تاریخ ولادت :20نومبر 1916۔۔-۔۔ تاریخ وفات :10جولائی 2006
احمد ندیم قاسمی نے اردو ادب کے قافلہ سالار کی حیثیت سے جوطویل سفرطے کیا، اس کے نقوش بڑے اَن مٹ اور گہرے ہیں ۔وہ کئی نسلوں کواپنی سربراہی میں لے کر چلے اورقدم قدم پر ان کی رہنمائی کی۔ ان کی ادبی شخصیت کے بہت سے رنگ ہیں ۔ خدمات کادائرہ بھی کئی جہتوں میں پھیلا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔احمد ندیم قاسمی محض فنون کے دلدادہ ہی نہیں بلکہ ادبی جریدے” فنون “کے بانی ایڈیٹر بھی تھے ۔وہ اس جریدے کےذریعے بہت سے شاعروں ،ادیبوں ، نقادوں اوردانشوروں کوادبی دنیامیں لائے ۔اورانہیں پہچان دلانے میں قابل ستائش کردار ادا کیا۔اگر وہ ایسا نہ کرتے تو آج آسمان ِ ادب پر جو بہت سے ستارے جھلملارہے ہیں ، وہ کبھی روشنیاں نہ بکھیر رہے ہوتے ۔ سلام ہے ان کی صاحبزادی محترمہ ناہید قاسمی اور
محترم نیّر حیات فرزند ناہید قاسمی کو جنہوں نے احمد ندیم قاسمی صاحب کے جاری کردہ فنون کی از سرِ نواشاعت کا سلسلہ شاندار انداز میں جاری رکھا ہواہے۔یہ دونوں ماں بیٹے احمد ندیم قاسمی کےادبی اور تہذیبی وارث ہیں اور ان کی روایات کو آگے بڑھانے کیلئےسرگرم ِ عمل ہیں ۔آپ ان دونوں میں سے کسی سے بھی ملیں توان کے رویوں میں احمد ندیم قاسمی کارکھ رکھاءو جھانکتا ہوا نظر آتاہے ۔
احمد ندیم قاسمی ایک شفیق انسان اوراپنی ذات میں ایک جہان تھے ۔ان کی امتیازی صفات اور خصوصیات کےکیاکہنے ۔سوز و گداز سے بھرپور لب و لہجے کے شاعر ، معروف ادیب، دیدہ ور تنقیدنگار ، فسوں کا رافسانہ نویس ، محفلوں کی آن بان اور شان اورمیرے والد محترم سید فخرالدین بلے کی قائم کردہ ادبی تنظیم ” قافلے “کے پڑاؤ کی جان احمد ندیم قاسمی کوہم سےجدا ہوئے برسوں بیت گئے ۔جب بھی جولائی یا نومبر کا مہینہ آتا ہے ،ان کی یادوں کا اجالا بھی میرے چاروں اور ہی نہیں پوری دنیائےادب میں پھیل جاتا ہے۔ وہ 20نومبر کو پیدا ہوئے اور جولائی کی 10ویں تاریخ کو یہ آفتاب ڈوب کر ادبی افق پر شفق کے تمام رنگ چھوڑ گیا۔ آج میں ان رنگوں کے ساتھ ہی ان کی زندگی اور کارناموں کی کچھ تصویریں بنا کر آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ احمد ندیم قاسمی ایک شخصیت تھے ہی نہیں ، وہ تو ایک پوری ادبی دنیا تھے۔ ان کےاندرکاشاعر کبھی اپنے جلوے دکھاتاتھا۔ کبھی ان کے اندر کا ادیب کسی بھی موضوع پر قلم اٹھاتا تھا۔کبھی کالم نگار جاگ اٹھتا تھا۔ کبھی افسانہ نویس انسانی معاشرے کی دکھتی نبض پرہاتھ رکھ کر آنے والے قدموں کی چاپ پہلے سے سن لیاکرتاتھا اور ان کاتازہ افسانہ پڑھ کر ادبی قارئین پر بھی فردا کا منظر نامہ روشن ہوجایا کرتا تھا۔ احمد ندیم قاسمی کے اندر کا ڈراما نگار بھی تہلکہ مچانے پر تلا رہتاتھا ، انہوں نے بہت سے ڈرامے لکھ کرداد ضرور سمیٹی لیکن پھر اپنے اندر کےڈراما نگار کوسلادیاتھا ۔ وہ ٹی وی ڈراموں کی کمرشل ضروریات پورا کرنے کیلئے اپنی سوچ سے کوئی سودا نہیں کرناچاہتے تھے ۔ احمد ندیم قاسمی ایک گھنا اور چھتنا رپیڑ تھے ۔ نئی نسل کو مستقل چھاءوں مہیا کی ۔ ادبی دنیا میں نئے چہروں کو متعارف ہی نہیں کرایا ،بلکہ نوجوان ادیبوں اور شاعروں کی انگلی تھام کر انہیں گھٹنوں گھٹنوں چلاتے بھی نظرآئے۔کون کہتاہے کہ آدھی صدی سے زیادہ عرصے تک انہوں نے ادبی دنیا پر راج کیا۔نہیں ایسا نہیں ہے۔ان کاراج ختم نہیں ہوا۔ وہ مسلسل پانچ چھے عشروں تک ادبی محفلوں کی جان بنے رہے۔ صدارت کی کرسی پر ہوتے یا مہمان خصوصی کی نشست پر براجمان نظر آتے ۔وہ تو آج بھی اپنے چاہنے والوں کے دلوں پرحکمرانی کررہے ہیں ۔ فنون ایک رسالہ نہیں ایک تربیتی ادارہ بھی تھا ۔نسل ِ نو کیلئے ایک دبستان تھا ، پاکستان اور بھارت کے ادب دوستوں کیلئے انہوں نے اس پلیٹ فارم سے ادب کی ترویج و ترقی کیلئے جوگراں قدر کام کیا، وہ ہماری ادبی تاریخ کا ایک روشن باب ہے ۔ ہمارے گھران کا بڑا آنا جانا رہا۔ان کے کئی انٹرویو بھی کئے ۔خط و کتابت بھی رہی ۔ ان کے کئی یادگار خطوط میرا سرمایہ ہیں ۔ ان کے ذکر خیر نے میری یادوں کی بہت سی کھڑکیاں کھول دی ہیں ۔ بہت سے مناظر آنکھوں کے سامنے آکر تازہ ہوگئے ہیں ۔ میں انہیں کیسے بھلا سکتا ہوں؟ جو ہمارے خاندان کے ہردکھ سکھ میں شریک رہے۔ قدم قدم پر حوصلہ بڑھایا اور اپنی رفاقتوں کا یقین دلایا۔یادوں کے دریچے کھلتے ہی بیتے مناظر ایک ایک کرکے میری آنکھوں کے سامنے آرہے ہیں ۔ آپ کو بھی میں ان یادوں میں شریک کررہاہوں ۔ان کی یادوں کےقافلے نے میرے ساتھ پڑاؤ ڈالا ہے تو میں آپ کو بھی اس میں شامل کرنا چاہتا ہوں
