(Last Updated On: )
اعلیٰ معیار کی شاعری کرنا مرصع ساز کا ساکام ہے ۔کیونکہ جذبات واحساسات اور تجربات ومشاہدات کے اظہار یا وقوع پذیر حالات وواقعات سے متاثر ہونے کے بعد جب ایک شاعر اظہار کا وسیلہ تلاش کرنے کے لیے شاعری کی کسی ایک صنف کا انتخاب کرتا ہے تو اس سلسلے میں اُس کے پاس طبعیت کا موذوں ہونا ایک بنیادی اورلازمی شرط ہے۔قافیہ و ردیف جوڑنا ہی شاعری نہیں ہے ۔مانا ایک آدمی کو شاعری کرنے کا بہت شوق ہے لیکن شاعری کے لیے اُس کی طبعیت موذوں نہیں ہے تو وہ ہرگز شاعری نہیں کرسکتا ۔پھر یہیں بات ختم نہیں ہوتی، شاعری ایک نازک فن ہے ۔شعر وزن میں ہے یا بے وزن ہے،شعری جمالیات کو ابھارنے کے لیے صنعتوں کا برمحل استعمال کیا گیا ہے یا نہیں ۔گویا وزن ،بحر،ارکان اور قافیہ و ردیف کی درستی کو سمجھنے، جاننے اور پرکھنے کے لیے علم عروض سے واقفیت ضروری ہے ۔پہلے زمانے میں شاعری سیکھنے کے لیے کسی ماہر عروض اور کہنہ مشق شاعر کے آگے زانوے تلمّذ تہہ کرنا پڑتا تھا ۔کئی برسوں تک شعر کہنے کی مشق کروائی جاتی تھی ۔اُس کے بعد شاگرد اپنے استاد کی دعائیں لیتا ہوا رخصت ہوتا تھا لیکن عصر حاضر میں شاعری سیکھنے کی یہ صحت مند روایت ختم ہوچکی ہے ۔ اب شاعری کے شوق میں لوگ کیا کیا کہتے ہیں ! اللہ ہی حافظ ہے۔دراصل شاعر وں کی دو قسمیں ہوتی ہیں ایک وہ جو فطری طور پر شاعر ہوتے ہیں ۔دوسرے وہ جو فن شعر وشاعری سیکھنے کے بعد ارادتاً شاعری کرتے ہیں ۔فطری شاعرپیدائشی طور پر شاعر ہوتے ہیں چونکہ اُن کی طبعیت شاعری کے لیے موذوں ہوتی ہے ۔ایسے شاعروں کو علم عروض سیکھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی یعنی وہ بہ تکلف شاعری نہیں کرتے بلکہ شعراپنے آپ اُن کی زبان پہ جاری ہوجاتا ہے ۔ایسے فطری شاعروں کے لیے علم عروض سیکھنا ،سمجھنا اور اُسے برتنا آسان ہوتا ہے۔ عصر حاضر میں شعرا کاایک تیسرا گروہ بھی ہے جو نہ فطری طور پر شاعر ہیں اور نہ ہی قصداً شاعر ہیں لیکن اُنھیں شاعری کا صرف شوق ہوتا ہے، ایسے ہی شاعروں کو متشاعر کہا جاتا ہے ۔ظاہر ہے شاعری پہ قدرت نہ ہونے کی صورت میں ایسے متشاعروں کو پشیماں ہونا پڑتا ہے ۔
احمد علی برقی ؔ اعظمی کا شمارفطری شاعروں میں ہوتا ہے ۔اُن کی طبعیت شاعری کے لیے بہت زیادہ موذوں ومناسب ہے ۔اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ اُنھیں شاعری وراثت میں ملی ہے ۔کیونکہ اُن کے والدِ محترم رحمت الٰہی برق ؔ اعظمی اپنے زمانے کے ایک باکمال شاعر تھے ۔جس کا اعتراف احمد علی برقی اعظمی نے ایک جگہ ان اشعارمیں کیا ہے:
میرے والد کا نہیں کوئی جواب
جو تھے اقصائے جہاں میں انتخاب
اُن کا ہے مرہونِ منت میرا فن
آج میں جو کچھ ہوں وہ ہے اُن کا خواب
اُن کے تھے اُستاد نوحؔ ناروی
داغ ؔ سے جن کا سخن تھا فیضیاب
………
