آج پرانی کتابوں اور رسائل کی ششماہی صفائی اور گرد کو صاف کرنے کے دوران بھائی احمد ہمیش کا ایک خط دریافت ہوا جو انھوں نے مجھے ۱۶ جنوری ۱۹۹۸ کو کراچی سے لکھا تھا۔ خط کو پڑھ کر مجھے اپنی زندگی کے وہ ماہ و سال یاد آ گئے جن میں ان سے میرے ادبی اور فکری لڑائی جھگڑے رہتے تھے۔ میری ان سے جدید ادبی تنقیدی نظریات پر کبھی نہیں بنی۔ خاص کر انھیں “ساختیات” ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ اگر ان کو سمجھانے یا قائل کرنے کی میں کوشش بھی کرتا تو وہ مجھے ڈانٹ دیا کرتے تھے۔ میرے ساتھ میلوں پیدل چلا کرتے تھے۔ ان کے ساتھ ناظم آباد، چورنگی کے ایرانی چائے خانے اور برنس روڈ کی ملک کے ہوٹل میں نہاری یا گولہ کباب کھاتے ہوئے۔ ان سے افسانہ تنقید، نثری نظم، ان کے غزل شکنی کے نظریات، اور اردو کے ادبی مافیا پر کھل کر بات ہوتی تھی۔
میں جب انھیں بہت پریشان کرتا، یا ان کے پاس میری باتوں کا کوئی جواب نہیں ہوتا تو وہ خاموش ہوجاتے اور کچھ دنوں بعد میرے گھر آکر میری والدہ سے میری دل بھر کے شکایتیں کرتے۔ ان کی یہ معصوم ادا مجھ کو بہت پسند تھی۔ اکثر میرے گھر میں لگے فالسے کے پیڑ سے اپنے کرتے کی جیب میں فالسے بھر لیا کرتے تھے۔ جن کا داغ دھو کر بھی کرتے سے نہیں جاتا تھا۔ وہ کبھی سگریٹ کا پیکٹ نہیں خریدتے تھے۔ وہ پان کی دوکان سے زیادہ سے زیادہ دو سگریٹیں خریدنے عادی تھے۔ اور میرے لیے سونف، خوشبو اور الائچی والا پان لے کر اپنے ہاتھوں سے میرے منھ رکھتے تھے۔
احمد ہمیش نے اردو کی جدید کہانی کو نیا مزاح اور لہجہ عطا کیا۔ شاید وہ اردو کی پہلے افسانہ نگار ہیں جنھوں نے اردو کے سوانحی افسانے کو نیا اسلوب ہی نہیں دیا بلکہ اپنی حساس موضوعی واردات ذات کو منفرد معروضی انداز اور مخصوص افسانوی شعریات کی تکنیک کے ساتھ اس کا اظہار کیا۔
افسانہ نگار، نقاد، اور مدیر احمد ہمیش کی ولادت یکم جولائی ۱۹۴۰ کو ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے ضلع بلیا کے ایک چھوٹے سے گاؤں بانسپار میں ہوئی ان کا اصل نام احمد قریش صدیقی تھا۔ ۱۹۶۰ کے بعد اردو ادب میں جدیدیت چرچا ہوا تو وہ اس نئے فکری رجحان کے تحت لکھنے لگے۔ احمد ہمیش نے کھلے الفاظ میں ترقی پسندوں کی نعرہ بازی، آئیڈیالوجی کے جبر، اس کا فکری کھوکھلے پن، سیاسی پارٹی لائن، اور ترقی ہسند ادبی متنوں میں جمالیات کے فقدان اور اس کے غیر ادبی ہونے کو مسترد کردیا۔
اس مضمون کو بھی ملاحظہ کیجیے: داؤد رضوان کی موت پر طویل خود کلامی، از سعید احمد