29 جنوری 2004 صبح کے آٹھ ، نو بج رہے ہو نگے۔ بے شمار فون کالز آرہی تھیں ۔انہی میں سے ایک منصورہ احمد کی بھی تھی۔ با با سائیں یعنی میرے والد بزرگوار سید فخرالدین بلے کی رحلت پر تعز یت فر ما ئی اور کہا بابا کو بہت دکھ ہوا ہے ۔ وہ آپ سے با ت کرنے کے لئے بہت بے چین ہیں۔ آپ سے بات کرواتی ہوں ۔ مجھے آپ کی کفیت کا بھی بخو بی اندازہ ہے مگر کیا کروں۔ اُدھر آپ پر یہ قیامت ٹوٹی ہے ادھر با با کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے مگر اپنی طبیعت سے زیا دہ اس وقت انہیں آپ لوگو ں کی فکر ہے۔ اور وہ فو ری طو ر پر ملتان کے لئے روانہ ہونا چا ہتے ہیں۔ لیکن شاید آپ کےسمجھانے سے سمجھ جائیں ۔میں نے عر ض کیا آپ با با (احمد ند یم قاسمی صا حب ) سے با ت کروائیے۔خیر احمد ندیم قا سمی صا حب سے با ت ہو ئی۔ انہوں نے بھر پو ر اند از مں تعزیت فر ما ئی اور صبر و حو صلے کی دعا ئیں دیں ۔ ان کی ادبی ،صحافتی اورثقافتی خدمات کو تحسینی کلمات پیش کرتے ہوئے ان کی آواز بھراسی گئی ۔پھر فر مایا۔ بے فکر رہیے۔ایک ،دو بجے تک میں ملتان پہنچ جا ئوں گا ۔میں نے عر ض کیا کہ ند یم صا حب ہم لو گ ڈیڑھ دو بجے تک نما ز جنا زہ ادا کر تے ہی تد فین کے لئے بہا ولپو ر روانہ ہو جا ئیں گے ۔انہو ں نےیہ سنتے ہی فر مایا کہ ٹھیکہے ۔ میں براہ راست بہا ولپور پہنچ جاٶں گا اور وہاں ادا ہونے والی نماز جنا زہ میں شر کت کرلوں گا ۔میں نےعرض کیا کہ آپ کی آوازسے آپ کی طبیعت اور دمے کی سی کیفیت کا خوب اندازہ ہو رہا ہے۔ لہذا خدارا۔ ہم پر رحم فر مائیں ۔ اللہ نہ کرے۔ اس شدیدسردموسم میں طبیعت بگڑ گئی تو کیاہو گا ؟اور دوسر ی با ت یہ کہ مو ٹر وے بند پڑے ہیں ۔ ٹر ینیں تا خیرسے پہنچ رہی ہیں ۔دُھند اس قدرشدید ہے کہ فلا ئٹس لینڈ نہیں کر پا رہیں ۔میری آپ سے التجا ہے کہ آپ اس وقت سفر کا ارادہ تر ک فر ما دیں ۔ منت سما جت کے بعد وہ اس با ت کے لئے راضی تو ہو گئے مگر اس کے بعد مسلسل فو ن پر رابطے کا سلسلہ جا ری رکھا ۔پل پل کی خبر رکھی اور یہی فر ما تے رہے کہ میں یہ نہیں چاہتا کہ پریشا نی اور دکھ کے ان لمحا ت میں آپ کو یہ احسا س ہو کہ میں آپ سے دور ہو ں یا وہاں مو جو د نہیں ہوں ۔
دنیا جانتی ہے کہ میرے والد نے ایک ادبی اور ثقافتی تنظیم قا فلہ بھی بنارکھی تھی ،اس کے زیر اہتما م دو مر تبہ جشن احمد ندیم قا سمی انتہا ئی شا ند ار طر یقے سے منا یا گیا۔ 74 ویں جشن ِ وِلا ت کے مو قع پر ان کی طبیعت نا سا ز تھی اور ہا تھ پر پلا سٹر چڑھا ہوا تھا ۔ مگر کیو نکہ وہ میرے اور افتخا ر ایلی کے اصر ار پر حا می بھر چکے تھے، لہذاعلا لت کے با وجو د بھی انہوں نے اپنی آمد کو یقینی بنا یا ۔کلیم عثما نی ،ڈاکٹر سلیم اختر ،بید ار سر مد ی ،اسلم کما ل ، امجد اسلا م امجد ، عطا ءالحق قا سمی ، اسر ار زید ی ‘ سر فراز سید ،شہزاد احمد شہزاد اور فخر الد ین بلے نے احمدند یم قا سمی کی ادبی خدما ت کوسراہتے ہوئے ان کے ادبی معر کو ں کا بھی ذکر کیا۔ اس مو قع پر ان کی زیر ادارت شا ئع ہو نے والے ادبی رسا ئل و جرائد کو بھی مو ضو ع بنا یاگیا۔ 78واں جشنِ احمد ند یم قا سمی بھی “قا فلہ “کے زیر اہتما م منا یاگیا۔جوبلاشبہ کئی اعتبا ر سے حد درجہ یا د گاربلکہ شاندار رہا۔جب احمد ند یم قا سمی صا حب کو کیک کا ٹنے کےلئے بلا یا گیا تو بر ادر محتر م خا لد احمد گویا ہو ئے ۔ ظفر معین یہ کیک کے اوپر تحر یر کر دہ شعر کیا آپ کا ہے ۔
اللہ ان کا سا یہ سلا مت رکھے سد ا
اب خیر سے ند یم 78بر س کے ہیں
