احمد شاہ ابدالی 1747 ء میں 20 سال کی عمر میں افغانستان کی سلطنت قائم کرکے بادشاہ بن گیا تھا۔ چڑھتی عمر اور اقتدار کے نشہ کی وجہ سے اپنا راج بڑھانے کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔ احمد شاہ ابدالی کی تیز نگاہ پنجاب پر مرکوز ھوئی۔ اس کے جاسوس کاروبار کے بہانے پنجاب سے سارے راز لے جاتے تھے۔ احمد شاہ ابدالی نے جارح اور لٹیرا بن کر پنجاب پر 1748 ء سے لیکر 1767 ء تک 8 حملے کیے لیکن 1762 ء سے لیکر 1767 ء تک کے تین حملے خصوصی طور پر سکھوں کو ختم کرنے کے لیے کیے گئے۔ احمد شاہ ابدالی جب دلی ’ کرنال ’ پانی پت ’ متھرا اور آگرہ سے سونا ’ چاندی ’ مال و اسباب لوٹ کر بہنوں ’ بیٹیوں کو ریوڑ کی طرح اپنے سپاھیوں کے آگے ھانک دیتا تھا تو اس وقت ھندو مورتیوں کے آگے ھاتھ جوڑے آرتیاں ھی کرتے رہ جاتے اور بہنوں ‘ بیٹیوں کے سودے ھو جاتے تھے۔ جبکہ مسلمانوں میں سے بہت سے احمد شاہ ابدالی کے ساتھ ملے ھوئے تھے۔ اس دور میں پنجاب میں خوب لوٹ مار کا بازار گرم ھوا۔ احمد شاہ ابدالی کے سپاھی گھروں میں سے جہاں بھی دانے اور گہنے ملتے لے جاتے تھے۔ اس کیفت پر بابا بلھے شاہ نے اس طرح تبصرہ کیا۔ در کھلیا حشر عذاب دا ۔ برا حال ھویا پنجاب دا۔ پنجاب میں یہ کہاوت بن گئی تھی “کھادھا پیتا لاھے دا ’ باقی احمد شاھے دا” یعنی جو کچھ کھا پی لیا وھی غنیمت ھے باقی تو احمد شاہ لے جائے گا۔ بابا بلھے شاہ نے اس دور کا نقشہ یوں کیھنچا۔ مغلاں زھرپیالے پیتے ۔ بھوریا والے راج کیتے۔ سب اشراف پھرن چپ چپیتے۔
اگر پٹھانوں کو کوئی للکارتے تھے تو وہ سکھ تھے۔ سکھوں کی ٹکر جب پٹھانوں سے ھوجاتی تو وہ ان سے لڑکیوں کو آزاد کرا کے اُن کے گھروں ' گاؤں چھوڑ آتے تھے۔ لوٹ کا مال اور گھوڑے خود رکھ لیتے تھے۔ سکھوں سے پٹھان بھاگتے تھے۔ سکھوں نے پنجاب دیس کو لوٹنے والے پٹھانوں کو ان کے گھر جا کر بھی مارا۔ سکھوں نے پنجاب کے کافی علاقے پر قبضہ کر لیا اور پنجاب میں سکھوں کا سکہ چلنا شروع ھو گیا۔ عام لوگ سُکھی ھو گئے لیکن یہ سب زیادہ دیر نہ چل سکا۔ احمد شاہ ابدالی کو اس چڑھتی کلا کی خبر ھو گئی اور اس نے نور الدین کی قیادت میں پنجاب کی طرف ایک پھرتیلی فوج روانہ کی۔ یہاں پہنچتے ھی اس کا ٹاکرا چناب کے کنارے چڑھت سنگھ سکرچکیا سے ھوا۔ سکھوں نے احمد شاہ ابدالی کا زبردست دستہ گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا۔ پٹھانوں کے ھاتھ پاؤں پھول گئے۔ کچھ بھاگ کر واپس ھو گئے اور جو باقی بچے ان کے لیے وقت گزارنا مشکل ھو گیا۔ سرھند کا کمانڈر جین خاں جو اپنے آپ کو کافی چست اور بہادر کہلواتا تھا۔ اسے اپنی کرسی کا خطرہ لاحق ھو گیا تھا۔ اس کی سکھوں سے نہیں بنتی تھی اور وہ چاھتا تھا کہ احمد شاہ ابدالی جلد از جلد سکھوں پر حملہ کر دے۔ لیکن سکھوں کو سچے لیڈر مل گئے اور یہ روز افزوں ترقی کرنے لگے۔