احمد ہمیش نے اپنے آپ کو اردو نثری نظم کا بانی قرار دیا ان کی پہلی نظم ۱۹۶۲ء میں ماہنامہ ”نصرت‘‘ لاہور میں شایع ہوئی۔ جس کو میں “پس نوآبادیاتی کہانی” کہتا ہوں۔ مگر یہ ایک ” علامتی” افسانہ تھا۔ ان کی شہرت کا سبب دراصل سہ ماہی تشکیل نہیں بلکہ ”مکھی‘‘ ہے۔ ہمیش نے ۱۹۶۳ء سے کہانیاں لکھنے کا آغاز کیا۔ ۳۵ سال کے دوران لکھی گئی کہانیوں کا مجموعہ ”کہانی مجھے لکھتی ہے‘‘ ۹۸ء میں منظر عام پر آیا۔ ۷۰ کی دہائی میں انھوں ریڈیو پاکستان، کراچی میں ہندی سروس میں کل وقتی یا عارضی ملازمت مل گئی۔جو کبھی مستقل نہ ہو سکی۔
جب ہندی سروس کو اٹھا کر اسلام آباد منتقل کیا گیا تو یہ نوکری ان سے چھوٹ گئی تو انھوں نے اپنی تمام توجہ اپنے شاک انگیز ادبی جریدے” تشکیل” پر مرکوز کردی اور اسی دوران متفرق ملازمتیں کرتے رہے۔ ۱۹۷۰ میں ہی قمر جمیل ، رئیس فروغ ، مبارک احمد وغیرہ کے ساتھ مل کر نثری نظم کی تحریک میں بہت فعال رہے۔ انھوں نے بہترین غزلیں بھی لکھی ہیں۔ جو بہت کم شائع ہوئی ہیں۔
احمد ہمیش اپنی ے رائے اور خیالات کا اظہار بہت بے باکی سے کرتے تھے۔ وہ کسی سے لگی لپٹی نہیں رکھتے تھے اور نہ بھید بھاؤ سے ان کو کوئی سروکار تھا۔ ان کو ان کے دوست منہ پھٹ اور زود رنج بھی کہا کرتے تھے۔ وہ دوستوں کے دوست اور دشمن کے کھلے دشمن ہوتے تھے۔ اپنی پسند اور ناپسندیدگی کا اظہار کھلے الفاظ میں کرتے تھے۔ ان کے چند جملے مجھے اب تک یاد ہیں۔ مثلاً:
” پروین شاکر کو احمد ندیم قاسمی نے مشروط گراؤنڈ پر آگے بڑھایا۔‘‘
” آج کے قلم کاروں کو میں قلم کار ماننے سے انکار کرتا ہوں۔‘‘
” کشور ناہید نے مجھے مردانہ گالی دی۔ اس لیے میں نے انھیں عورت ماننے سے انکار کر دیا۔‘‘
” عورت اپنی خاص فطری کیفیت میں ہو تو اس سے بہتر کوئی نہیں لکھ سکتا۔‘‘
” اکادمی ادبیات انجمن ترقی اردو ”اردو ڈکشنری بورڈ‘‘ جیسے ادارے گدھ ہیں جو ادارے کی بوٹیاں نوچ کر کھا رہے ہیں۔‘‘
ایک دفعہ انھوں نے ریڈیو کے ایک بہت بڑے افسر کو ان کے منھ پر ” الو کا پٹھا” کہہ دیا تھا۔ ضیاء الحق کے زمانے میں انھوں نے اکادمی ادبیات پاکستان کا کا چیک واپس کردیا تھا۔ احمد ہمیش جمیل الدین عالی کے دوھوں کو مسترد کرتے تھے اور ان کا کہنا تھا کی عالی جی کو ہندی آتی نہیں ہے وہ کیسے دوھے لکھ سکتے ہیں۔ اور نہ وہ ” پنگل” سے واقف ہیں۔
وہ اردو میں ادبی سماجیات کی منفیت اور ادبی مافیا کے سخت خلاف تھے۔ جس کا اظہار وہ اپنے جریدے ” تشکیل” میں کھل کر کرتے تھے۔ احمد ہمیش کا نام ہمیشہ انور سجاد، رشید امجد، سریندر پرکاش اور بلراج منرا کے ساتھ آتا ہے مگر احمد ہمیش کی اپنی اپنی جداگانہ شناخت یا پہچان اور اسلوب نگارش تھا۔
وہ پنیادی طور پر ” پس کربیہ” (ناسٹلجیا) اور نفی دانش کے فکشن نگار تھے۔ اپنی موت سے چند ماہ قبل انھوں ںے تمثیلی ابلاغ کے موضوع پر جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں ایک بھرپور مقالہ پیش کیا تھا۔ بقول پروین طاہر:
“ایسا محسوس ہوتا ہے کہ احمد ہمیش نے ایک طویل زندگی پانے کے باوجود زندگی کو زندگی کی طرح نہیں لیا،انہوں نے زندگی کے ساتھ کبھی سمجھوتہ ہی نہیں کیا، وہ ایک انجانے روحانی اور تخلیقی کرب میں مبتلا رہے، انہوں نے زندگی کی معمولی شرائط کو بھی نہیں مانا۔”
احمد ہمیش غزل بھی کہتے تھے ۔ ان ک یہ نظم ملاخطہ کریں ۔ جس میں ان کی زندگی کے حساس تجربے کا گہرا عکس دکھائی دیتا ہے۔
**آخری مکالمہ **
( احمد ہمیش )
لے جاؤ درختوں کو لے جاؤ
میرے کس کام کے یہ درخت
لے جاؤ
میں تو مر رہا ہوں
میرے ساتھ جانے والے
کچھ ہی لوگ تو ہیں
میں نے بات کی ان راستوں سے
کہ جو راستے نہیں تھے
پھر میں ندی میں ڈوب گیا
مجھے نہیں معلوم تھا کہ مجھے اس طرح
آری سے کاٹ دیا جائے گا
کہ درختوں میں بھی
میرا شمار نہیں ہوگا
میں نیند کے آخری حصہ میں کھڑا ہوں
ایک مزدور
بیلچے سے میری تصویر بنا رہا ہے
رات گزر رہی ہے
کہ اس کے گزرنے سے پہلے بھی
ایک رات گزر چکی ہے
میں بھلا کس رات کا حساب دوں
مجھے مارنے والوں میں
میرا لہو بھی شامل ہوگا
یہ مجھے معلوم نہیں تھا
میں مر رہا ہوں
کہ مجھے مارنے والی ذات
میری ریڑھ کی ہڈی سے
کلام کر چکی ہے
اس نے مجھے بٹن ٹانکنے والی معمولی سوئی سے چھید کے
جانکنی سے گزار دیا ہے
مگر اس سے پہلے
مجھ سے یہ بھی نہیں پوچھا
کہ میں کسی جہان میں
زندہ تھا بھی یا نہیں
قدیم کانسی کے برتنوں
میرے نام پر بہائے ہوئے
آنسوؤں کا ایک خزانہ تو محفوظ ہے
اور اس خزانے ہی پر تو میں نے اصرار کیا
کیونکہ میں جانتا ہوں
کہ یہ دنیا
کیول ایک چنتا گھر ہے
اس میں ہزاروں سال سے رہنے والے کو بھی
رہنے کے لیے
ایک پل بھی میسر نہیں
کیونکہ اک اک پل کا
دام چکانا پڑتا ہے
پہاڑ ایک ذرہ کے ہاتھوں
بک جاتا ہے
میں مر رہا ہوں
مگر اس سے پہلے
میں نے ایک التجا کی ہے
کہ مجھے اک اک پل کا
دام چکا کے مرنے دیا جائے
میرے نام کے
ان گنت نام درج ہیں
ٹھیک ہے
میرے وہ تمام الفاظ ہی تو
اکارت گئے نا
جو محض ایک جھوٹ کے نام
لکھے گئے
مگر اب کچھ جاننے کے لیے
رہ کیا گیا ہے
کہ اگر میرا سچ اتنا بڑا تھا
تو اسے چھوٹا کرنے کے لیے
سیاہی سے بھری دوات
قلم دان سے پرے
کیوں الٹ دی گئی
میں مر رہا ہوں
مگر مجھے اک اک پل کا
دام چکا کے مرنے دیا جائے
اور ایک درخت بھی
بچ گیا ہے
تو لے جاؤ اسے لے جاؤ
*******
احمد ہمیش ، ۸ ستمبر ۲۰۱۳ء کی شب کراچی میں انتقال کر گئے اور کراچی میں ان کی نماز جنازہ ہوئی مسجد بابا موڑ نارتھ کراچی میں ادا کی گئی اور سخی حسن قبرستان، شمالی ناظم آباد، کراچی میں پیوند خاک ہوئے۔
***
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...