احمد علی برقی ؔ اعظمی کی کئی شعری جہات ہیں ۔اُنھوں نے حمد،نعت،منقبت ،غزل،نظم اور عظیم مر حوم شخصیات کو منظوم خراج عقیدت اور بہت سی زندہ شخصیات کو جس خلوص ومحبت کے ساتھ خراج تحسین پیش کیا ہے وہ قابل تعریف اور قابل داد ہے۔برق رفتارشعری صلاحیتوں کے حامل احمد علی برقیؔ اعظمی کے پاس اردو ،فارسی ،انگریزی اور ہندی الفاظ،محاورات اور ضرب الامثال کا بیش بہا ذخیرہ موجود ہے ۔ایک طرف جہاں شاعری کے لیے اُن کی طبعیت موذوں ہے تو دوسری طرف فن شاعری سے بھرپور واقفیت کے علاوہ وسیع مطالعے ومشاہدے نے اُن کی شاعری کوغیر معمولی شاعری بنادیا ہے ۔اُن کے اشعار میں ایک ایسی فطری کشش ہے جو دل پر اثر کرتی ہے ۔اُنھوں نے عصری میلانات وحادثات کو اپنے کلام میں بڑی سلاست وروانی اور اسلوب کی تازہ کاری کے ساتھ پیش کیا ہے ۔اُن کی موضوعاتی اور فی البدیہہ شاعری بڑی کمال کی شاعری ہے ۔
احمد علی برقی اعظمی کے دو شعری مجموعے’’روحِ سخن‘‘اور ’’محشر خیال‘‘میرے مطالعے میں رہے۔اوّل الذّکر مجموعے میں شاعرکی روح لطیف جذبات واحساسات اور تغزل کی بساط میں سرگرداں ہے جب کہ دوسرے مجموعے ’’محشر خیال‘‘میں شاعر زندگی کی حشرسامانیوں اور ذہنی کلفتوں کا اظہار بڑی تازہ کاری اورقادرلکلامی کے ساتھ کرتا نظر آتا ہے ۔
’’روح سُخن ‘‘464صفحات پر مشتمل ہے جس کی ضخامت میں شاعرنے اپنی شاعری کی روح پھونک دی ہے ۔تخلیق کار پبلشرزدہلی نے اس شعری مجموعے کو 2013ء میں نہایت دیدہ زیب صورت میں شائع کیا ہے ۔ احمد علی برقی اعظمی نے اس کا منظوم ا نتساب اپنے والد محترم رحمت الٰہی برقؔ کے نام کیاہے۔فہرست میں جن سخن شناسوں نے احمد علی برقی ؔاعظمی کی شعری عظمت اور اُن کی شعرگوئی پر مضامین لکھے ہیں اُن میں سرور عالم رازؔ سرور ،مظفر احمد مظفرؔ،عبدالحی،ڈاکٹر تابش مہدی،ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی،عزیز بلگامی،سید ضیا خیر آبادی،ڈاکٹر سیّدہ عمرانہ نشتر خیر آبادی،اسرار احمد رازی ؔ قاسمی،ڈاکٹر محمد صدیق نقوی،ڈاکٹر غلام شبیر رانا،انور خواجہ،حسن امام حسن اورڈاکٹر واحد نظیرؔ شامل ہیں کہ اُنھوں نے جو کچھ تحریر کیا ہے وہ برقی ؔنوازی کے ساتھ ساتھ قاری کی معلومات کے لیے کافی ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ احمد علی برقیؔ اعظمی نے اپنا اور اپنے مذکورہ شعری مجموعے کا تعارف بھی منظوم صورت میں کرایا ہے ۔اس کے بعد انھوں نے خالق کائنات کی حمد اور نعت رسول مقبول ﷺ سے اپنے کلام کا آغاز کیا ہے ۔ظاہر ہے احمد علی برقی اعظمی ایک قادرالکلام شاعر ہونے کے ساتھ اپنی عملی زندگی میں ایک توحید پرست،صوم وصلوٰۃ کے پابند اور سب کا بھلا چاہنے والے انسان ہیں ۔اس لیے اُن کی حمدیہ ونعتیہ شاعری میں بھی توحید ورسالت ﷺ کی جگمگاہٹ نظر آتی ہے ۔’’روح سخن‘‘کے بارے میں ضیا خیر آبادی نے اپنے تاثرات کااظہار ایک جگہ ان الفاظ میں کیا ہے :
’’ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی صاحب کا بہترین مجموعۂ کلام ’’روح سخن‘‘اپنی آب وتاب کے ساتھ منظر عام پر آگیا ہے
جو قابل دید بھی ہے اور قابل داد بھی ۔جیسا کہ اس مجموعہ ٔ کلام کے عنوان سے ظاہرہے ،بلاشبہ یہ شعر وسخن کی روح ہے۔
