احمد فراز کی نویں برسی
ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں ایک روشن خیال ،لبرل،سیکولر، انسانیت پرست اور ترقی پسند انسان رہا کرتا تھا ۔نو سال قبل وہ انسان مرگیا ۔آج اس کی نویں برسی ہے ۔۔۔اسے دنیائے ادب کا درخشندہ ستارہ بھی کہا جاتا تھا ۔بارہ جنوری انیس سو اکتیس کو وہ پاکستان کے ایک خوبصورت شہر کوہاٹ میں پیدا ہوا تھا ۔کوہاٹ کا ایک گاوں ہے جس کا نام میاں خیل جعفر شاہ ہے ،وہاں اس کا جنم ہوا تھا ۔وہ کمال کا رومانوی اور انقلابی شاعر تھا ۔کہتے ہیں وہ مزاحمتی تھا ،انقلابی تھا اور باغی بھی تھا ۔اس شاعر کا حقیقی نام یعنی وہ نام جو والدین مقرر کرتے ہیں یا سوچتے ہیں ،سید احمد شاہ تھا ۔افسانوی نام یا وہ نام جو اس نے اپنے لئے خود تخلیق کیا تھا ،اس کے بارے میں آگے چل کر معلوم ہو جائے گا ۔بھائی پریشان کیوں ہوتے ہیں ،ابھی بتادیا ،تو مزہ کرکرا ہواجائے گا ۔اچھا اس شاعر کے کچھ شعر سنا دیتا ہوں ۔۔۔۔۔ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے ۔۔۔۔۔۔خلقت شہر تو سننے کو فسانے مانگے ۔۔۔۔۔۔یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لئے ۔۔۔۔اب یہی دل ترک تعلق کے بہانے مانگے ۔۔۔۔۔اپنا یہ حال کہ جی ہار چکے،لٹ بھی چکے ۔۔۔۔۔اور محبت وہی انداز پرانے مانگے ۔۔۔۔۔۔۔اس شاعر نے ایک زمانے میں پاکستان چھوڑ دیا تھا ۔اور خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی تھی ۔وجہ یہ تھی کہ دہائیاں پہلے اس پاکستان میں ایک آمر نازل ہوا تھا ،جس کا نام جنرل ضیا تھا ۔اس کے آتے ہی یہ شاعر بیرون ملک چلا گیا ۔برطانیہ رہا ،کینیڈا رہا ،یورپ کے کئی ملکوں میں قیام پزیر رہا ۔لیکن اس جلاوطنی نے اسے انقلابی اور باغی بنادیا ۔آزادی کا متوالہ بنادیا ۔انسانیت کا شاہکار بنادیا ۔اس نے بہترین نظمیں تخلیق کی ۔۔۔شاعر کی شاعری ملاحظہ فرمرمائیں۔۔۔۔۔مسافرت میں بھی تصویر گھر کی دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔کوئی بھی ہو خواب،تعبیر گھر کی دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔وطن سے دور تھی آزادیاں نصیب کسے۔۔۔۔قدم کہیں بھی ہوں ،زنجیر گھر کی دیکھتے ہیں ۔۔۔۔یہ انسان انیس ساٹھ کے بعد ایک کالج میں لیکچرار ہو گیا ۔اسلامیہ کالج پشاور میں نوکری ملی ۔لیکن طبعیت میں بے باکی تھی ،باغیانہ خوشبو تھی ،انسانیت پرستی تھی ،ترقی پسندی کا بھوت سوار تھا ۔آزادی خیال کے نظریئے سے محبت تھی ۔۔ایسا انسان کیسے کسی آمر کے دور میں نوکری کرسکتا تھا ۔اسی وجہ سے نوکری سے برخاست کردیا گیا ۔اب پاکستان میں تو روشن خیالی ،ترقی پسندی اور انسانیت پسندی نہیں چل سکتی ،یہ تو سب کافرانہ ادائیں ہیں ،کیسے اسلامی جمہوری پاکستان میں ایسا انسان لیکچرار رہ سکتا تھا ۔وہ رہتا تو کافرانہ انداز فکر آگے بڑھتی جو نظریہ پاکستان اور مذہب کے لئے خطرناک بھی ثابت ہو سکتی تھی ۔کمال انسان تھا ،اپنی ادبی زندگی میں تین عظیم آمروں سے لڑا ۔یعنی تین طاقتور منافق آمروں کا مقابلہ کیا ۔نام تو آپ سمجھ گئے ہوں گے ۔فیض اور جالب کی طرح کا تھا یہ شاعر ۔