میں نے کہا “جی ہا ں ۔میرا ہے تو خا لد احمد نے کہا کہ اللہ قا سمی صا حب کا سا یہ ہمیشہ ہمیشہ سلامت رکھے ۔یہ شعر ہر بر س ہندسو ں کی تبد یلی کےسا تھ نیا ہو جا ئے گا بلکہ تا زہ کہیے!میں نے جو اباً عر ض کیا کہ با با کو پیش کرنے کےلئے منظو م خر اج کی کو ئی کمی تو نہیں ۔برادر محترم خا لد احمد نے کہا کچھ اوربھی سنا ئیے۔اس فرما ئش پرمیں نے اپنا ایک شعر سنا یا
تمہا رے دو رمیں غا لب و میر وذوق تھے بس
ہما رے عہد میں احمد ند یم قا سمی ہیں
قافلے کے اس پڑاؤ میں احمد ندیم قاسمی صاحب کی شخصیت ، فن اور خدمات کے بہت سے پہلواجاگر کئے گئے ۔شرکاء نے انہیں بھرپور انداز میں خراج عقیدت و محبت پیش کیا۔ بڑی خوش گپیاں بھی ہوئیں ۔ بہت سے چٹکلے چھوڑے گئے ۔مہمان جی اٹھے ۔تقر یب کے اختتام پر نا ہید قا سمی صا حبہ نے مجھے مخا طب کرکے کہا “ظفر بھا ئی آج میں نے زند گی میں پہلی مر تبہ مسلسل 5 گھنٹے بابا کے سا منے بیٹھ کر ان سے ان کا کلا م سنا ہے۔ اس کا کریڈٹ آپ کو جا تا ہے ۔ میں نے عر ض کیا نا ہید با جی ۔ اس کا کر یڈ ٹ بابا کے سبھی چا ہنے والوں کو جا تا ہے کہ جو یہاں موجود ہیں ۔یہ سبھی آج بابا کو سننا چا ہتے تھے اور با با نے اسی لئے افسا نہ پڑھنے کے بعد کچھ اور عطا ہو، کچھ اور ارشا د ہو کے جواب میں کسی کی فر ما ئش کو رد نہیں کیا۔کچھ ہی دیر بعد نا ہد قا سمی صا حبہ پھر مجھ سے مخا طب ہو تےہوئے بولیں “ظفر بھا ئی آپ نے با با کو کیسے منا لیا اور وہ کیسے راضی ہو گئے ؟” میں نے والد گر امی کی طر ف اشا رہ کیا اور کہاان کی گزار ش پر ، دو سر ی با ت یہ کہ با با ہم سب سے کتنی محبت کر تے ہیں ۔ میں نہیں جا نتا مگر مجھے بلکہ ہمین بھی وہ آپ سے کم نہیں چا ہتے ۔بہر حا ل انہو ں نے ہما را ما ن رکھ لیا ۔یہ ان کی بڑائی ہے ۔ وہ ہم سب کا ما ن ہیں ۔ پھر میں نے اپنا یہ شعر پیش کیا
شعر و سخن کی آبر و، اردو ادب کا ما ن
اسر ار ِکا ئنا ت سے پُر اور قلم گیان
اس پر اسر ار زید ی نے احمد ند یم قا سمی صاحب کومخا طب کر کے کہا محسن نقوی کے مصر عہ پر کیا گر ہ لگائی ہے ۔ احمد ند یم قا سمی نے کہا بھئی ہم تو” قلم گیا ن” کی انو کھی تر کیب پر ہی حیران ہیں ۔اس شعر میں ان کی ادب پر وری شا مل ہے۔ اور یہ ادب پر وری بلکہ ادب پر ستی انہیں ورثے میں ملی ہے ۔ایک مر تبہ احمد ند یم قا سمی اپنے عہدرفتہ کے قصے بیان کر رہے تھے ۔ ان میں سے ایک قصہ یہ بھی تھا کہ ایک مر تبہ فخر الد ین بلے صاحب مجھ سے ملنے اور خیر یت جا ننے کے لئے جیل پہنچ گئے ۔ اس ملاقا ت کا دورانیہ طو یل تھا ۔ ان دنو ں وہ لاہور ہی میں ماہنامہ “فلا ح “کے مد یر اعلی ٰ تھے۔ انہو ں نے مجھ سے جیل میں رہتے ہو ئے ایک افسا نہ لکھو ایا اور اسے بہت اہتما م کے ساتھ فلا ح میں شا ئع کیا اور وہ شما رہ مجھے جیل میں دینے بھی آئے۔
احمد ند یم قاسمی کی شخصیت اور فن کے حوالے سے یو ں تو بہت کا م ہوا ہے اور ہر کا م اپنی جگہ پر ایک ٹھو س حیثیت کا حا مل ہے، مگر سید فخر الد ین بلے کی زیر ادارت شا ئع ہو نے والے ہفت روزہ “آوازِجر س “کے احمد ند یم قاسمی نمبر کا تذ کرہ نہ کرنا یقیناً نا انصافی ہو گی ۔ اس اشا عت ِخا ص میں شا مل تما م تر تخلیقا ت ،تصا ویر اور تا ثر ات بہت ہی غیر معمولی ، اچھو تے اور کئی اعتبارسے منفر د تھے ۔ادبی حلقو ں نے اس کی والہا نہ اند از میں پذ یرائی کی اور آواز جرس کی اشا عت خاص کو تا ریخی دستا ویز قراردیا ۔سید فخر الد ین بلے کی ہی ہد ایت پر مصو رِآوازِجر س طا ہر نقو ی نے ایک سا ل میں احمد ند یم قا سمی کی دو تصا ویر بڑی محنت سے بنائیں ، جواس اشا عت خاص کا حصہ بنیں ۔اس جریدے آواز جر س کی پا لیسی تما م تر گر وہ بند یو ں سے با لا تر رہی۔