سمندر سے گہرا اور وسیع ۴۵۰صفحات پر محیط یہ شعری مجموعہ تشنگانِ ادب کو اس کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہونے کی دعوت دے رہا ہے ۔اس کا ہر ہر شعر ایک سچے موتی کی طرح آب دار ہے ۔حمد ،نعت اور غزلوں سے آراستہ ڈاکٹر برقی اعظمی کا یہ خوب صورت کلام اردو ادب کا ایک بہترین اور بیش قیمت سرمایہ ہے جس کا اندازہ ارباب بصیرت بخوبی کرسکتے ہیں ۔حُسن وعشق ،وصال وفراق،سوزوگداز،سیاست،ٹکنولوجی،آج کے حالات ،اس دور کے عصری تقاضے اور زندگی کے جن موضوعات اور مسائل کو آپ نے اپنے جادوئی قلم کی نوک سے چھوا ہے اُسے منور کردیا۔
جذبات ،احساسات،خیالات ،لفظیات اور نظریات کے ٹکسال میں دُھلی ہوئی یہ بیش بہا دولت ایک حق پسند ،خلوص کے پیکر اور ایک عظیم شاعر ومفکر کا سرمایۂ حیات ہے‘‘1
(1۔سید ضیا خیر آبادی، ’’برقی اعظمی کی’’ روح سخن‘‘پر میرے تاثرات‘‘مشمولہ۔’’روح سخن‘‘ تخلیق کار پبلشرزلکشمی نگردہلی2013ء ص 46)
مندرجہ بالا اقتباس کے تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ سید ضیا خیر آبادی نے احمد علی برقی اعظمی کی’’روح سخن‘‘ میں شامل شاعری کامکمل احاطہ کیا ہے ۔
دراصل احمد علی برقی ؔاعظمی فطرتاً ایک موحد اور عاشق رسولﷺ ہونے کے علاوہ اپنی عملی زندگی میں شریف النّفس ، منکسرالمزاج ،نرم خو اور شگفتہ وشائستہ انسان ہیں۔
اُن کے یہی اوصاف حمیدہ اُن کی شاعری میں بھی اپنے فکری اور نظریاتی ارتکاز کے ساتھ در آئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا ایک جگہ وہ اپنے اشعار میں اس طرح کرتے ہیں :
خدایا کرم گستری کر ہماری
ترا فیض ِ رحمت ہے ہر سمت جاری
نہیں کوئی شے تیری قدرت سے باہر
ہیں شاہ وگدا تیرے در کے بھکاری
……
میں شکرادا کیسے کروں تیرے کرم کا
’’حقا! کہ خدا وند ہے تُو لوح وقلم کا‘‘
تیرا فضل و کرم ہے بے پایاں
تونے کوئی نہیں کمی بخشی
بعد اپنے نبیٔ اکرم ﷺ کو
تونے ہر شے پہ برتری بخشی
……
’’روح سخن ‘‘میں جہاں احمد علی برقیؔ اعظمی نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بہترین اشعار میں پیش کی ہے تو وہیں انھوں نے رحمت عالم اور محسن انسانیت حضرت محمدﷺ کی پاک سیرت اور نورانی زندگی کے بارے میں بھی بہت سی نعتیں درج فرمائی ہیں ۔مثلاً اُن کی نعتیہ شاعری کے چند نمونے ملاحظہ کیجیے:
’’اے خاصۂ خا صان ِ رسل‘‘ شاہ مدینہ
طوفان ِ حوادث میں ہے اُمّت کا سفینہ
اس دور ِ پُر آشوب میں اب جائیں کہاں ہم
ہم بھول گئے ایسے میں جینے کا قرینہ
……
مسلماں ہو کہ ہندو ہو یہودی ہو کہ عیسائی
سبھی پر جاری وساری ہے شفقت اُن کے فیضاں کی
اُنھیں کی ذات اقدس منبع ِ رُشد وہدایت ہے
وہی ہیں روشنی کون ومکاں میں شمع ِ عرفاں کی
ہے عملی زندگی قرآن ِ ناطق اُ ن کی دنیا میں
وہی ہیں در حقیقت روح برقیؔ د ین و ایماں کی
……
