سوئے تو مطلع صاف تھا۔ صبح اٹھ کر دیکھا تو ہر شے چھپ چکی تھی۔ درخت، گاڑیاں ، مکان، سب برف سے ڈھکے ہوئے تھے۔ لوگ سوئے رہے اور برف کے گالے اپنا کام کرتے رہے۔
اس مضمون کی ایک انگریزی نظم‘ عرصہ ہوا‘ پڑھی تھی۔ یاد اس لیے آرہی ہے کہ اہلِ پاکستان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اتنا بڑا المیہ… کیسے ہوا، کیونکر ہوا، کچھ خبر نہیں۔ لوگ سوئے رہے اور بدعنوانی، کرپشن، نااہلی کے گالے اپنا کام کرتے رہے۔ گزشتہ ہفتے عدالت عظمیٰ نے احساس دلایا کہ سب کچھ کالک کی پرتوں کے نیچے چھپ چکا ہے۔
کیا اہلِ وطن کو احساس ہے کہ دارالحکومت جو کبھی وجہ افتخار تھا‘ باعثِ ندامت بن چکا ہے۔ کبھی اسے انقرہ اور کینبرا کی صف میں رکھا جاتا تھا۔ یہ ابھی بارہ سال پہلے کی بات ہے جب کینیڈا سے آئے ہوئے ایک صاحب نے تعریف کی کہ چندی گڑھ بھی نیا شہر ہے لیکن صفائی میں اسلام آباد بہت آگے ہے۔ اب کے وہ صاحب پھر آئے تو پریشان اور حیران، ایک عشرے میں اسلام آباد ان سینکڑوں قصبوں کی طرح غلاظت اور بدانتظامی کا گڑھ بن چکا ہے جو ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ گرد کی چادریں پائوں سے سر تک لپٹے ہوئے ۔ اونگھتے اہلکاروں اور بدعنوان افسروں کے رحم و کرم پر۔ چوروں ،ڈاکوئوں ، نقب زنوں، اٹھائی گیروں کے حصار میں۔ مافیا کی مٹھی میں ، قبضہ گروپ کا مافیا، خلق خدا کو پانی کے لیے ترسانے والا ٹینک مافیا، راستوں پر قابض بجری ، سریا، سیمنٹ مافیا، رہائشی علاقوں کو فتح کرنے والا بزنس مافیا۔ ع
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
اب ایک ماتم سرا میں تبدیل ہوچکا ہے۔ راولپنڈی شہر کے بیس لاکھ افراد جس راول ڈیم سے پانی پیتے ہیں، وہ آلائشوں کا محلول بن چکا ہے! ہر سیکٹر کے ڈاکو الگ الگ جتھوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ یہ جتھہ کون سا ہے؟ یہ آئی ایٹ میں ڈاکے ڈالتا ہے! یہ گروہ کون سا ہے؟ یہ ایف الیون میں گھروں میں گھس کر مکینوں کو باندھ کر لوٹتا ہے۔ یہ نوجوان کون ہیں ؟ یہ ایف ٹین سے گاڑیاں اٹھاتے ہیں۔ کوئی مہذب ملک ہوتا تو متعلقہ ادارے کے سربراہ اور کارندوں کو جیل میں ڈال دیا جاتا !
یہ کرۂ ارض کا واحد شہر ہے جہاں پانچ سو مربع گز کا قلعۂ زمین چار کروڑ سے لے کر دس کروڑ روپے تک میں بک رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ کچھ اور ’’ سہولیات‘‘ مفت ملتی ہیں۔ ان ’’سہولیات‘‘ میں گندگی اور جان و مال کا خطرہ سرفہرست ہے۔ پانی کے لیے خود بور کرایئے۔ ڈیڑھ دو لاکھ خرچ کیجیے، نہ نکلے تو دوسرا بور ٹرائی کیجیے، حفاظت کے لیے گلی میں الگ اور مکان پر پہرہ دینے والا چوکیدار الگ رکھیے۔ سیوریج کی غلاظت والا پائپ پانی کے پائپ سے جُڑ گیا ہے تو خود ازالہ کیجیے۔ پوری گلی گیس سے بھر گئی ہے تو جتنے فون چاہیں کر لیجیے، جواب ایک ہی ہے کہ صاحب ! گھبرائیے نہیں ! گیس اوپر کو جارہی ہے! ایک وقت تھا کہ گوجرانوالہ کو ایشیا کا غلیظ ترین شہر کہا گیا تھا۔ گوجرانوالہ کے شہریوں کو چاہیے کہ اسلام آباد آئیں، ترقیاتی ادارے کے سربراہ اور چیف کمشنر دونوں کو گھومتی کرسیوں سے اٹھائیں، نہ اٹھیں تو کالروں اور نکٹائیوں سے پکڑ کر کھینچ کر اٹھائیں ، صرف میلوڈی مارکیٹ میں لے جائیں اور پوچھیں کہ کیا اس سے زیادہ غلاظت کہیں پائی جاتی ہے؟ یہ جو نو دن پہلے یکم اکتوبر کو سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ
’’ سی ڈی اے ترقیاتی ادارہ نہیں‘ اب کیپیٹل ڈسٹرکشن اتھارٹی بن چکا ہے‘‘