ایک مر تبہ احمد ند یم قا سمی اختر حسین جعفر ی ، ڈاکٹر بر ہان احمد فا روقی کے ساتھ فخر الد ین بلے کی عیادت کےلئے تشریف لا ئے تو سید فخر الد ین بلے بستر علا لت پر دراز تھے اور ان کی نا ک میں آکسیجن کی نا لیاں لگی ہو ئی تھیں اور وہ مجھے آواز جر س کے آئندہ شما رے کا اداریہ لکھو ارہے تھے ۔ ا ن احبا ب کی آمد پر اُٹھ بیٹھنے کی کو شش ہی کی تھی کہ ڈاکٹر بر ہا ن احمد فا روقی (جوکہ فخر الد ین بلے کے ہمسا ئے بھی تھے ) گو یا ہوئے ۔بلے میاں لیٹے رہئے ور نہ ہم لو ٹ جا ئیں گے ۔ فخر الد ین بلےفوراً پھر لیٹ گئے تو احمد ند یم قا سمی نے فر ما یا ۔ یہ کیا ما جر اہے ؟۔اگر ہم یہی با ت کہتے تب بھی کیا آپ بلاتاخیر لیٹ جا تے ۔ تو فخرالد ین بلے نے کہا با لکل نہیں ۔کیونکہ ڈاکٹر بر ہا ن احمد فا روقی میرے سینئر ہیں اور علی گڑھ کی جا معہ نے سینئر ز کو بہت با اختیار بنا یا ہے ۔
اس سے قبل کہ قارٸین کرام کو ہم اپنی مذید حسین یادوں میں شریک کریں ملاحظہ فرماٸیے احمد ندیم قاسمی صاحب کی یہ شاہکار نظم
نظم ………… “پتھّر” ………… احمد ندیم قاسمی
(مجموعہ کلام “مُحیط” سنہ 1963)
ریت سے بُت نہ بنا، اے مِرے اچھے فنکار
ایک لمحے کو ٹھہر، میں تجھے پتھّر لا دُوں
میں تِرے سامنے انبار لگا دُوں ــــــــــ لیکن
کون سے رنگ کا پتھّر تِرے کام آئے گا؟
سُرخ پتھّر؟ ـــــ جسے دِل کہتی ھے بے دِل دُنیا
یا وہ پتھرائی ھوُئی آنکھ کا نیلا پتھّر
جس میں صدیوں کے تحیّر کے پڑے ھوں ڈورے؟
کیا تجھے رُوح کے پتھّر کی ضرورت ھو گی؟
جس پہ حق بات بھی پتھّر کی طرح گِرتی ھے
اِک وہ پتھّر ھے، جسے کہتے ھیں تہذیبِ سفید
اس کے مَرمَر میں سِیہ خوُن جھلک جاتا ھے
ایک انصاف کا پتھّر بھی تو ھوتا ھے، مگر
ھاتھ میں تیشہء زر ھو تو وہ ھاتھ آتا ھے
جتنے معیار ھیں اِس دَور کے، سب پتھّر ھیں
جتنے افکار ھیں اِس دَور کے، سب پتھّر ھیں
شعر بھی، رقص بھی، تصویر و غنا بھی پتھّر
میرا اِلہام، تِرا ذہنِ رَسا بھی پتھّر
اِس زمانے میں تو ھر فن کا نشاں پتھّر ھے
ھاتھ پتھّر ھیں تِرے، میری زباں پتھّر ھے
ریت سے بُت نہ بنا، اے مِرے اچھے فنکار!
پرویز بزمی صا حب سے سرگو دھا میں قیا م کے دوران خا صا قر یبی تعلق رہا۔ انھیں والد گرامی سید فخر الد ین بلے سے خا ص عقید ت تھی اور ابو کے حوالے سے ہم سب بھا ئیوں سے بھی انہیں خا ص انسیت تھی ۔ وہ ہم سب سے عمر میں بہت بڑے تھے مگر اس کے با وجو د وہ ہم سب سے بھی بہت عقید ت اور احتر ام سے ملتے تھے ۔ سرگو دھا سے آجا نے کے بعد بھی پر ویز بزمی صا حب سے رابطہ قا ئم رہا ۔ ان کا حا فظہ بلا کا تھا اور وہ ہر قسم کے تعصب اور گر وہ بند ی سے دورہی رہا کر تے تھے ۔ غا لبا ً1989یا 1990میں انہو ں نے اچا نک احمد ند یم قا سمی صا حب کی غز ل اور پھر نظم کو کڑی تنقید کا نشا نہ بنا یا ۔ ان دونو ں مضامین کی اشا عت کے بعد وہ لا ہو رتشریف لا ئے ۔ اتفا ق سے ابو دفتر گئے ہو ئے تھے اورمیں خلا ف معمول “ادب لطیف”کے دفتر سے اس روز ذرا نہیں بہت جلد لوٹ آیا تھا (ان دنوں میں ادب لطیف کا ایڈ یٹر تھا) لہذا پر ویز بزمی صاحب ابو سے پہلے میرے ہتھے چڑھ گئے ۔ یہا ں یہ بھی بتا نا ضر وری ہے کہ میں پہلے ہی پر ویز بزمی صا حب کو چک 39شما ل کے پتے پر ان مضا مین کے حو الے سے خط لکھ چکا تھا اور اپنی حیر ت ، تعجب اور تشویش کا اظہا ر کر چکا تھا ۔ بہر طو ر دوران گفتگو پر ویز بزمی صا حب نے اپنے طور پر اس کا یہ سبب بیا ن کیا کہ احمدند یم قا سمی اور ڈاکٹر وزیر آغا دو نو ں جغا دریوں پر کو ئی ہا تھ نہیں ڈالتا ۔لہذادونوں نے جن جن اصنا ف میں کا رہا ئے نما یا ں سر انجا م دئیےہیں ، ان کے حوالے سے پا نچ +پا نچ=(5+5=10) مقا لا ت لکھنے کا منصوبہ ہے ۔ مختصر یہ کہ طے پا گیا کہ احمد ند یم قاسمی صا حب کے حو الے سے کسی مضمو ن کی اشا عت عمل میں نہیں آئے گی ۔ اور پا نچ مقا لا ت تحریر کرنے کے بعد پھر ڈاکٹر وزیر آغا کے حوالے سے پا نچ مقا لا ت لکھے جا ئیں گے۔ معا ہد ہ زبا نی ہی سہی مگر ہو گیا ۔شر طِ اول یہ تھی کہ دس کے د س مقا لا ت کے جملہ حقو ق راقم السطور کے نا م ہو نگے ۔ یقینا ًمعا ہد ہ دونوں فر یقین کی رضا مند ی سے ہو ا تھا مگر میں اس با ت کے لئے کیسے راضی ہوگیا ۔ہر گز بھی مسا وی سلوک کی بنا پر نہیں، اور نہ ہی حب ِعلی کی بنیا پر ۔حسن اتفاق کہئے یا اسے کوئی اورنام دے دیں ۔معا ملا ت طے پا تے ہی ابو بھی تشر یف لے آئے ۔انہو ں نے پر ویز بزمی صا حب کی خوب اچھی طر ح سے خبرلی۔ آخرکا ر پر ویز بزمی صا حب نے ابوسے کہا “بلے صا حب مجھے اند ازہ نہیں تھا کہ قا سمی صاحب کے خلا ف لکھنے پر آپ کو اتنی ذہنی کوفت ہوگی اور آپ اسقد ر برہم ہوجا ئیں گے ۔میں آپ سے اپنے کئے کی معذرت چا ہتا ہو ں اور آئندہ کے منصو بو ں کوفی الفو ر منسوخ کر تا ہو ں۔بعد ازاں پر ویز بزمی صاحب کا میر ے نا م خط بھی آیا تھا ۔جہا ں تک مجھے یا د پڑ تا ہے ،یہ خط جا وید اختر بھٹی صا حب کی نظر سے بھی گذ را ہے ۔ اس خط میں یہی لکھا تھا کہ “بلے صا حب کے حکم پر میں نے قا سمی صاحب کے خلا ف لکھنے کا ارادہ تر ک کر دیا ۔کیو نکہ ان کے حکم کے سا منے میرے ارادے یا خواہش کی کو ئی اہمیت نہیں ۔بے شک یہ پر ویز بزمی صاحب کی اعلیٰ ظر فی تھی ۔ اس سے یہ بھی ثا بت ہو ا کہ وہ ابو کا کس قد ر احتر ام کر تے تھے ۔جب قا سمی صا حب کوکسی طو ر اس با ت کا علم ہوا تو انہوں نے ابو سے کہا “فخر الد ین بلے صاحب آپ کو میرے حو الے سے لکھے گئے مضامین پر تشویش ہو ئی اور ذہنی اذیت بھی ۔ گو یا آپ کی ذہنی کوفت کا با عث کسی نہ کسی حوا لے سے میں ہی بنا۔ لہذا میں آپ سے معذ رت خواہ ہو ں ۔
سید ہ ہا نی ظفر کی ولا دت کی مبا دکبا د کےلئے آنے والو ںمیں بھی احمد ند یم قا سمی با زی لے گئے ۔لا ہو ر سے ملتا ن اور پھر ملتان سے کراچی سکونت اختیا ر کرنے پر بھی قاسمی صا حب سے مسلسل رابطہ قا ئم رہا۔ مجھے اور میری بہن عذرا کما ل کو کراچی میں بھی بارہا ان کی میزبا نی کا اعزاز حا صل ہوتا رہا ۔وہ خیریت دریا فت کرنےکیلئے بھی فون کیا کرتے تھے ۔ ایک مر تبہ کسی تقر یب کے حوالے سے احمدند یم قا سمی ‘منصور ہ احمد ‘محسن احسا ن اور احمد فر از کراچی آئے ہو ئے تھے ۔قا سمی صا حب نے آتے ہی مجھے مطلع کیا ۔ پھر میری بہن عذ را کما ل اور میرے بہنوئی محترم کما ل اختر صا حب انہیں اپنے ساتھ لے آئے ۔گھنٹوں محفل جمی رہی۔ دنیا جہان کی باتیں ہوئیں ۔
احمد ندیم قا سمی صا حب بہت متحمل مزاج تھے۔ حد سے زیا دہ درگزر سے کا م لیتے تھے ۔یہ ایک عا م تا ثرتھا ۔میں چا ہنے کے با وجو د بھی یقین نہیں کرپا تا تھا ۔ لہٰذامیں نے 1989مں ان کے چند فنی اور شخصی پہلو و¶ں کے حوالے سے ایک مضمو ن لکھا، جسے تنقید ی مضمو ن کہنا زیا دہ منا سب ہو گا ۔ اور جب مجھے یہ یقین ہو گیا کہ یہ تحر یر ان کی نظر سے گذ ر چکی ہے تو پھر میں فنو ن کے دفتر ان سے ملنے پہنچ گیا۔ ان کے طر زِعمل میں معمو لی سی بھی منفی تبد یلی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ وہ ہمیشہ کی طر ح اپنی نشست سے اُٹھ کھڑے ہو ئے اور کہا “آئیے ، آئیے ۔ آپ کو دیکھے ہو ئے تو چند روز بھی گذ ر جا ئیں تو لگتا ہے کہ کئی بر س بیت گئے”۔پھر کچھ اِدھر اُدھر کی با تیں ہو ئیں مگر مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے پوچھ ہی لیا کہ
قا سمی صاحب وہ مضمو ن آپ کی نظر سے گذ را۔قاسمی صا حب اپنی نشست سے دو با رہ اُٹھ کھڑے ہوئے۔ مجھے گلے سے لگا کر کہا “سچ پو چھو تو آپ کا مضمو ن مجھے بے حد پسند آیا اور میں اسے پڑ ھ کر بے حد خوش ہو ا ۔ آپ نے مجھے حقیقتاً اپنا ئیت کا احسا س دلا یا ہے اور یہ مضمو ن آپ کا مجھ پر ایک احسا ن ہے ۔
ایک اور اہم واقعہ بھی مجھے یاد آرہا ہے۔ہم لاہور میں تھے محترمہ منصورہ احمد کا فون آیا اور انہوں نے کہا بابا یعنی محترم احمد ندیم قاسمی صاحب بات کرنا چاہ رہے ہیں اور پھر قاسمی صاحب نے بتایا کہ ہم بہت تھوڑی دیر کیلئے علامہ طالب جوہری صاحب کے ساتھ آپ کے گھر آرہے ہیں۔ میرے والد گرامی یہ ُسن کر جی اٹھے ۔انہوں نے اصرار کرکے مختصر ملاقات کو ظہرانے میں تبدیل کرانے پر علامہ صاحب کو راضی کرلیا۔ نظم کے عظیم اور معروف شاعر اختر حسین جعفری اپنے صاحبزادے منظر حسین اختر اور مشکورحسین یاد کے ساتھ تشریف لے آئے۔ادب لطیف کی چیف ایڈیٹر محترمہ صدیقہ بیگم کو بھی میں نے فون پر آگاہ کردیا۔ روزنامہ ڈان کے اشفاق نقوی کوبھی مدعو کرلیاگیا۔ مایہ ء ناز صداکاراور فلمی اداکار محد علی بھی آگئے ۔ اہم ادبی موضوعات پر بڑے لوگوں کے مابین گفگتگو شروع ہوگئی۔ اوربڑی سیر حاصل گفتگو ہوئی۔
