ابھی چند دن قبل احمد فراز پر میری ایک پوسٹ " اے مری جان کے دشمن تجھے اللہ پوچھے" پر احمد فراز کا بہت چرچا ہوا اُن کی شاعری پر اُن کے چاہنے والوں نے ایسے دلچسپ تبصرے کئے جن میں فراز سے اُن کی عقیدت نمایاں ہوتی تھی۔ فراز ٹرکوں ، بسوں پر لکھا جاتا ہے آٹو رکشہ اور ویگنوں پر ، مسافر خانوں ، لاری اڈوں ، حتی کہ کسی چک ۵۳ کے کھیتوں میں گھومنے والی ٹریکٹر ٹرالی ہی کیوں نہ ہو ، فراز ہمیں وہاں بھی مل جاتا ہے۔ یہی نہیں ، وہ نصابی کتابوں سے لیکر کتابِ دل تک پر لکھا گیا۔ وہ اردو ادب کے اعلی ترین حوالوں میں میں شمار ہوا۔ احمد فراز بلاشبہ بہت چاہا گیا اُس نے دلوں پر حکمرانی کی اور اپنی شاعری کے انمنٹ نقوش چھوڑے۔ بات کسی اور طرف چلی گئی۔ میں نے اپنی اسی پوسٹ کے دوران احمد فراز کو دوبارہ پڑھنا شروع کیا تو میں اُن کی ایک غزل پر آکر رک گیا۔ مجھے فراز کی یہ غزل تجرباتی لحاظ سے قدرے مختلف نظر آئی اِس سے قبل بھی سو بار یہ غزل پڑھی ، سنی گئی لیکن ذاتی طور پر میرا دھیان اس طرف نہیں گیا کہ یہ غزل فراز کی سب سے زیادہ اُداس کیفیت کا اظہار کرتی ہے۔ مجھے فراز اپنی دوسری شاعری میں اِس سے زیادہ اُداس نظر نہیں آئے، وجہ یہ ہے کہ اِس غزل کے پانچوں شعر ایک ہی کیفیت کے ہیں وگرنہ تو غزل کی خوبی یہ ہے کہ اس کے ہر شعر مختلف کیفیات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یوں فراز کی یہ غزل ایک نظم کی صورت میں دکھائی دی کہ نظم اپنی ہیئت میں ایک مخصوص مضمون کا احاطہ کرتی ہے۔ کویت کی تقریب میں احمد فراز سے ملاقات کے دوران میں نے اُن سے اُن کی شاعری کے سینکڑوں پہلووں پر بات کی۔ وہ اس روز خوش مزاجی کی بلندی پر تھے۔ فراز کو ایک جھلک دیکھنے اور ان سے آٹوگراف لینے والوں کی لائنیں لگی تھیں ، جیسے ٹائم کروز کی کسی نئی فلم کا ٹکٹ کھول دیا گیا ہو۔ احمد فراز نے منیرفراز کا ہاتھ پکڑرکھا تھا اُن کی ہاتھ کی پشت پر نسیں اُبھری ہوئی تھیں اور وہ مجھے ساتھ بٹھا کر اپنی شاعری کے پس منظر بتا رہے تھے۔جن اشعار یا نظموں پر "پردہ نشینی" اختیار کرنا ہوتی اُن پر وہ زیرِ مسکرا دیتے ، اُن کی آنکھیں چمک اُٹھتیں تھیں اور وہ بات کو کوئی اور رُخ دے دیتے۔ جس غزل کا ذکر میں آپ سے کر رہا ہوں اس کے بارے میں اب میرے دل میں ایک خواہش سی پیدا ہوئی کہ میں اُن سے یہ سوال بھی کر سکا ہوتا کہ یہ غزل کس مخصوص حالت میں کہی کہ اِس کا ہر لفظ اُداسی کا سمبل دکھائی دیتا ہے، جبکہ آپ کا مزاج ایسا ہے کہ بڑی مشکل سے غزل کا مقطع نکالتے ہیں اور محبوب کی زلفوں پر آجاتے ہیں۔ افسوس ، احمد فراز سے یہ سوال نہ کیا جا سکا۔
لوگ کہتے ہیں کہ اِس غزل کا مقطع تشبیہات کا اعلی ترین نمونہ ہے
آپ اہلِ علم دوستوں کا کیا خیال ہے ؟
غزل پڑھئے ، گرچہ کہ پہلے بھی سو بار پڑھی سنی جا چکی ہے
شعلہ تھا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو
میں کب کا جا چکا ہوں صدائیں مجھے نہ دو
جو زہر پی چکا ہوں تمہیں نے مجھے دیا
اب تم تو زندگی کی دعائیں مجھے نہ دو
یہ بھی بڑا کرم ہے سلامت ہے جسم ابھی
اے خسروانِ شہر قبائیں مجھے نہ دو
ایسا نہ ہو کبھی کہ پلٹ کر نہ آ سکوں
ہر بار دور جا کے صدائیں مجھے نہ دو
کب مجھ کو اعترافِ محبت نہ تھا فراز
کب میں نے یہ کہا ہے سزائیں مجھے نہ دو