کسی بھی شعر وادب کے فن پارے کا قاری اپنی قلبی وذہنی تشفی کا سامان فن پارے میں تلاش کرتا ہے ۔یہ قاری کی ذہنی سطح اور ذ وقِ وجدان پر منحصر ہے کہ وہ کیا پڑھنا چاہتا ہے اور کیا نہیں لیکن جہاں تک ایک سنجیدہ قاری کا تعلق ہے وہ ادبی یا شعری فن پارے میں زندگی کی آفاقیت اور صداقت کی تلاش میں رہتا ہے ۔وہ انسانی قدروں اور ادبی جمالیات کا گرویدہ ہوتا ہے ۔وہ تخلیق کار کی سوچ اور اُس کی فکری بلندی پر نظر رکھتا ہے۔وہ صرف یہ نہیں دیکھتا ہے کہ فلاں ادیب وشاعر نے اپنے فن پارے میں کیا پیش کیا ہے بلکہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ اُس نے وہ سارا مواد کس اسلوب میں پیش کیا ہے ۔اسے جنسی تلذّز آمیز اور مخرب اخلاق باتیں پڑھنے سے کوفت ہوتی ہے ۔ایسی باتوں سے وہ حزن وملال محسوس کرتا ہے ۔اس اعتبار سے جب ہم احمد علی برقیؔ اعظمی کی شعری کائنات ’’روح سخن‘‘ میں داخل ہوکر اُسے جانچتے پرکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے زندگی کی صداقتوں ،اقدارِ عالیہ ،حالات حاضرہ اور مسائل حیات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے ۔مزیدبرآں اُن کی موضوعاتی رنگا رنگی اور تازہ کاری جس انداز میں جلوہ گرہے وہ اُن کی شعری انفرادیت کو متعین کرتی ہے ۔وہ چاہے اُن کی حمدیہ ونعتیہ شاعری ہو یا موضوعاتی وعشقیہ شاعری یا فی البدیہہ شاعری ہر مقام پہ انھوں نے متانت وسنجیدگی سے کام لیا ہے ۔جیسا کہ اس بات کاذکر ہوچکا ہے کہ احمد علی برقیؔ اعظمی کا مطالعہ وسیع اور حیات وکائنات کے تئیں اُن کا مشاہدہ کافی گہرا ہے اور پھر اتنا ہی نہیں بلکہ انھیں تو فن شاعری پر بھی خاصا عبور حاصل ہے جو اُن کی موزوں شاعرانہ طبعیت کے لیے سونے پہ سہاگہ ہے۔اُن کے بیشتر اشعار اُن کے قلبی احساسات وواردات،صادق جذبات ،الفاظ اور زبان کے برتاؤ میں اُن کی گہری معنویت کا خیال،پُر تاثیر اشاراتی کیفیات اور سب سے بڑی مستحسن بات یہ کہ انھوں نے اپنی مشرقی روایات اور تہذیبی میراث کے تحفظ کو اپنامطمح نظر قراردیا ہے ۔اُن کے شعری متون اس بات کا اظہاریہ ہیں کہ انھوں نے ادب،تہذیب وثقافت یہاں تک کہ تاریخ کی عمدہ اور عزیزاقدار کو اپنی فکری وفنی کاشوں کا موضوع بنایا ہے ۔یہاں اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ مندرجہ بالا بیانات کی توثیق کے لیے احمد علی برقیؔ اعظمی کے اشعار کوبطور حوالہ پیش کیا جائے:
برقیؔمرا پیغام ہے یہ اہل جہاں کو
قائم کریں ایثار ومحبت کی روایت
……
ہے اُس کو میری فکر جو ہے میرا کارساز
مجھ کو بتوں سے ڈر نہیں میں ہوں خدا پرست
……
عرب ہو یا ہو عجم سب ہیں مہرۂ شطرنج
بساط دہر پہ حاوی ہیں وہ جو ہیں چالاک
……
ہوتا ہے مجروح تقدس آج عبادت گاہوں کا
زد میں ہے اہل سیاست کی اب مسجد بھی بتخانہ بھی
……
رہ ِ زندگانی میں چلنا سنبھل کے
ملا یہ سبق موج ِ طوفاں میں پل کے
یہ ہیں رہنما دیکھئے آج کل کے
جو ہر روز آتے ہیں چہرے بدل کے
……
کرو عقبیٰ کی فکر اے برقیؔ
’’چاردن کی بہار ہے دنیا‘‘
……
دیار شوق میں جس کو بھی ہمسفر جانا
وہ راہ زن تھا اُسے میں نے راہبر جانا
جو اہل فضل وہنر تھے وہ تھے پس پردہ
زمانہ ساز تھا جس کو بھی دیدہ ور جانا
………