ایک روز احمد ندیم قاسمی صاحب ریڈیو پاکستان سے اپنا ہفتہ وار کالم پڑھ کر فارغ ہوٸے اور طے شدہ پروگرام کے مطابق
سیدھے بابا جانی قبلہ سیدا فخرالدین بلےشاہ صاحب کی اقامت گاہ (جی۔او۔آر۔تھری) پہنچے ان کے ہمراہ خالد احمد بھاٸی اور نجیب احمد صاحب بھی تھے۔ اور کچھ ہی دیر بعد طارق عزیز صاحب اور عارفانہ کلام پڑھنے میں بے مثل مقبولیت پانے والے اقبال باہو بھی پہنچے۔ اختر حسین جعفری صاحب کو پک کرکے لانے کی ذمہ داری جناب ابصارعبدالعلی صاحب کی تھی کیوں کہ ہمساٸیوں کے بھی تو حقوق ہوتے ہیں ۔ باباجانی کبھی خود چین و قرار کے ساتھ نہیں بیٹھے تو ہمساٸیوں تک بھی تو فیض پہنچنا ضروری ہے اس روز احمد ندیم قاسمی صاحب کا موڈ کچھ کوفت زدہ سا لگ رہا تھا ۔ قاسمی صاحب بابا جانی سے کچھ یوں مخاطب ہوٸے بَلّے صاحب حد ہی ہوگٸی خدا معلوم کیا ہوگا ان عاقبت نا اندیشوں کا ۔ باباجانی نے دریافت کیا ہوا تو پھر ان کو قاسمی صاحب نے بتایا کہ میں تو برسوں سے ریڈیو سے وابسطہ ہوں اور میرا مسلسل ریڈیو سے اور وابستگان ریڈیو سے رابطہ بھی ہے۔ آج جب ریڈیو پر ایک انتہاٸی نااہل شخص سے رابطہ ہوا تو محسن ملک و ملت جناب سید مصطفی علی ھمدانی بہت یاد آٸے ۔ کیا نفیس انسان تھے ریڈیو پاکستان کی پہچان اور جان۔ پیشہ ورانہ مہارت میں ان کا کوٸی ثانی نہ تھا نہ ہے۔ جب آج ریڈیو پر ایک نااہل شخص سے سابقہ پڑا تو میں نے اس سے کہا کہ کاش آج سید مصطفی علی ھمدانی حیات ہوتے تو وہی آپ کو کچھ سمجھا سکتے تھے لیکن نہیں ایسا ممکن نہیں ہوسکتاتھا کہ آپ اور مصطفی علی ھمدانی صاحب بیک وقت ریڈیو کی اس چھت تلے اکٹھے ہوتے۔ بس اتنی ہی بات کرکےاحمد ندیم قاسمی صاحب نے بہت کچھ کہہ ڈالا تھا۔ قاسمی صاحب کی بات کو آگے بڑھاتے ہوٸے ابصارعبدالعلی گویا ہوٸے ہاٸے ہاٸے کیا ہیرا راہبر و راہنما تھے استاد محترم جناب مصطفی علی ھمدانی صاحب ۔ ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے اور وہ بھی کمال شفقت فرمایا کرتے تھے اور بہت سی کام کی باتیں سمجھانے کے ساتھ ساتھ ریڈیو پاکستان کے مختلف مراکز میں پنپنے والی داخلی سیاست سے دور اور محفوظ رہنے کا مشورہ دیا کرتے۔ ہمزاد دا دکھ کے خالق اور مقبول ٹو وی شو نیلام گھر سے شہرت کی بلندیوں کو پہنچنے والے جناب طارق عزیز صاحب نے احمد ندیم قاسمی صاحب اور ابصارعبدالعلی صاحب کے موقف کی تاٸید کرتے ہوٸے فرمایا کہ پاکستان ریڈیو اور پاکستان ٹیلی وژن ( کے قیام ) کی عمروں میں جو فرق ہے باپ بیٹے یا ماں بیٹے کی عمروں میں بھی اتنا ہی فرق ہوتا ہے اور ریڈیو پاکستان کے سامنے پاکستان ٹیلی وژن کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسی ماں باپ کے سامنے اولاد کی یا استاد کے سامنے شاگرد کی اور میں تو فخریہ طور پر جناب مصطفی علی ھمدانی صاحب کو اپنا گرو۔ اور راہبر بلکہ روحانی استاد سمجھتا ہوں۔ محترمہ توصیف افضل صاحبہ نے اپنی یادوں کے حوالے سے جناب مصطفی علی ھمدانی شاہ صاحب کو خراج پیش کیا. اختر حسین جعفری صاحب نے عقیدت مندانہ انداز میں مصطفی علی ھمدانی کو خراج پیش کیا اور پھر فرمایا ہم اپنے اسلاف اور محسنین ملت سے آنکھیں چرا کر کہیں کے نہیں رہیں گے یہ بات نٸی نسل کو سمجھ لینی چاہیے۔ یہ بات سن کر طارق عزیز صاحب نے فرمایا اختر حسین جعفری ۔ احمد ندیم قاسمی ۔ سید فخرالدین بلے صاحب اور منیر نیازی اور خالد احمد میرے پسندید شاعروں میں سے ہیں پھر طارق عزیز صاحب نے احمد ندیم قاسمی صاحب سے مخاطب ہوکر کہا آپ کی سفارش بھی کام نہ آٸی میں نے بارہا جناب سید فخرالدین بلے صاحب سے گزارش کی کہ وہ میرے شو میں مہمان شاعر و محقق کے طور پر شرکت فرماٸیں اور وہ ہمیشہ یہ کہہ کر ٹلا دیتے ہیں کہ نہ تو آپ کہیں جا رہے ہیں اور نہ ہی میں ۔ قاسمی صاحب آپ ہی فرماٸیے کہ میں کیا کروں اور بلے صاحب سے احتجاج بھی کروں تو کیسے پسندیدہ شعرا میں سے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی صاحب مسکراٸے اور ان کی مسکراہٹ دیکھ کر طارق عزیز صاحب نے پوچھا قاسمی صاحب میری بات کے جواب میں آپ کی مسکراہٹ ، میں سمجھ نہیں پارہا ۔ اس سوال کے جواب میں احمد ندیم قاسمی صاحب نے فرمایا کہ سید فخرالدین بلے صاحب سے صہبا لکھنوی صاحب کو ہم نے افکار کےلیے ۔ محمد طفیل صاحب کو نقوش کےلیے اور محترمہ صدیقہ بیگم کو (کہ جو خود سید فخرالدین بلے صاحب کے افراد خانہ میں شمار کی جاتی ہیں) ادب لطیف کےلیے اظہر جاوید صاحب کو تخلیق کےلیے اور مسعود اشعر صاحب کو دھنک کےلیے اور طفیل ہوشیارپوری صاحب کو محفل کےلیے بارہا کلام کی فرماٸش کرتے سنا اور دیکھا ہے اور جبکہ میں خود فنون کےلیے متعدد بار ان سے ان کا کلام طلب کرچکا ہوں لیکن وہ ہمیشہ ہی نہایت خوبصورتی سے ٹال جاتے ہیں۔ اور تو اور حسن رضوی اور اجمل نیازی کافی عرصہ کوشش کرتے رہے کہ فخرالدین بلے صاحب انہیں جنگ اور پاکستان کےلیے انٹرویو دے دیں حسن رضوی کو تو کامیابی حاصل نہیں ہوسکی البتہ اجمل نیازی سے پوچھنا ہوگا کہ کرنا ہوگا کہ انہوں نے کیا حربہ استعمال کیا تھا کس طرح فخرالدین بلے صاحب نے انہیں انٹرویو دے دیا ۔
اس عہد کے افسا نو ی ادب کے حو الے سے بھی احمد ند یم قا سمی صا حب کا نا م اور مقا م بہت معتبر اور نما یا ں نظر آتا ہے ۔ انھو ں نے جو خو بصو رت اور منفر د افسا نے تخلیق کئےہیں ،ان کے پیش ِ نظر بجا بطو ر پر انہیں 21و یں صد ی کا افسا نہ نگا ر قر ار دیا جا سکتا ہے ۔ان کے افسانوی مجموعوں کے کیا کہنے۔وہ کبھی “چوپال”میں بیٹھے دکھا ئی دیتےہیں اور کبھی “سیلاب وگرداب”سے نبرد آزما”بازارِ “سے گذ رتے ہو ئے اپنے “آس پا س ” درو دیوا رکا “سنا ٹا “دیکھ کر ان کے اند ر کا افسا نہ نگا ر جا گ اُٹھتاہے ۔ کبھی ان کے ہا تھ میں ” نیلا پتھر “دکھا ئی دیتا اور کبھی “کپا س کے پھو ل”۔ انہو ں نے “گھر سے گھر تک” جو طو یل مسا فت طے کی ہے، اس کی بنا پر ان کے تلو وں میں آبلے پڑ گئے ۔ لیکن پھر بھی فکر و نظر “کا مر کز “بر گ ِحنا”ہے۔ “بر گِ حنا”کے ذکر سے آنچل کا تصو ر ضر ور ابھر تا ہے اور بے شک ان کے خو بصو رت افسا نو ں میں “طلو ع و غروب”کے منظر نے مجھے ہمیشہ بہت متا ثر کیا ۔
جب ہم نے جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کی سالگرہ کی مناسبت سے تہنیتی کارڈز شاٸع کروانے کے سلسلے کا آغاز تو ہم نے ان کارڈز کو سپرد ڈاک کرنے کے سلسلے میں منصورہ احمد صاحبہ سے مشاورت کی اور پھر طے یہ پایا کہ لوکل کارڈز 20.نومبر سے تین یا چار روز قبل پوسٹ کیے جاٸیں جبکہ بیرون ملک کم از کم بارہ پندرہ روز قبل سپرد ڈاک کیے جاٸیں ۔ منصورہ احمد صاحبہ کے ساتھ مل کر میلنگ لسٹ کے مطابق ہم نے سب سے سے پہلے انڈیا۔ یو کے ۔ کینیڈا اور امیریکہ کے کارڈز پوسٹ کیے ۔ خلاف توقع سب سے پہلے بھارت میں گلزار صاحب کو کارڈ موصول ہوا اور انہوں نے کارڈ موصول ہوتے ہی احمد ندیم قاسمی صاحب کو فون کیا اور سالگرہ کی پیشگی مبارکباد دینے کے بعد ہمارا نام لے کر ہم سے بات کی کی خواہش ظاہر کی اور ہمارے فون کا نمبر بھی قاسمی صاحب سے یہ کہہ کر لے لیا کہ ہم خود ظفر معین بلے صاحب کو فون کریں گے اور ان کی قاٸم کردہ اس نٸی روایت کو جاری رکھنے کی بھی فرماٸش کریں گے۔ ہمیں یاد ہے کہ قاسمی صاحب نے ہمیں فون کرکے مجلس کے دفتر بلوایا اور کہا کہ دو گھنٹے بعد گلزار صاحب کا دوبارہ فون آٸے گا
ہم بر وقت پہنچ گٸے اور منصورہ احمد ۔ احمد ندیم قاسمی صاحب اور برادرم خالد احمد صاحب کی موجودگی میں ہماری جناب گلزار صاحب سے تفصیلی بات ہوٸی ۔ انہوں نے ہمارے اس اقدام کو بے حد سراہا اور اس سلسلے کو ہر سال جاری رکھنے کی فرماٸش بھی کی۔احمد ندیم قاسمی صاحب کی سالگرہ کی مناسبت سے ہمارے پرنٹ کرواٸے ہوٸے گریٹنگ کارڈز کو ہر سال ہی بے حد سراہا جاتا تھا ۔ مہر سلطانہ صاحبہ نے تو احمد ندیم قاسمی صاحب کے جشن ولادت کی مناسبت سے ہمارے پرنٹ کرواٸے ہوٸے کارڈ جناب محترم شبنم رومانی صاحب سے حاصل کیا اور اس کا عکس اپنی کتاب میں شاٸع فرمایا
