، جہاں 21 اکتوبر کو ان کا سامنا چھوٹے فشنگ ٹرالرز کے ایک گروپ سے ہوا جو ماہی گیری میں مصروف تھے ۔۔۔ روسی بحری جہازوں نے انہیں جاپانی تارپیڈو بوٹس سمجھتے ہوئے ان پر بےتحاشہ فائر کھول دیا ۔۔۔ یہ گولہ باری پورے 20 منٹ تک جاری رہی ۔
لیکن ایک مرتبہ پھر خوش قسمتی سے فائر کرنے والے روسی تھے جن کی تربیت بیحد ناقص تھی اور اس حملے میں صرف 1 فشنگ ٹرالر غرقاب ہو سکا جس کے نتیجے میں 2 ماہی گیر مارے گئے ۔۔۔ اس حملے میں 1 روسی اہلکار اور 1 ان کے ساتھ تعینات 1 روسی پریسٹ مارا گیا ۔۔۔ لیکن کیسے ؟ “اتفاق سے” اس حملے کی دوران ایک روسی بحری جہاز کا گولہ دوسرے روسی جہاز کو جا لگا تھا ۔۔۔۔۔۔ برطانیہ نے اس حملے کے عوض نہرِ سوئز میں روسی بیڑے کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا ۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔ اب ان کے پاس پورے براعظم افریقہ کے گرد چکر لگا مڈگاسکر سے ہوتے ہوئے کر بحر ہند میں داخلے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا ۔۔۔۔ چنانچہ اب وہ اس نئے راستے پر ہو لیے۔۔۔۔ اس طویل سفر کے دوران روسی بیڑے نے مزید سویلین جہازوں کو دشمن سمجھتے ہوئے نشانہ بنانے کی کوشش کی ۔۔۔۔ زیرِ آب ٹیلی گرام کیبل کو “غلطی سے ” کاٹ ڈالا.
افریقہ کے گرد چکر بہت طویل تھا۔۔۔۔ اور انہیں جہازوں کے انجن کے “ڈھیر سارے” کوئلے کی ضرورت تھی ۔۔۔ انہیں کوئلے کی فراہمی کا واحد ذریعہ چند جرمن بحری جہاز تھے ۔۔۔ چنانچہ انہوں نے جرمن بحری جہازوں سے کوئلہ حاصل کرتے وقت سفر کی طوالت کے پیشِ نظر مزید بھاری مقدار میں بھی کوئلہ اٹھا لیا جو ان کے گوداموں کی گنجائش سے کہیں زیادہ تھا۔۔۔۔ اب ۔۔۔۔ یہ اضافی کوئلہ ڈھیر کی صورت میں بیڑے کے ہر بحری جہاز کے عرشے پر ہی لاد دیا گیا ۔۔۔۔ نتیجتاً اہلکاروں کو اسے کھلے ، غیر محفوظ کوئلے کے نزدیک رہنے اور اس ماحول میں سانس لینے سے “بلیک لنگ” نامی ایک “معمولی سا” مرض لاحق ہوگیا ۔۔۔۔ ہلاک ہونے والے مریضوں کی تدفین انہیں سمندر برد کرنے کی جاتی رہی 😐
مڈگاسکر تک پہنچتے پہنچتے کوئلے کے اضافی ڈھیر کچھ حد تک کم ہوچکے تھے ، اور شاید ان کی جگہ مزید “کچھ نہ کچھ” لادنا ضروری تھا۔۔۔ اپنے اہلکاروں کا دل بہلانے اور سفر کی ڈیپریشن کو کم کرنے کے لیے ایڈمرل نے سب کو پیشکش کی کہ آپ مڈگاسکر اترنے کے بعد اپنے لیے کوئی پالتو جانور پکڑ کر لا سکتے ہیں مگر اتنا دھیان رکھنا کہ خطرناک جانور جہاز پر نہ لائیں۔۔۔۔
اگلے روز جب مڈگاسکر سے لنگر اٹھایا گیا تو بیڑے کا ہر جہاز طرح طرح کے رنگ برنگے جانوروں پرندوں سے اٹا پڑا تھا کیونکہ ہر اہلکار کچھ نہ کچھ پکڑ ہی لایا تھا ۔۔۔۔ ایک اہلکار تو مگرمچھ بھی لایا تھا اور چند اہلکار زہریلے سانپ۔۔۔۔ ایک مصروف بحری بیڑے پر مگرمچھ اور سانپ رکھنا کوئی اتنا معقول آئیڈیا نہ تھا خاص طور پر تب کہ جب سانپوں کو دھوپ سینکنے کے لیے ڈیک گنز کی بیرل سے لپٹنے کی عادت پڑنے لگی۔۔۔۔یہاں تک کہ گن سے ہٹانے کی کوشش میں ایک سانپ ، افسر کو ڈس گیا۔