تو یہ ایک ایسا ریمارک ہے جس سے پورے ملک میں صف ماتم بچھ جانی چاہیے تھی، استعفیٰ نہیں ، استعفے پیش کردینے چاہئیں تھے ، وسیع پیمانے پر بیورو کریسی میں اکھاڑ پچھاڑ رونما ہونی چاہیے تھی، لیکن سماعتیں سلب ہوچکی ہیں‘ آنکھوں پر پردے پڑ چکے ہیں۔ عزت نفس کو عرصہ ہوا علاقے میں کسی نے نہیں دیکھا۔ قومی غیرت اس بھکاری کی غیرت سے زیادہ نہیں رہی جو چوک پر ہر گاڑی کے پاس ہاتھ پھیلاتا ہے، کوئی جھڑکتا ہے، کوئی شیشہ اوپر کردیتا ہے، کوئی نفرت کے اظہار کا کوئی اور اسلوب اپناتا ہے لیکن بھکاری کے لیے یہ سب معمول کی کارروائی ہے۔ اس نے اسی طرح زندگی گزارنی ہے۔ یہی کچھ کرنا ہے۔
کیا سپریم کورٹ کے اس ریمارک کے بعد ترقیاتی ادارے کے سربراہ اور چیف کمشنر صاحب اپنے اپنے دفتروں سے اٹھے اور آدھی آدھی رات تک شہر میں پھرتے رہے ؟ کیا کوئی پالیسی تبدیل ہوئی؟ کیا کوئی نئی حکمت عملی وضع کی گئی؟ کیا کوئی ٹارگٹ مقرر کیاگیا ؟ کیا کچھ برطرفیاں ہوئیں ؟ کیا کوئی بھونچال آیا ؟ کیا کچھ تبدیلیاں رونما ہوئیں ؟ جس شہر میں وزیراعظم کے دفتر سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر بڑی بڑی شاہراہوں پر ، رات دن مویشی، جی ہاں ، بھینسیں ، گائیں ، بکریاں ، بیل دندناتے پھر رہے ہوں… اور کسی ادارے ، کسی سربراہ ، کسی اہلکار، کسی کارندے کو کچھ فرق نہ پڑے وہ شہر ایک قوم کی نااہلی اور ایک حکومت کی نالائقی کی علامت نہ قرار پائے تو کوئی ہے جو ٹیکس دہندگان کو اعدادو شمار فراہم کرے کہ ایک ماہ میں ترقیاتی ادارے اور چیف کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے سیٹ اپ کی تنخواہوں پر کتنا روپیہ صرف ہورہا ہے؟ کتنی گاڑیاں سرکار کے خرچ پر بھاگ رہی ہیں ؟ ایک ماہ کا پٹرول کا کتنا خرچ ہے؟ … اور کچھ نہیں۔صرف تین آئٹم… اول: تنخواہوں کی کل رقم ۔ دوم : گاڑیوں کی تعداد اور سوم: پٹرول کے ماہانہ اخراجات ؟ اور ساتھ ہی یہ بھی کہ ایک ماہ میں شہریوں کی کتنی گاڑیاں چوری ہوئیں، ڈاکے کتنے پڑے۔
گزشتہ تیس دن کے اندر پانی کے لیے شہریوں نے کتنے نئے بور کرائے ؟ شہر میں کل کتنے نجی بور کام کررہے ہیں؟ ترقیاتی ادارے میں پانی کا ایک الگ بہت بڑا شعبہ ہے، وہ کیا کررہا ہے ؟ پرائیویٹ ٹینکر جو پندرہ پندرہ سو ، دو دو ہزار روپے لے رہے ہیں، پانی کہاں سے لارہے ہیں ؟ دارالحکومت کے گلی کوچوں گھروں میں کتنے پہریدار گارڈ، چوکیدار، ٹیکس دہندگان نے اپنے خرچ پر رکھے ہوئے ہیں ؟ کوئی ہے جو یہ اعدادو شمار فراہم کرے ؟ کوئی ہے جو یہ بتائے کہ یہ جو دارالحکومت کے عین درمیان میں ’’ جی ، بارہ ‘‘ کے نام سے مبنی وزیرستان اور منی افغانستان بنایا گیا ہے، اس کی پشت پر کون سی مصلحت تھی ؟ کس کے حکم سے یہ علاقہ نو مین لینڈ قرار دیاگیا تھا؟ وہاں کون سا قانون چلتا ہے اور کس کس کی جائیداد وہاں یوں محفوظ ہے جیسے بتیس دانتوں میں زبان ؟
مودی ہمارا دشمن ہے۔ ہم کیوں مانیں کہ گجرات کو اس نے کیا بنا دیا؟ لیکن احمدی نژاد تو ہمارا اپنا مسلمان بھائی ہے۔ دنیا بھر کی یہودی اور نصرانی تنظیموں نے‘ جب وہ تہران کا میئر تھا‘ اسے دنیا کے بہترین میئرز میں شمار کیا تھا۔ اللہ کے بندو ! اسے بلالو۔ وہ ایک معمولی تنخواہ پر یونیورسٹی میں پڑھا رہا ہے۔ بس میں کھڑے ہوکر سفر کرتا ہے۔ وہ تم سے زیادہ معاوضہ بھی طلب نہیں کرے گا۔ ایک سال کے لیے دارالحکومت کو اس کے حوالے کردو۔ کیا عجب ڈسٹرکشن اتھارٹی ایک بار پھر ترقیاتی اتھارٹی بن جائے !!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“