اوپر درج کیے گئے اشعار سے احمد علی برقی ؔ اعظمی جیسے قادرالکلام اور کہنہ مشق شاعر کا جذبہ ،خیال اور مشاہدہ کئی نصیحت آمیز باتوں کا انکشاف معلوم ہوتا ہے۔کہیں وہ محبت وروایت کا پیغام دیتے ہیں ،کہیں اپنے توحید پرست ہونے کی بات کرتے ہیں ۔کہیں عرب وعجم کو شطرنج کا مہرہ خیال کرتے ہیں اور کہیں سیاست دانوں کو نشانہ بناتے ہیں کہ جنھوں نے اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کے لیے بتخانہ اور مسجد کا تقدس پامال کیا ہے۔کہیں وہ زندگی میں سنبھل کے چلنے کی تلقین کرتے ہیں اور کہیں دنیا کی ناپائداری کا ذکرتے ہیں اور کہیں رہبر کے روپ میں انھیں رہزن نظر آیا ہے۔غرضیکہ بہت سی تلخ حقیقتوں کا بیان مندرجہ بالا اشعار میں نظر آتا ہے ۔
’’روح سخن ‘‘میں بہت سے اشعار ایسے بھی مل جاتے ہیں جو ر وایتی غزل سے تعلق رکھتے ہیں یعنی وہی محبوب کا حسین سراپا،اُس کاگلابی چہرہ،اُس کی ناز وادا اور اُس کے ترک تعلقات اور بار بار کے ستم میں عاشق کا جھنجھلانا ۔لیکن اس سب حالت زار کے اظہار میں شاعر نے کہیں بھی تہذیب وشائستگی کا دامن نہیں چھوڑا ہے ۔تشبیہات واستعارت کے علاوہ اشاروں کنایوں میں بڑے لطیف جذبات واحساسات اور معاملات کو بیان کیا ہے۔نمونے کے طور پر چند اشعار پر دھیان دیجیے:
گلبدن،غنچہ د ہن ا ور گلابی چہرہ
سر سے پاتک تھا وہ گل پوش کتابی چہرہ
دیکھ کر اُس کو کسی گل کی تمنا نہ رہی
آج تک دیکھا نہیں ایسا جوابی چہرہ
ایسا مشاطۂ فطرت نے سنوارا تھا اُسے
دُرّ شہوار کی مانند تھا آبی چہرہ
……
کروں میں لاکھ کوشش اُس کی من مانی نہیں جاتی
اسی باعث مری ذہنی پریشانی نہیں جاتی
……
تھا بہت صبر آزما یہ انتظار
بارِ ناز اُس کا اُٹھایا دیر تک
آتش ِ سیال تھا میرا لہو
میرا خوں اُس نے جلایا دیر تک
میں ورق اُس کی کتاب ِ حسن کا
چاہ کر بھی پڑھ نہ پایا دیر تک
……
ترکِ تعلقات کی دھمکی نہ دے مجھے
سوہان ِ روح ہیں یہ ستم بار بار کے
……
احمد علی برقی ؔ اعظمی نے جدید ٹکنالوجی، ماحولیاتی زندگی ،حالات کی ستم ظریفی اور بین الاقوامی مسائل کے پیش نظر کچھ ایسے اشعار کا بھی اندراج کیا ہے جن میں صداقت بھی ہے اور شاعرانہ نزاکت بھی ۔ اُن کے شعری سرمائے میں کوئی بھی ایسا شعر نظر نہیں آتا جوغیر منطقی اور غیر عقلی ہو۔آج کے سائنسی ،تکنیکی اور سوشل میڈیائی دور میں جہاں اخلاقی ،روحانی اور تہذیبی قدریں ختم ہوچکی ہیں وہیں اُن اقدار عالیہ کی شکست وریخت کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرہ وجود میں آچکا ہے جو ہمدردی،خلوص وفا اور امن وسلامتی کے بجائے نفرتوں اور فرقہ پرستی کا کاروبار کررہا ہے ۔احمد علی برقی ؔاعظمی نے اُن تمام منفی رجحانات اور ذہنی کوفتوں کو اپنی شاعری میں مسترد کیا ہے ۔اس حوالے سے اُن کے درج ذیل اشعار ملاحظہ کیجیے:
کیوں امن کے دشمن ہیں بہم دست وگریباں
دہشت کی خرافات ادھر بھی ہے اُدھر بھی
نفرت کی یہ د یوار گرا کیوں نہیں دیتے
جو وجہہِ فسادات اِدھر بھی ہے اُدھر بھی
جھگڑا ہے کہیں رنگ کہیں نسل کا برقیؔ
اک یورش ِ آفات اِدھر بھی ہے اُدھر بھی
………
ہے اشکبار دیکھ کے برقیؔ یہ ماجرا
دامن کیا پسر نے پدر کا لہو لہو
……
ہے پیش ِ نظر میرے حق گوئی وبیباکی
منھ داور ِ محشر کو اک روز دکھانا ہے
……
زندگی میں اہل فن کو پوچھتا کوئی نہیں
قدر کرتی ہے یہ دُنیا اُن کے مرجانے کے بعد
……
وقت یکساں نہیں رہتا ہے ہمیشہ برقیؔ
دیکھتے دیکھتے حالات بدل جاتے ہیں
……