دل خالصہ کی تنظیم اس دور میں ھوئی جس میں پانچ جتھے شامل تھے۔ اس دور میں راکھی سسٹم رائج کیا گیا اور جو خاندان راکھی سسٹم کے ذریعے بھائی چارہ قائم کرلیتے جتھے اسے تحفظ فراھم کرتے۔ 1757 ء میں احمد شاہ ابدالی نے پنجاب کے الحاق کا فیصلہ کر لیا اور اپنے بیٹے تیمورشاہ کو لاھور’ سرھند ' دوابہ بست جالندھر’ کشمیر اور ملتان کا گورنر مقرر کرکے تمام شہروں میں اس کے نائب مقرر کردیے۔ یہ زمانہ سکھوں کی قتل و غارت گری کا تھا۔ امرتسر پر حملہ کرکے سکھوں کی قوت کو منتشر کردیا گیا اور ان کی مقدس عمارتوں کو ڈھا دیا گیا۔ سکھ جموں کی طرف بھاگ گئے۔ احمدشاہ ابدالی جب واپس لوٹا تو ایک سکھ سردار دیپ سنگھ نے ھزاروں سکھوں کی معیت میں امرتسر واپس لینے کی کوشش کی لیکن جہاں خان کے ھاتھوں پانچوں جتھہ داروں سیمت قتل ھو گیا۔ پورے صوبے میں سکھوں کے خلاف سخت کارروائی کے باوجود سکھوں کی قوت کا خاتمہ نہ ھو سکا۔ 1761 ء میں پانی پت کی تیسری لڑائی سے پہلے جالندھر دوآبہ کے ارائیں حاکم ادینہ بیگ خان نے سکھوں کو منظم کرنا شروع کردیا جو مرھٹوں اور سکھوں کے تعاون سے احمدشاہ ابدالی کے بیٹے تیمور شاہ کو ھٹا کر خود پنجاب کا حکمران بننا چاھتا تھا۔
ادینہ بیگ خان کو سکھ سرداروں چڑھت سنگھ سکر چکیہ ‘ جسا سنگھ اہلو والیہ ’ جسا سنگھ رام گٹرھیا ' ھری سنگھ ’ منا سنگھ ‘ گوجر سنگھ اور جھنڈا سنگھ کی حمایت حاصل تھی۔ مرھٹے پنجاب میں جم نہ سکے اور 1758 ء میں ادینہ بیگ خان پنجاب پرقابض ھو گیا لیکن ھیضہ کی بیماری کی وجہ سے 48 سال کی عمر میں ادینہ بیگ خان کا انتقال ھوگیا تو 1759 ء میں احمد شاہ ابدالی نے پوری قوت کیساتھ پھر سے پنجاب پر حملہ کیا اور پنجاب پر قبضہ کرلیا۔ 1761 ء میں پانی پت کی تیسری لڑائی میں احمد شاہ ابدالی نے مرھٹوں کو شکست دے دی۔ سکھ پہاڑو ں میں چھپ گئے اور مناسب وقت کا انتظار کرتے رھے۔ احمد شاہ ابدالی کی واپسی کے بعد سکھوں نے اپنے پہاڑی مورچوں سے نکل کر پھر حملے شروع کر دیے۔ 1761 ء کی دیوالی سکھوں نے دھوم دھام سے منائی۔ سری امرتسر میں سردار جسا سنگھ آھلووالیا کی صدارت میں میٹنگ ھوئی۔ گرمتے پاس ھوئے ’ سکھ قوم کی چڑھتی کلا کے لیے سوچ و بچار ھوئی۔ ھر مذھب کو پھلنے پھولنے میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی ‘ مخبروں کے لیے سزائیں تجویز کی گئیں۔ سب سے بڑا مخبر جنڈیالہ کا آکل داس تھا۔ جس نے کئی نوجوان شہید کروائے تھے۔ سکھ کارروائیوں کی ساری رپورٹ احمد شاہ ابدالی تک جاتی تھی۔ سکھوں نے جنڈیالہ جا کر آکل داس کو گھر سے باھر نکال لیا۔ جب اس سے پوچھا گیا تو منت سماجت کرنے لگا کہ آئندہ ایسا نہیں کروں گا اور اس بات کی قسم کھائی۔ سکھوں نے ترس کھا کر آکل داس کو چھوڑ دیا لیکن آکل داس نے خالصہ پنتھ کو ڈنک مارا۔