لیکن اصل مسئلہ ان بیسیوں کی تعداد میں پکڑے گئے گِرگٹوں کا تھا جو ہر وقت کھو جاتے تھے۔۔۔رنگ بدلنے کی صلاحیت کی وجہ سے ۔
ایک روز ایک بحری جہاز کا فریزر خراب ہوگیا اور انہیں اس میں پڑا سارا گوشت جو اب خراب ہونے لگا تھا اسے سمندر میں پھینکا ہر گیا ۔۔۔ نتیجتاً شارکوں کے غول کے غول امڈ آئے ۔۔۔
ایک روز دوران سفر وفات پاجانے والے ایک اہلکار کی بحری تدفین کے سلسلے میں اسے ایک بحری جہاز سے توپوں کی سلامی دی گئی۔۔۔۔ بدقسمتی سے ایک گولہ کچھ دور موجود اسی بیڑے کے ایک اور بحری جہاز کے عرشے پر جا گرا۔
بےشمار خواریاں اٹھانے کے بعد آخر کار روسی بحری بیڑہ ۔۔۔ کئی مہینوں بعد ۔۔۔ مئی 1905 میں جاپان کی سمندر حدود میں ، آبنائے توشیما تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا ۔۔۔۔ اور اب اسے جاپانی بحریہ کا سامنا کرنا تھا۔
۔۔۔۔۔
معرکہ آبنائے توشیما :
27 مئی کی رات روسی بحری بیڑا آبنائے توشیما میں داخل ہوا ، رات میں دشمن کو اپنی موجودگی سے “بےخبر” رکھنے کے لیے روسی بیڑے کے سبھی بحری جہازوں نے اپنی بتیاں بجھائے رکھنے کا قصد کیا ماسوائے ایک جہاز کے ۔۔۔ تاکہ آبناء میں سفر کرتے جاپانی جہاز ان کی موجودگی سے بےخبر رہیں۔
لیکن۔۔۔۔ اس واحد روشن جہاز نے دیکھا کہ کچھ فاصلے پر ایک اور جہاز کی بتیاں بھی روشن تھیں ۔۔۔ اور ۔۔۔۔ اس طرح دشمن ان کی پوزیشن سے آگاہ ہوسکتا تھا ۔۔۔۔ چنانچہ ۔۔۔ اس بحری جہاز نے دوسرے بحری جہاز کو لائیٹ سگنل دیا کہ
” احتیاط سے کام لو اور بتیاں بجھا لو ، نہیں تو میرے آس پاس موجود دیگر جہاز بھی خطرے میں آجائیں گے ، ہمیں آج کی رات ہر قیمت پر خود کو جاپانیوں کی نگاہ سے پوشیدہ رکھنا ہے۔۔۔۔”۔
اب میں کیسے کہوں کہ اتفاق سے اس نے جس جہاز کو یہ پیغام دیا وہ جاپانی تھا 🤦🏻♀️
چنانچہ اس کے بعد کیا ہونا تھا ۔۔۔؟
جی آپ نے صحیح Guess کیا کچھ ہی دیر بعد آبنائے توشیما لرزہ خیز دھماکوں سے گونج رہی تھی ۔۔۔۔۔ روسی بیڑے کے بحری جہاز رات کی جاپانی بحریہ کا مردانہ وار مقابلہ کررہے تھے یہاں تک کہ انہوں نے 2 دن تک جاری رہنے والی گھمسان کی اس بحری جنگ میں ایک نہیں دو نہیں بلکہ تین عدد جاپانی تارپیڈو بوٹس کو غرقاب کرتے ہوئے سمندر کی سرد گہرائیوں میں دھکیل دیا اور دشمن کے 117 سپاہیوں کو موت کے گھاٹ اتارتے ہوئے یہ سبق سکھا دیا کہ روس سے پنگا بازی کا انجام کیا ہوسکتا ہے۔
دوسری طرف ۔۔۔۔ روس کا نقصان محض 20 بحری جہازوں کی غرقابی ، 4 بحری جہازوں کی گرفتاری ، 5 ہزار 45 اہلکاروں کی موت اور 6 ہزار 16 اہلکاروں کی گرفتاری تک محدود رہا ۔۔۔
اور اس طرح اس احمق بیڑے کے طویل بحری سفر کا اختتام ہوا ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...