سید فخرالدین بلے اور ان کے اہل خانہ کو جناب احمد ندیم قاسمی اور ان کی اہلیہ اور فیض احمد فیض اور ان کی اہلیہ کی متعدد بار میزبانی کا اعزاز اور شرف حاصل ہوا بلکہ چند مرتبہ تو فیض احمد فیض صاحب اور محترمہ ایلس فیض اور احمد ندیم قاسمی اور محترمہ بیگم احمد ندیم قاسمی صاحبہ بیک وقت والدہ ماجدہ محترمہ مہر افروز بلے کے مہمان بنے۔
بیسویں20نومبر1984 کو جناب فیض احمد فیض صاحب انتقال فرماگٸے۔ فیض صاحب کا شمار عالمی شہرت کے حامل ممتاز ترین شعرا ٕ اور ترقی پسند مصنفین میں ہوتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کے جشن ولادت کی متعدد تقریبات میں خود فیض صاحب بھی شریک ہوٸے لیکن جب ان کے اانتقال اور احمد ندیم قاسمی صاحب کے ولادت کی تاریخ ایک ہوگٸی تو تو اس دن خوشی اور دکھ کی ملی جلی کیفیات دیکھنے میں آنے لگیں۔20نومبر 1984 کو بھی احمد ندیم قاسمی صاحب نے اپنے جشن ولادت کے حوالے سے منعقد ہونے والی متعدد تقریبات ملتوی / منسوخ کرواٸیں۔ اور اس کے بعد سے جب بھی کوٸی ادبی ادارہ یا تنظیم احمد ندیم قاسمی صاحب سے ان کی سالگرہ کی مناسبت سے تقریب کا اہتمام کرنے کی خواہش کرتا تو احمد ندیم قاسمی صاحب اپنی سی ہر ممکن کوشش کرتے کہ فیض صاحب کی برسی کے دن کسی خوشی کی تقریب کا اہتمام نہ کیا جاٸے۔ فیض صاحب کے بعد اکیس برس ایسے ہی گزرے کہ احمد ندیم قاسمی صاحب کو بمشکل تمام اس کےلیے راضی کیا تھا۔
پھر 2006 میں جب ان کی علا لت شد ت اختیا ر کر تی چلی گئی ۔ اس دوران بھی ان سے مسلسل رابطہ قا ئم رہا ۔اکثر یہ بھی ہو تا کہ میں فو ن کر تا تو منصو رہ احمد فر ما تیں کہ با با سو رہے ہیں یا اس وقت ان کی حا لت ایسی نہیں ہے کہ بات کرسکیں ۔ میں یہ صورت حال جان کر فون بند کردیتا مگر جیسے ہی ان کی حا لت بہتر ہو تی یا وہ نیند سے بیدار ہوتے تو فو راً ان کا فو ن آتا اور وہ فر ماتے کہ میں اب بہتر محسو س کر رہا ہوں ، شکر ہے اللہ کا کہ طبیعت کا فی بہتر ہے ۔ لیکن جب بھی میں یہ کہتا کہ میں آکر دیکھتا ہوں کہ طبیعت کتنی بہتر ہے تو فر ما تے کہ آپ یقین فر ما ئیے کہ بہتر ہے، وگر نہ میں آپ سے خو د کہہ دیتا کہ مجھ سے مل جا ئیے۔ ایک مر تبہ انہو ں نے بھارت کے معروف و مقبول شاعر اور دانشور گلزار صاحب سے بھی یہ کہہ کر با ت کروائی کہ دیکھئے مجھے اللہ نے آپ جیسے اور اُن جیسے کتنے چا ہنے والے اور محبت کر نے والے عطا فر ما ئے ہیں ۔اس دنیاسے کوچ کر جا نے سے چند روز قبل میری قا سمی صا حب سے فون پر با ت ہوئی ۔کچھ ہی دیر بعد ہما رے افسر اعلی ٰنے طلب فر ما لیا اور کہا آج آپ سے ذاتی طور پر فیور درکا ر ہے ۔میں نے کہا آپ حکم فر ما ئیے۔ مجھے ابھی ابھی لا ہو ر کے لئے روانہ ہو نا ہے، ایک بہت اہم مٹینگ ہے ۔لاہور پہنچنے کے پا نچ گھنٹے بعد واپسی کی فلا ئٹ کی بکنگ بھی کنفر م ہے، مگر جن کے ساتھ پر وگر ام طے تھا وہ اچا نک بیما رہو گئے ہیں ۔ اُن کی عد م مو جو د گی میں میری معا ونت آپ ہی فر ما سکیں گے ۔ بزرگو ار کا ایسا عا جزانہ اند از تھا کہ ہم سے انکا ر کرنے کی ہمت نہ ہوئی ۔ مگر ہم نے شر ط عا ئد کردی کہ ہما ری بھی وہا ں ایک نجی مصر وفیت ہو گی ۔ اس کے لئے ہمیں ایک ڈیڑھ گھنٹہ درکا ر ہو گا ۔ یو ں اچا نک لا ہو ر پہنچے ، مٹینگ ہو ئی اور ہم نے واپسی کے مقر رہ وقت کے حسا ب سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل اجا زت چا ہی ۔ منصو رہ احمد اور خا لد احمد بھا ئی صا حب کو فون کیا ۔ان کی مو جو د گی کو بھی یقینی بنا یا اور یو ں تقر یباً پچا س پچپن منٹ کی احمد ند یم قا سمی صاحب سے ملا قات ہو ئی ۔ دھڑ کا تو تھا مگر معلو م نہیں تھا کہ یہ آخر ی ملا قا ت ہے ۔10جولائی کو منصو رہ احمد کا فون آیا ۔بھر ائی ہو ئی آواز میں کہا کہ بابا چلے گئے ۔
احمد ند یم قا سمی صا حب کی شاعری میں انسا ن اور انسا نیت سے محبت پر بہت زور دیا گیا ہے ۔ اللہ سے محبت کر نے کےلئے انسا ن سے محبت کرنا ضر وری ہے اور اللہ کی کبر یا ئی کوتسلیم کر نے کے ساتھ سا تھ اشر ف المخلو قا ت کی عظمت کو پہچا ننا بھی اشد ضر ور ی ہے ۔ احمد ندیم قا سمی صاحب کایہ شعر ملا حظہ ہو ۔
اس حو الے سے کہ شہ پارہء تخلیق ہے وہ
مجھ کو انسا ن سے خو شبوئے خدا آتی ہے