یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام کی ترویح و اشاعت میں صوفیائے کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ جس طرح ان کا اثر و رسوخ مسلمانوں میں دیکھا جاتا ہے اس سے یہ دعویٰ بظاہر درست معلوم ہوتا ہے اور صوفیا کی سوانح میں اس ذکر بھی ملتا۔ تاہم اس میں حقیقت نہیں ہے۔ کیوں کہ صوفیا جہاں رہے ہیں وہاں اب بھی مسلمانوں کا اوسط وہی ہے جو ان کی زندگیوں میں تھا۔ صوفیا کے نظریات پر ہر دور میں راسخ عقدیدہ علما تنقید کرتے رہے ہیں۔ ہم جب تصوف کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم پر واضع ہوتا ہے کہ ان کے بہت سے افکار، خیالات اور نظریات، مذہب کے برخلاف یا شریعت کے برعکس ہیں۔ اس کے باوجود انہیں اسلام کے شارع مانا جاتا ہے یا سمجھا جاتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ان کے مخالفوں کا گروہ ہمیشہ ہر دور میں مختصر رہا ہے۔ اس کی نسبت اس کے حامیوں کی ہمیشہ تعدد زیادہ رہی ہے۔
اہل تصوف کو عوام میں احترام اور ان کے افکار اور نظریات کو مقبولیت حاصل رہی ہے اور ان کے مخالفوں میں صرف شیعہ اور اہل حدیث ہی قابل ذکر ہیں۔ باوجود اس کے شیعہ تصوف کے مخالف رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے تصوف اور شیعت نے ایک دوسرے سے بہت کچھ لیا ہے اور تصوف کے ڈھانچے کی تعمیر میں شیعی عقائد کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ خاص کر اہل بیت کی حرمت اور باطن و ظاہر کے متعلق خیالات اور نظریات دونوں میں مشترک ہیں اور ان سے انکار کا مطلب ہے کہ شیعت کی طرح تصوف کی عمارت یک لخت زمین بوس ہونا ہے۔ تصوف اور شیعی عقائد کی قران کریم سے تصدیق نہیں ہوتی ہے۔ لہذا ان کی تصدیق و تائید کے لیے حدیثوں کا سہارا اور قران کریم کی آیتوں کی تاویلیں کی گئیں ہیں۔ اہل تصوف نے شیعوں کی طرح قدیم ہندوؤں اور یونانیوں کے نظریات سے بھی بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ یہی وجہ ہے ہر دور میں تصوف کی حمایت کے ساتھ اس کی مخالفت بھی ہوتی رہی ہے۔ تصوف کے مخالفوں نے انہیں بدعتی کہا ہے اور موقع ملنے پر ان کے خلاف اقدامات بھی کئے گئے۔ اس کی بڑی مثالیں منصور بن حلاج اور شہاب الدین سہروردی کا قتل ہے۔ اس دور کے بہت سے علماء جو کہ تصوف کے خلاف تھے ان پر بدعتی کا الزام لگایا تھا۔ صوفیا کے نذدیک ان دونوں کا درجہ بہت بلند ہے اور انہیں راسخ عقیدہ اور بہت بڑا ولی اللہ مانا جاتا ہے اور عوام میں بھی ان کی مقبولیت کبھی کم نہیں ہوئی اور الزامات کو کبھی اہمیت نہیں دی۔
یہ بھی حقیقت صوفیا کی اکثریت نے کبھی فرائض اسلام سے کبھی کوتاہی نہیں کی ہے۔ چند بدعتی سلسلوں کے علاوہ اکثر نے اسلامی فرائض کی پیروی کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اہل تصوف کے بہت سے نظریات اور عقائد کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مثلاً اہل تصوف کا خیال ہے کہ جب کوئی اعلیٰ مدارج طہ کرلیتا ہے تو اس پر وقتی طور پر ظاہر احکام معطل ہوجاتے ہیں۔ صوفی جب بھی اگر باطن کی بات کرتا ہے تو وہ اپنے تجربات کی بات کرتا ہے، وہ اپنے الہام کی بات کرتا ہے۔ لیکن وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے الہامات اور تجربات کسی اور کے لیے حجت نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے صوفیا ہمیشہ شارع اسلام میں شامل رہے۔ صوفیا پر اس پر کبھی تنقید اس یے نہیں کی گئی کہ وہ فرائض اسلام ادا نہیں کرتے یا انہیں نہیں مانتے ہیں۔ ان پر تنقید کرنے والے بھی تسلیم ہیں کہ وہ فرائض اسلام ادا کرنے میں محتاط ہیں اور ان کی ادائیگی میں کوتاہی کم برتے ہیں۔