1762 ء میں جین خاں نے آکل داس کے ساتھ مل کے احمد شاہ ابدالی کو پیغام بھیجا۔ احمد شاہ ابدالی رات کے اندھیرے میں پٹی آیا۔ جین خاں اور آکل داس کے ساتھ میٹنگ کی۔ پٹھان جین خاں اپنے دکھ رونے لگا “شاہ جی’ سکھوں نے تو ھمارا جینا دو بھر کر دیا ھے۔ ھمیں یہاں سے لے چلو۔ ھم تنگ ھیں۔ ھمیں سکھوں سے ڈر لگتا ھے۔” احمد شاہ ابدالی اپنے معتبر آدمیوں کو ساودھان کر کے چلا گیا۔ بھیکھم شاہ ملیرکوٹلا ’ جین خاں سرہند ’ شاہ حسین رائیکوٹ اور دیگر خانوں نے سکھوں پر نظر رکھنی شروع کر دی۔ آکل داس مخبر نے پہلے ھی جال بچھایا ھوا تھا۔ سکھوں کو پتہ چل گیا کہ ابدالی بہت بڑی فوج لے کر آرھا ھے اور یہ جنگ صرف سکھوں سے ھی ھوگی۔ یہ احمد شاہ ابدالی کا چھٹا حملہ تھا۔ اس بار احمد شاہ ابدالی اور اس کے کاسہ لیس جرنیلوں اور کمانداروں کے حوصلے بہت بلند تھے۔ کیونکہ ایک سال پہلے 1761 ء میں ان لوگوں نے بہادر کہلوانے والے مرھٹوں کو پانی پت کے میدان میں شکست دی تھی۔ لیکن جن لوگوں نے سکھوں کی بہادری دیکھی ھوئی تھی وہ اندر سے خوفزدہ ضرور تھے۔ گوجر وال اور برنالہ کے درمیان لودھیانہ سے پچیس میل کے فاصلے پر ایک جنگ میں ھزاروں سکھ قتل کیے گئے۔ سکھ اس جگہ کو گہلو گھاڑہ (قتل عام کی جگہ ) کے نام سے یاد کرتے ھیں۔
سکھ سرداروں نے میٹنگ کی جس میں طے پایا کہ جو بچے’ بوڑھے اور عورتیں ھیں انہیں بیکانیر کے جنگل میں چھوڑا جائے اور ھتھیار آگے کسی مقام پر ٹھکانے لگائے جائیں اور نئے سرے سے جنگ کی بھرپور تیاری کی جائے۔ جتھے دار جسا سنگھ آھلووالیا کہنے لگا “ سکھو ! اس ابدالی کو ایسا سبق سکھانا کہ پھر ھمارے پنجاب کی طرف آنکھ نہ اٹھا سکے۔ اس کی زیادہ فوج کچھ بھی نہیں کرسکتی۔“ پیغام ملنے پر تمام خالصہ جگہ جگہ سے ایک مقام پر اکٹھے ھو گئے۔ خالصہ لشکر دریائے ستلج پار کر کے جگراؤں شہر پار کر کے سدھار’ آنڈلو اور جڑاھاں وغیرہ دیہاتوں سے ھوتا ھوا احمد گڑھ منڈی کے قریب شام تک پہنچ گیا۔ آگے رات گزارنی تھی۔ جتھے داروں نے جندالی گاؤں سے آگے رھیڑہ گاؤں کے نزدیک ایک جگہ دیکھی۔ جہاں سرکڑا کے درخت اور کیسو کے پودے بہت تھے۔ سارا خالصہ دل اسی جگہ اکٹھا ھو گیا۔ مخبر ستلج سے ھی پیچھے لگے ھوئے تھے۔
پہلی رات کو آکل داس کی مخبری کی خبر سن کے جین خاں 2000 گھوڑ سوار اور 3000 پیدل نوجوان اور توپ خانہ لے کر کپّ نیڑے آ گیا۔ نواب ملیرکوٹلا بھی اپنی فوج لے کے آ گیا۔ کچھ وقت بعد ھی لدھیانہ کی طرف سے احمد شاہ ابدالی بھی جنڈالی کے قریب آ گیا۔ احمد شاہ ابدالی کی فوج قریب تھی جو کئی دیہاتوں کے علاقے میں ھڑبونگ مچائے ھوئے تھی۔ احمد شاہ ابدالی کی میٹنگ جین خاں ’ بھیکھم شاہ ’ شاہ حسین اور اپنی فوج کے کمانڈروں اور جرنیلوں کے ساتھ ھوئی۔ پہلا مشورہ پاس ھوا کہ فوج اس علاقے کی معلومات اور سکھوں کی تعداد کے بارے میں جانکاری حاصل کرے۔ مشورہ یہ ھوا کہ سویرے 2 گھنٹوں میں سکھوں کو ختم کردیا جائے تاکہ پھر کوئی سکھ سر نہ اٹھائے۔ سکھ لشکر کو تین اطراف سے گھیر لیا گیا۔ چھاپامار ڈھنگ سے فوج ایک دوسرے کے ساتھ جڑ گئی۔ سکھوں کو اس کارروائی کا بالکل پتہ نہ لگا۔ سکھ سمجھ رھے تھے کہ احمد شاہ ابدالی 4-5 دنوں تک ان کے قریب آئے گا۔ احمد شاہ ابدالی کے سپاھیوں نے لال رنگ کی وردی پہنی ھوئی تھی۔ اُدھر کیسو کے پودوں میں لال رنگ کے پھول تھے۔ اس وجہ سے بھی سکھ مات کھا گئے کہ سمجھ نہ سکے تھے۔ سکھ بے فکر ھو کر سو گئے۔ کچھ ادھر ادھر پہرہ دینے لگے۔ سکھ 4 بجے اٹھے اور جانوروں کو گھاس چارہ وغیرہ دینے لگے تو جین خاں کے کمانڈر لسی رام سرھند نے ملیرکوٹلے والی طرف سے اچانک حملہ کر دیا۔ پہلے تو سکھوں نے کافی نقصان اٹھایا لیکن جلد ھی سنبھل گئے اور اپنے جتھے داروں کی قیادت میں ایک طوفان کی طرح اٹھے اور جو بھی اسلحہ ھاتھ لگا اسی سے مقابلہ شروع کر دیا اور احمد شاہ ابدالی کا حملہ پسپا ھوگیا۔
1764 ء میں احمد شاہ ابدالی نے سکھوں کی بڑھتی ھوئی طاقت کو کچلنے کے لیے ایک دفعہ پھر پنجاب پر حملہ کر دیا۔ بعد ازاں احمد شاہ ابدالی نے پنجاب پر دو مزید حملے کیے اور 1773 ء میں احمد شاہ ابدالی کے انتقال کے بعد 1798 ء میں احمد شاہ ابدالی کے پوتے شاہ زمان نے لاھور پر آخری حملہ کیا لیکن پٹھانوں کی گرفت کمزور ھونے پر سکھوں نے جگہ جگہ حملے شروع کر دیے۔ اس زمانے میں سکھوں نے اپنی تنظیم نو کی اور بارہ مثلیں قائم کیں۔ سکھوں کی طاقت میں اضافہ ھوا۔ بعد ازاں 1799 ء میں انیس برس کی عمر میں رنجیت سنگھ کی حکومت لاھور میں قائم ھوئی۔ تین سال بعد 1802ء میں مھاراجہ رنجیت سنگھ نے امرتسر فتح کیا۔ چند برسوں میں مھاراجہ رنجیت سنگھ نے ستلج تک قبضہ کر لیا۔ پھر دریائے ستلج کو پار کرکے لدھیانہ پر بھی قبضہ کر لیا۔ لارڈ منٹو مھاراجہ رنجیت سنگھ کی اس پیش قدمی کو انگریزی مفاد کے خلاف سمجھتا تھا۔ چنانچہ 1809ء میں عہد نامہ امرتسر کی رو سے دریائے ستلج مھاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت کی جنوبی حد قرار پایا۔ اب مھاراجہ رنجیت سنگھ کا رخ شمال مغرب کی طرف ھوا اور لگاتار لڑائیوں کے بعد مھاراجہ رنجیت سنگھ نے اٹک ‘ ملتان ‘ کشمیر ‘ ہزارہ ‘ بنوں ‘ ڈیرہ جات اور پشاور فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے اور مھاراجہ رنجیت سنگھ ھریانہ سے پشاور ' ملتان سے کشمیر تک کے علاقے کا طاقتور ترین حکمران بن گیا۔ مھاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت پچاس سال تک قائم رھی۔