اس نے ایک بار یہ بھی کہا تھا ۔۔۔محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے ۔۔۔۔۔۔مگر تیری محفل میں ہم نہ ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔مہندی حسن ،نورجہاں ،طاہرہ سید اور استاد امانت علی خان نے اس شاعر کی نظمیں اور غزلیں گائیں ۔۔۔سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے ۔۔۔۔اب کے ہم بچھڑیں تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں ۔۔۔۔۔۔یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے ۔۔۔وہ بت ہے یا خدا دیکھا نہ جائے ۔۔۔۔کچھ تو آپ سب کو خوبصورت آوازیں یاد آئیں ہوں گی ۔۔اور شاید اس شاعر کے نام کا کچھ اشارہ ان گیتوں اور غزلوں میں آپ کو مل بھی جائے ۔وہ وطن سے بھی محبت کرتا تھا ۔۔۔وہ آمروں کے خلاف جلوس بھی نکالتا تھا ۔۔وہ پریس کانفرسیں بھی کرتا تھا ۔۔وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی بھی چاہتا تھا ۔۔وہ ایوب ،ضیا اور مشرف کے بھی خلاف تھا ۔۔وہ دوہری منافقت کے خلاف بھی مزاحمت کرتا تھا ۔۔۔۔آیا کچھ یاد ۔۔۔نہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ۔۔اس نے احتجاجی نظمیں بھی لکھی تھی ۔۔۔سنا ہے فیض کے بعد وہ اردو شاعری میں سب سے مقبول شخص تھا ۔اس کی کتابیں بہت فروخت ہوتی تھی ۔۔رائلٹی بھی بہت ملتی تھی ۔۔غزلوں اور نظموں میں اس کی جداگانہ شناخت تھی ۔۔۔۔احمد ندیم قاسمی اور منیر نیازی کے ہوتے ہوئے اس نے اپنی الگ شناخت بنائی ۔۔۔اس نے ادب کی سیاہی سے خیال کے اجالے کو طلوع کیا ۔۔۔۔۔اس نے ایک بار کہا تھا ۔۔۔۔۔میرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا۔۔۔۔جو اپنے شہر کو محصور کرکے ناز کرے۔۔۔میرا قلم امانت ہے میرے لوگوں کی ۔۔۔۔۔۔میرا قلم تو امانت میرے ضمیر کی ہے۔۔۔۔۔اسی لئے جو لکھا تپاک جاں سے لکھا ۔۔۔۔اس نے دنیا کو چھوڑتے ہوئے یہ بھی امید ظاہر کی تھی کہ ۔۔یقیں ہے مجھے کہ یہ حصار ستم۔۔۔۔کوئی تو گرائے گا ۔۔۔۔میرے قلم کا سفر رائیگاں نہیں جائے گا ۔۔۔۔۔یہ شخص 25اگست 2008 کو اسلام کے گڑھ اسلام آباد میں انتقال کر گیا ۔۔۔مرنے سے پہلے اس نے یہ بھی کہا تھا ۔۔۔۔۔میں مرمٹا تو وہ سمجھا ،یہ انتہا تھی میری ۔۔۔۔اسے خبر نہ تھی یہ خاک کیمیا تھی میری ۔۔۔جاتے جاتے اس نے یہ بھی کہا تھا ۔۔۔۔۔۔اب کہ ہم بچھڑیں تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں ۔۔۔جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں ۔۔۔۔اس ترقی پسند شاعر کا خواب انسانیت ،امن اور محبت کا پھیلاو تھا ۔۔۔وہ پاکستان کی زمین پر آزادی ،محبت ،امن ،آزادی کو ناچتے گاتے دیکھنا چاہتا تھا ،اس لئے تو وہ تین منافقوں کے ساتھ زندگی بھر لڑتا گیا ۔۔ساتھ ساتھ لکھتا گیا ۔۔۔اس کی شاعری کا بنیادی موضوع محبت اور مزاحمت تھا ۔۔۔اور یہی تخلیقی کام وہ عمر بھر کرتا رہا ۔۔سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں ۔۔۔یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں ۔۔۔۔رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ۔۔۔۔۔اب کے تجدید وفا کانہیں امکاں جاناں ۔۔۔۔۔