اہل تصوف اپنے نظریات و عقائد کا سلسلہ نبی کریم حضرت صلی اللہ محمد صلی اللہ علیہ وصلم سے ملاتے ہیں اور اپنی تاویل و تائید میں بہت سے واقعات و حدیثیں پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق تصوف کے تمام سلسلے نبی کریم حضرت صلی اللہ محمد صلی اللہ علیہ وصلم ملتے ہیں۔ جس کا سماع کے علاوہ کوئی ثبوت نہیں ہے اس لیے ان صحت کو وہی تسلیم کرسکتا ہے جو ان سے عقیدت رکھتا ہو۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے تقریباً ہر صوفی اپنے نظریات، افکار ہا الہامات اور تجربات کا اظہار تو کرتا ہے، لیکن وہ دوسروں کے لیے انہیں حجت کیوں نہیں سمجھتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ صوفیا کے نظریات اور افکار سے اگرچہ شریعت کی نفی ہوتی ہے لیکن صوفیا خود کو نبی کریم حضرت صلی اللہ محمد ﷺ کے امتی مانتے ہیں۔ لیکن وہ شریعت کے برعکس طریقت کی بات کرتے ہیں۔ وہ ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن کی بھی بات کرتا ہے۔ شیعہ فرقوں میں باطن کو بلند درجہ حاصل ہے، لیکن شیعہ اور صوفیا میں فرق یہ ہے کہ شیعہ ظاہری سے زیادہ باطنی احکامات کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض فرقوں میں باطنی اصولوں کو ماننے کے بعد ظاہر احکام معطل ہوجاتے ہیں۔ لیکن صوفیا اس کے ظاہری فرائض پر عمل کرنا اولین فرض سمجھتا ہے اور باطن کو بھی مانتا ہے۔ لیکن اپنے افکار یا نظریات اور تجربات یا خیالات کسی پر ٹھوستا نہیں ہے اور اپنے تجربات اور الہامات کو اپنی ذات تک ہی پابند کرتا ہے۔ اگرچہ ان ان کے اور ان کی پیروی کرنے والوں کے رسوم و عقائد اسلام سے متصادم رہے ہیں اور ان کا تعلق اسلام سے زیادہ مقامی رسومات و عقائد سے رہا ہے اور صوفیا نے ان رسوم و عقائد کی مخالفت نہیں کی ہے۔ انہوں شریعت کی پابندیوں سے زیادہ عشق و رواداری کی بات کی ہے۔ یعنی صوفیا کا تعلق ہمیشہ عوام سے رہا ہے اور اس لیے عوام میں انہیں اور ان کے نظریات کو مقبولیت حاصل رہی ہے۔
اگرچہ راسخ عقیدہ علما کا کے اعتراضات میں صداقت نظر آتی ہے۔ تاہم ان پر عوام نے تو درکنار خواص نے بھی کان نہیں دھرے اور بدستور صوفیائے کرام کو عوام میں مقبولیت حاصل رہی۔ صوفیائے کرام پر سب سے زیادہ اعتراض وحدت الوجود کے عقیدہ پر کیا جاتا ہے۔ جس کے مطابق اللہ مخلوق سے علحیدہ نہیں ہے، بلکہ مخلوق بھی اس کے وجود کا ایک حصہ ہے۔ اس نظریہ کا سب سے پہلے مسلمانوں میں محی الدین عربی نے اپنی ایک کتاب ’فتوحات مکیہ‘ میں اس فلسفہ کا ذکر کیا اور یہ نظریہ صوفیہ میں بہت مقبول ہوا اور آج بھی مقبول ہے۔ آج بھی ان میں یہ نظریہ رائج ہے۔ لہذا جب منصور نے ’اناالحق‘ کا نعرہ لگایا اور اس نظریہ کی مقبولیت کی وجہ سے وہ شعراء جو تصوف کی طرف بہت مائل تھے انہوں نے اس کو موضع کلام بنایا ہے۔ مثلاً رومی، جامی اور اقبال وغیرہ شامل ہیں۔
تہذیب و تحریر
(عبدالمعین انصاری)
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...