اوج پر ہے اب گلوبل وارمنگ
رونق بزم جہاں کل ہو نہ ہو
……
آج حاصل ہے تجھے اوج ِ کمال
دیر لگتی نہیں آنے میں زوال
عرش سے فرش پہ آجائے گا
دیر پا ہوتا نہیں جاہ و جلال
……
نہیں معلوم ہے جن کو قرینہ ستر پوشی کا
چھپیں وہ لاکھ پردوں میں بھی عریانی نہیں جاتی
……
صورت اور سیرت میں امتیاز مشکل ہے
ہے ہر ایک چہرے پر ایک دوسرا چہرہ
……
منحصر ہے آج انٹر نیٹ پہ دنیا کا نظام
اشہب ِدوراں کی ہے اس کے ہی ہاتھوں میں لگام
’’ ورلڈ وائڈ ویب‘‘ میں ہے ممتاز ، گوگل ڈاٹ کام
استفادہ کرر ہے ہیں آج اس سے خاص وعام
ہیں ’’ریڈف میل ‘‘اور’’یاہو‘‘ بھی نہایت کار گر
جاری وساری ہے ان کا بھی سبھی پر فیض عام
………
بہرحال ’’روح سخن ‘‘میں ہماری ملاقات احمد علی برقی ؔ اعظمی جیسے ایک ایسے شاعر سے ہوتی ہے جو جہاں دیدہ اور تجربہ کار ہے جس نے زندگی کے کئی نشیب وفراز دیکھے ہیں ۔حیات وکائنات کی صداقتوں کو شعری جامہ پہنایا ہے ۔گویا ہم ایک ایسی شاعری سے لطف اندوز ہوتے ہیں جس کی روح ہماری روح میں تحلیل ہونے کے بعد ہمیں قلبی سکون اور ذ ہنی حظ محسوس ہونے لگتا ہے۔
…………
احمد علی برقی اعظمی کی دوسری شعر ی سوغات ’’محشرخیال‘‘کے عنوان سے 2019ء میں مرکزی پبلی کیشنز کے زیر اہتمام شائع ہوئی جس کا صوری ومعنوی حسن قاری کو خاصا متاثر کرتا ہے ۔اس میں بھی موصوف نے شعری لوازمات کا خیال رکھتے ہوئے اپنی موذونی ٔ طبع کا آہنگ قائم رکھا ہے ۔البتہ اس شعری مجموعے میں شاعر کے حالات وواقعات اور احساسات ومحسوسات کا ایک ایسا جہاں نظر آتا ہے جس میں سوزوگداز اور قلبی واردات نے شدت اختیار کرلی ہے ۔عشق وعاشقی کی رنگین مزاجی اور جام وساغرکایہاں گزر نہیں ہے ۔465 صفحات پہ پھیلا یہ شعری مجموعہ معنی آفرینی کے ساتھ بصیر ت افروز اشعار سے پُر ہے۔خیال میں ایک محشر بپا ہے اور انسانی اقدار وروایات کی شکست وریخت پر شاعر ماتم کناں ہے ۔’’محشر خیال ‘‘پر جن اہل نقد ونظر نے اپنے مضامین و تاثرات قلم بند کیے ہیں اُن میں پروفیسر شمیم حنفی،فیاض شہر یار،حقانی القاسمی،امین بنجارا،نقشبند قمر نقوی بخاری،ایم زیڈ کنول لاہور،مظفر احمد مظفرلندن،عزیز بلگامی،سید وحید القادری عارف،ڈاکٹر محمد یحیٰ صبا ،ڈاکٹر جی آر کنول،سہیل انجم،ڈاکٹر مجیب شہزراور محمد ولی اللہ ولیؔ شامل ہیں ۔ان تمام حضرات نے’’ محشر خیال ‘‘کے حوالے سے یہ ثابت کیا ہے کہ احمد علی برقی اعظمی ایک قد آور شاعر ہیں جن کا شعری انفراد اُن کی فی البدیہہ اور موضوعاتی شاعری کے باعث قائم ہواہے۔
شاعری خوب صورت اور موذوں الفاظ کی مالا پرونے کا نام بھی ہے ۔ جذبہ،تخیل،احساس ا ور تصور جب الفاظ کے آہنگ میں ڈھل جاتے ہیں تو دل پہ اثر کرنے والی شاعری وجود میں آتی ہے ۔شاعر کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک شعر اور مصرعے میں بہت کچھ کہہ جاتا ہے کہ جس کے بیان کے لیے ایک نثر نگار کو کئی صفحات درکار ہوتے ہیں ۔ اردو شاعری میں لاتعداد شعرا کا عمل دخل رہا ہے لیکن سبھی میرؔ وغالبؔ، داغؔ ومومنؔ اور ذوقؔ وفراقؔ اورفیض ؔ کے مقام ومرتبے کو نہیں پہنچ پائے۔شاعری جس محنت وریاضت اور جگر سوزی کا تقاضا کرتی ہے ،بہت سے شعرا وہ تقاضہ پورا نہیں کرپاتے۔یہ بات باعث مسرت ہے کہ احمد علی برقی اعظمی نے شاعری کے مقتضیات کو ہر ممکن پورا کرنے کی کوشش کی ہے ۔انھوں نے اپنی خداداد صلاحیت کی بنیاد پر ایسے اشعار نکالے ہیں جو ضرب المثل بھی ہیں اور آفاقیت سے مملو بھی۔لہٰذا آئیے اُن کے دوسرے شعری مجموعے’’محشر خیال‘‘سے ماخوذ کچھ اشعار پر اپنی توجہ مبذول کرتے چلیں:
کیسے کروں میں گردش ِ دوراں کی شرح ِ حال
برپا ہے میرے ذہن میں اک محشر خیال
سوزِ دروں نے کردیا جینا مرا محال
قلب وجگر کے زخم کا کب ہوگا اندمال
……
ملتے ہیں میر،جعفر و صادق نئے نئے
ہے بھیڑ یوں کے جسم پہ انسان کی آج کھال
جو آج زر خرید ہیں اُن کا عروج ہے
جوسر بلند تھے اُنھیں درپیش ہے زوال
……
جاتے ہوئے جاوے ہے عزیزوں کو رُلاکر
مولود جو روتا ہو ا سنسار میں آوے
……
ہے یہ کردار کشی اس کو صحافت نہ کہیں
کر کے بد نام نہیں نام کما یا جاتا
……
ذہن حیران و پریشان ہے آئے کوئی
سخت مشکل میں مری جان ہے آئے کوئی
……
میں نے اپنے دوستوں کو آزمایا ہے بہت
میرے اپنوں نے ہی خود مجھ کو ستایا ہے بہت
……
اپنے ہمسائے سے وحشت زدہ ہمسایہ ہے
خود ڈراتا ہے ہمیں آج یہ سایہ اپنا
……
ہر اک چہرے پہ آئے جب نظر اک دوسرا چہرہ
فریب ِ رنگ و بو انسان اکثرکھا ہی جاتا ہے
……
محولہ اشعار میں احمد علی برقیؔ اعظمی نے سماج ومعاشرے میں پنپ رہی جن فریب کاریوں کو موضوع بنایا ہے وہ تشویشناک ہیں کیونکہ دوستی کے نام پہ دشمنی اور ظاہر وباطن میں فرق کرنا ایک حساس اور تجربہ کار آدمی ہی کرسکتا ہے ۔ان اشعار میں ایسی تلخ سچائیاں در آئی ہیں کہ کسی نہ کسی صورت اورمقام پہ ہمارا واسطہ ایسے لوگوں سے پڑتا رہتا ہے جن کے قول وفعل میں تضاد پایا جاتا ہے ۔دراصل دشمن سے ہمیں اتنا نقصان نہیں پہنچتا جتنا ایک منافق سے پہنچتا ہے ۔احمد علی برقی اعظمی چونکہ ایک زود گو اور قادرالکلام سخنور ہیں اس لیے اُنھوں نے اپنے تلخ تجربات ومشاہدات کو جس دلکش شاعرانہ انداز میں پیش کیا ہے وہ اُنہی کا حصہ ہے ۔’’محشر خیال‘‘کی شاعری کے حوالے سے پروفیسر شمیم حنفی نے اُن کے بارے بجا طور پر ایک جگہ لکھا ہے:
’’احمد علی برقیؔ صاحب کا مسودہ ’’محشر خیال‘‘اپنی وسعت اور رنگارنگی کے لحاظ سے واقعی ایک محشرستان ہے۔وہ بلاکی خلاقی کے مالک ہیں ۔اشخاص ہوں یا واقعات وہ سب سے یکساں شغف رکھتے ہیں ۔بدیہہ گوئی کا ملکہ اُن کی طبعیت میں حیرت انگیز ہی کہہ سکتے ہیں ۔وہ چلتے پھرتے شعر کہہ لیتے ہیں اور ہمیں اُن کہنہ مشق ،زبان وبیان پر گرفت رکھنے والے استاد شاعروں کی یاد دلاتے ہیں جو موضوع اور مسٔلے کی قید سے یکسر آزاد تھے اور کسی بھی تجربے کو اپنا شعری اورتخلیقی تجربہ بنا سکتے تھے۔اُن کے اس مجموعے میں مضامین کی جیسی کثرت دکھائی دیتی ہے ،اُن کے ہم عصر شاعروں کے یہاں کم ہی نظر آئے گی ‘‘2
( 2۔شمیم حنفی’’ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی:ایک زود گو اور قادرالکلام سخنور‘‘مشمولہ’’ محشر خیال‘‘مرکزی پبلی کیشنزنئی دہلی2019ء ص11)