یاد تجھ کو کیا دلائیں تیرا پیماں جاناں ۔۔۔۔وہ ترقی پسند تحریک کا پاکستان میں آخری بڑا شاعر تھا ۔۔۔۔۔میں نے مانگی تھی اجالے کی فقط ایک کرن فراز۔۔۔۔۔تم سے یہ کس نے کہا کہ آگ لگادی جائے ۔۔۔۔ایک انٹرویو کے دوران اس نے کیا تھا ،فیض احمد فیض کا ساتھ ان کے لئے عظیم سرمایہ ہے ۔۔اس نے ایک سوال کے جواب میں یہ بھی کہا تھا کہ یورپ میں جب وہ جلاوطن کی زندگی گزار رہے تھے تو وہاں انہوں نے یہ دیکھا کہ سوچنے کی آزادی ہے ،بولنے کی آزادی ہے ،کچھ تخلیق کرنے کی آزاادی ہے ،کفر کی آزادی ہے ،چلنے پھرنے کی آزادی ہے ۔مسجد ،مندر اور بار جانے کی آزادی ہے ،ملحدیت کی ،عقیدت پرستی کی ،سب کے لئے آزادی ہے ۔اسی وجہ سے یورپ میں انسانیت ،محبت ،ترقی اور خوشحالی ہے ۔۔۔یورپ کی ترقی کی نشوونما کا سب سے بڑا وسیلہ ہی آزادی ہے ۔اس نے کہا تھا کاش کبھی وہ پاکستان میں یہی کچھ دیکھ سکتے ۔اس نے کہا تھا ضیا نے اسے جیل بھیجا ہے ۔لیکن ایک دن آئے گا جب ضیا اس دھرتی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹ جائے گا اور وہ ہمیشہ آتا رہے گا ۔لیکن اس کی بات سچ ثابت نہیں ہو سکی ۔۔یہاں تو ضیا کا دور ہی روان دواں ہے ۔۔ایک دن کے لئے بھٹو زندہ ہوتا ہے ۔۔۔برسی سالگرہ کے بعد دوبارہ دفن ہو جاتا ہے ۔۔لیکن ضیا تو قبر میں جانے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔اس نے یہ بھی لکھا تھا ۔۔۔۔میرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی ۔۔۔۔میرے قلم نہیں میزان ایسے عادل کی ۔۔۔۔جو اپنے چہرے پر دہرا نقاب رکھتا ہے ۔۔۔۔میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے ۔۔۔اس نے یہ بھی کہا تھا ۔۔۔۔۔۔کہ یہ حصار ستم کوئی تو گرائے گا ۔۔۔۔کیا یہ حصار ستم نواز شریف گراپائیں گے جو آج کل ہروقت لبرل پاکستان کا نعرہ بلند کئے رکھتے ہیں ۔۔جو ہندو کمیونٹی میں جاکر کہتے ہیں کبھی وہ بھی رفیع کی طرح گایا کرتے تھے ۔۔۔۔۔کاش ایسا کر پائیں ۔۔۔ایک بار اس نے لکھا تھا ۔۔۔۔اس نے مجھے چھوڑ دیا تو کیا ہوا ۔۔۔۔میں نے بھی تو چھوڑا تھا سارا زمانہ اس کے لئے ۔۔۔۔اس شخص سے بس اتنا سا تعلق ہے فراز ،وہ پریشاں ہوں تو ہمیں نیند نہیں آتی۔۔۔۔۔۔شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا ۔۔۔۔۔اپنے حصے کی کوئی شمع جلائے جاتے ۔۔۔۔۔۔جتنا آساں تھا تیرے حجر میں مرنا جاناں ،پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے ۔۔۔وہ یہ بھی کہا کرتا تھا کہ اس کا ایک ہی مشن ہے کہ پاکستان اور بھارت کی دوستی ہو جائے ۔۔۔اور اس حوالے سے اس نے ایک نظم بھی لکھی تھی ۔۔۔۔جس کا عنوان تھا ہندوستانی دوستوں کے نام ۔۔۔۔گزر گئے کئی موسم ۔۔۔کئی رتیں بدلیں ۔۔۔۔۔۔اداس تم بھی ہو یارو،اداس ہم بھی ہیں ۔۔۔۔بصارتوں پر وہ تالے پڑیں ہیں کہ دونوں کو سمجھ کچھ نہیں آتا۔۔۔کہ ماجرہ کیا ہے ؟اس کی قبر پر یہ شعر لکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فراز۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پہ نکلا ۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