اہل بیت کے سلسلہ میں بہت سے لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں اور جس صحابی کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ قریب دیکھتے ہیں ان کو اہل بیت میں شمار کرلیتے ہیں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو بلاوجہ بلکہ زبردستی اپنے آپ کو اہل بیت میں شامل کرنے لگتے ہیں حالانکہ ان کے حسب و نسب کا کوئی پتہ نہیں رہتا، ذیل میں اس حقیقت کو اجاگر کیا جارہا ہے خوب اچھی طرح سمجھ لیا جائے تاکہ اہل بیت کے سلسلہ میں دھوکہ نہ کھائیں، ایک طبقہ وہ ہے جو اہل بیت پر طعن و تشنیع کرتے نہیں تھکتے ہیں اس سلسلے میں جو وعیدیں آئی ہیں وہ بھی یہاں پیش کیا جارہا ہے،
صحیح مسلم میں سیدنا زید بن ارقم سے روایت ہے ۔ وہ فرماتے ہیں۔ حج سے واپسی پر ایک دن مکہ مکرمہ اور مدینہ کے درمیان خم نامی ایک تالاب پر ( جو غدیر خم سے مشہور ہے) کھڑے ہو کر آپ نے خطبہ دیا حمد و ثناء کے بعد ارشاد فرمایا۔۔۔
اے لوگو سن لو۔۔۔۔۔ بیشک میں بھی ایک بشر ہوں اور ایک دوسرے انسانوں کی طرح مجھے بھی یہاں سے جانا ہے اس لئے ممکن ہے عنقریب میرے رب کا قاصد آجائے اور میں اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے قبول کرلوں اسی لئے میں تم لوگوں میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اگر تم ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رہوگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے ان دونوں میں سے پہلی چیز ۔۔ اللہ کی کتاب ہے، اس میں ہدایت اور نور ہے پس تم اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑلو اور اس کے احکامات کو مضبوطی سے تھامے رکھو،،
( اگے راوی بیان کرتے ہیں) پس آپ نے لوگوں کو کتاب اللہ پر عمل کرنے پر ابھارا اور اس کی رغبت دلائی پھر فرمایا:: اور دوسری بھاری چیز جو میں تم لوگوں میں چھوڑے جارہا ہوں وہ میرے اہل بیت ہیں پس میں تمہیں اہل بیت کے بارے میں اللہ یاد دلاتا ہوں، اور میں تم لوگوں کو اپنے اہل بیت کے بارے میں (دوبارہ) اللہ کی یاد دلاتا ہوں اور میں تم لوگوں کو اپنے اہل بیت کے بارے میں (سہ بارہ) یاد دلاتا ہوں،
اہل بیت رسول سے محبت کرنا ان سے تعلق اور دوستی رکھنا اور ان پاکیزہ ہستیوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس اہم ترین وصیت کی حفاظت و صیانت کرنا کہ آپ نے اہل بیت کے بارے میں تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا،، تم لوگوں کو اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ یاد دلاتا ہوں،، یہ مسلمانوں کے اصول و عقائد میں سے ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو دو امور یاد دلائے،، ایک رب تعالیٰ کی کتاب کو مضبوطی سے تھامنا اور اس پر عمل کرنا بے شک وہ صراط مستقیم ہے، جس کا آغاز تو دنیا سے ہوتا ہے لیکن یہ رستہ جنت میں جاکر ختم ہوتا ہے، اور دوسرے آپ نے اہل بیت کے بارے میں وصیت کی اور امت کو ان کے اکرام و احترام، عزت و توقیر، ان کے حقوق کی معرفت کا، اور انہیں کسی بھی قسم کی ایذا پہنچانے سے حد درجہ گریز کرنے کا صاف اور صریح حکم دیا ہے،
وہ کون ہیں جن کو آپ نے اہل میں ارشاد فرمایا؟
اہل بیت کی تحدید میں علماء کے متعدد اقوال ہیں، اگر چہ اس بابت علماء کا بے حد اختلاف ہے لیکن جمہور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ،، اہل بیت وہ ہیں جن کو زکوٰۃ لینا اور انہیں دینا دونوں حرام ہیں،، اور یہ بنو ھاشم اور بنو عبد المطلب ہیں، آپ کا ارشاد ہے،،، میں اور بنو عبد المطلب نہ جاہلیت میں ایک دوسرے سے جدا ہوئے اور نہ اسلام میں بیشک ہم اور وہ ایک ہیں، یہ فرماکر آپ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کرکے دکھایا،
( بخاری ۔ رقم الحدیث۔ ٣٩٨٩,
اس بات پر بھی سب علماء کا اتفاق ہے کہ جملہ ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں شامل ہیں، اور یہ زوجیت کے اعتبار سے اہل بیت میں داخل ہیں نہ کہ قرابت کے اعتبار سے، مزید یہ کہ ازواج مطہرات کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق و اتصال نسب کے تعلق کے مشابہ ہے کیونکہ زوجیت کا تعلق ابدی اور غیر منقطع ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں آپ کی ہمیشہ کیلئے زوجات ہیں اور یہ امت کی مائیں ہیں،
یاد رہے کہ۔۔ آل اور اہل۔۔ کی اصطلاح کا اطلاق آدمی کی ازواج، ذریت اور قرابت داروں تینوں پر ہوتا ہے جیسا کہ اہل لغت نے اس کی تشریح کی ہے، اس معنی میں یہ لفظ قرآن مجید میں بھی آیا ہے، چنانچہ رب تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کی بات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا،، ( اذقال موسی لأھلہ انی آنست نارا؛ (النمل)
اور جب موسی نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں نے آگ دیکھی ہے،یہاں اہل سے مراد سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی زوجہ محترمہ ہیں جو اس سفر میں آپ کے ساتھ تھیں،
اسی طرح ( سورہ ھود) میں فرمایا گیا کہ۔۔ اے اہل بیت۔۔ تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں وہ سزاوارِ تعریف اور بزرگوار ہے۔۔
تب پھر اہل بیت کی یہ اصطلاح بنی ہاشم، بنی مطلب، اور ازواج مطہرات تینوں کو شامل ہے، اللہ تعالیٰ نے ان بزرگ ہستیوں کو چند خصوصیات سے نوازا ہے جو ان مقدس ہستیوں کا طرہ امتیاز ہیں اور انہی خصوصیات کی بنا پر ان مقدس ہستیوں کو دوسرے تمام انسانوں پر ایک امتیازی شان حاصل ہے،