اصل بات یہ ہے کہ جب زندگی کی تلخیاں شعری پیراہن اختیار کرلیتی ہیں تو وہ پڑھنے والوں کے لیے درس بصیرت کا سامان بنتی ہیں ۔زندگی چونکہ بذات خود ایک خوشگوار دائمی تسلسل کانام نہیں ہے بلکہ اس میں رنج والم ،ذہنی کوفتیں اور ناخوشگواریوں کا زیادہ عمل دخل رہتا ہے ۔بہت کم لوگ ہوتے ہیں جنھیں زندگی کو اصولوں اور ضابطوں کے مطابق گزارنے کا سلیقہ ہوتا ہے ۔اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ خوشگوار زندگی جینا بھی ایک کلا ہے ۔فطری اصولوں کی خلاف ورزی اور وقت وحالات کے ساتھ عدم مطابقت ہر کسی کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتا ہے ۔احمد علی برقیؔ اعظمی کے ان اشعار میں دیکھئے کتنی صداقت ہے :
جسے اپنا سمجھتا تھا پرایوں سے بھی بدتر ہے
مری اوقات آکر وہ مجھے بتلا ہی جاتا ہے
پرائے اور اپنے دفن کر کے لوٹ آتے ہیں
جو تنہا آیا ہے دنیا سے وہ تنہا ہی جاتا ہے
……
ابن آدم کی کبھی پوری نہیں ہوتی ہوس
وہ سمجھتا ہے ابھی سامان آدھا رہ گیا
علم ظاہر اور باطن لازم وملزوم ہیں
جو نہ سمجھے اس کو وہ انسان آدھا رہ گیا
……
بپا ہے حشر سے پہلے ہی محشر
کہیں دختر کہیں مادر پڑی ہے
……
نہ آئے کام کسی کے جو زندگی کیا ہے
بشر نواز نہ ہو جو وہ آدمی کیا ہے
……
راتوں کی نیند دن کا سکوں ہوگیا حرام
پوچھا جو کب ملو گے تو بولا کبھی نہیں
……
فطرت کے تقاضوں کا طرفدار ہے شاعر
تہذیب وثقافت کا علمدار ہے شا عر
موضوع سخن جس کے ہوں لوگوں کے مسائل
آزادی ٔ اظہار کا حقدار ہے شاعر
……
رُوے زیبا کو دکھاتے ہیں چلے جاتے ہیں
کیوں نظر مجھ سے ملاتے ہیں چلے جاتے ہیں
حسرت دل مری رہ جاتی ہے دل ہی میں مرے
فرض کیا ایسے نبھاتے ہیں چلے جاتے ہیں
……
مری حالت یہ کیسی ہو رہی ہے
ہنسی کیوں لب سے عنقا ہورہی ہے
چمن میں کیوں ہیں گل دامن دریدہ
خزاں کیوں اس میں کانٹے بو رہی ہے
……
غم والام کی بارات نے سونے نہ دیا
مستقل گردش حالات نے سونے نہ دیا
گھر گیا موج حوادث میں سفینہ میرا
ناگہاں یورش برسات نے سونے نہ دیا
……
ہے آفت ِ جاں اپنے لیے مغربی تہذیب
لوٹا دے مجھے اپنی وہی مشرقی تہذیب
آغاز ہے اس کا ابھی کیا جانے ہوانجام
لائے گی ابھی اور تباہی نئی تہذیب
اسلاف سے ہے نسل جواں اپنے گریزاں
ہے روبہ زوال اپنی وہ اچھی بھلی تہذیب
………
مجموعی حیثیت سے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ احمد علی برقیؔ اعظمی نے اپنے دونوں شعری مجموعوں میں صنف غزل کی روایات کی پاسداری کی ہے ۔ان کے کلام میں موضوعاتی اور لسانی اعتبار سے روایت وجدت کا ایک حسیں امتزاج نظر آتا ہے ۔وہ غزل کی حسیں وادی سے گزرنے کا سلیقہ جانتے ہیں ۔اسی لیے اُنھوں نے جمالیاتی احساس کو غزل میں اس طرح شامل کیا ہے کہ ایک طرف جہان شاعری کو سجادیا ہے تو دوسری جانب احساس کی حدت کے توسط سے اپنے کلام کو تاثیر سے وابستہ کیا ہے ۔اُن کی غزلیہ ،موضوعاتی اور فی البدییہ شاعری سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ انھوں نے غزل کے اظہاری وسیلے کو وسعت دے کر رواں صدی میں شاعری اور بالخصوص غزلیہ شاعری کی اہمیت وافادیت کو حد درجہ مستحکم کردیا ہے۔
٭٭٭٭