اس ملک کی عظمت کو جو سلیقے سے لوٹے
اب دوسرا ایسا کوئی رہبر نہ ملے گا
بھگوان کی پوجا کرتے ہیں بیکنٹھ کی چنتا میں پنڈت
جنت کے لئے ملا بھی تہہ محراب پریشاں ہوتے ہیں
احکم غازی پوری صاحب کے تعارف سے پہلے میں نے ان کے 2 اشعار معزز قارئین کے ذوق کی نذر کر دیے ہیں تاکہ ان کو اندازہ ہو کہ احکم غازی پوری صاحب کی شاعری اور ان کی سوچ کی پرواز کہاں تک ہے۔ احکم غازی پوری کی باکمال اور بے باک شاعری کے باعث ان کو موجودہ عہد کے بہترین شعراء کی صف اول میں شامل کیا جا سکتا ہے ۔ ان کی شاعری، سوچ و فکر کے کئی کمالات ہیں جن میں سے ان کا پہلا کمال یہ ہے کہ انہوں نے 250 بحروں پر مشتمل ایک کتاب تحریر کی ہے جو کہ زیر طبع ہے، شایع ہونے کی صورت میں یہ کتاب ہر لائبریری کے لیے لازمی اور ہر شاعر اور شاعرہ کے مطالعے اور رہنمائی کے لئے مجبوری بن سکتی ہے ۔ ان کا ایک کمال یہ ہے کہ وہ مفلسی اور غربت کے باوجود اردو زبان و ادب کی خدمت میں مصروف عمل اور غربت سے برسرپیکار ہیں ۔ احکم صاحب کا اصل نام صوفی شیری اسماعیل انصاری ہے اور ان کے والد صاحب کا نام محمد شہادت علی خان ہے۔ وہ 19 مارچ 1964 کو بھارت کی ریاست اتر پردیش کے ایک قصبے شیب پور ہوڑہ میں پیدا ہوئے جو کہ غازی پور کے قریب واقع ہے ۔ انہوں نے 10 سال کی عمر میں پہلا شعر کہا اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا ۔ شاعری میں عزیز غازیپوری صاحب ان کے استاد ہیں ۔ انہوں نے شاعری کا آغاز تو 1974 میں کیا لیکن وہ کہتے ہیں کہ شاعری کا انجام ان کی مفلوک الحالی ہے وہ غربت اور تنگ دستی کا شکار رہتے ہیں تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاعری کے باعث ان کو ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے ۔ احکم صاحب نے 1995 میں شادی کی ہے قدرت نے ان کو 2 بیٹوں اور 2 بیٹیوں کی اولاد کی نعمت سے نوازا ہے ۔
احکم غازی پوری نے شاعری کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی ہے اور ہر صنف کے ساتھ انہوں نے پورا پورا انصاف کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے ۔ انہوں نے اپنی ایک نظم " آزادی مبارک ہو" میں اپنے ملک ہندوستان کے عصری حالات کی بڑی جرئت اور بے باکی کے ساتھ منظر کشی کی ہے اور ان کی اس نظم کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انہوں نے یہ سب کچھ پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں لکھا ہے ۔ اس نظم کو پڑھنے کے بعد ان کی سوچ اور فکر اور ان کے مشاہدے پر مبنی شاعری پر ان کو بھرپور داد اور خراج تحسین پیش کرنے کو چاہتا ہے ۔ ہندوستان میں اردو زبان و ادب کے موجودہ اور مستقبل کے حوالے سے کئے گئے میرے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی حکومت اردو زبان و ادب کے خاتمے کے لئے کوششیں کر رہی ہے ۔ مشاعروں میں شرکت کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس سے شعراء اور شاعرات کو بہت کچھ سیکھنے کے ساتھ ساتھ عزت، شہرت اور دولت بھی حاصل ہوتی ہے ۔ احکم صاحب کا ذریعہ معاش صرف شاعری ہی ہے ان کا کہنا ہے کہ آل انڈیا مشاعروں میں شرکت سے ان کو جو اعزازیہ ملتا ہے وہی ان کی آمدن ہے۔ آل انڈیا مشاعروں میں شرکت کے باعث ان کو نصف ہندوستان کی سیاحت کے مواقع بھی حاصل ہوئے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ حلال رزق کھانے سے ان کو راحت ملتی ہے ۔ ان کا شوق ان کا جذبہ اردو زبان و ادب کی خدمت کرنا ہے ۔ مطالعے کی ان کو ایسی عادت پڑ گئی ہے کہ وہ سونے سے پہلے مطالعہ ضرور کرتے ہیں ۔ ( میری بھی یہی عادت ہے ) فکر بیکراں کے عنوان سے ان کا ایک شعری مجموعہ سال رواں یعنی 2020 میں شائع ہو چکا ہے جبکہ ان کی 13 کتابوں کے لئے مواد تیار ہے جن کی اشاعت کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ میری چند ایک خواہشات ہیں وہ یہ کہ زندگی میں ایک بار حج کی سعادت حاصل ہو ،میری کتابیں شایع ہو جائیں اور ایمان پر زندگی کا خاتمہ ہو۔ ان کی جو 13 کتابیں اشاعت کے لئے تیار ہیں وہ درج ذیل ہیں ۔
1 نورانی گھرانہ 2 روشنی ایمان کی ۔ یہ دونوں نعتیہ شاعری پر مشتمل ہیں
3 علم بیکراں 4 آبروئے قلم 5 جستجوئے قلم 6 عظمت جنوں 7 کلام احکم 8 صدائے غم 9 حرف بیکراں 10 خونی منظر ۔ یہ سب شعری مجموعے ہیں ۔ 11 انقلاب ادب 12 صدائے دل ۔ یہ دونوں نظموں پر مشتمل ہیں ۔ 13 ۔ اضافت العروض ۔ یہ 250 بحروں پر مشتمل ہے۔ احکم صاحب کی شاعری سے انتخاب قارئین کی نذر
نظم۔۔۔۔۔۔۔۔مبارک ہو
********
یہ بڑھتے مسئلے یہ بڑھتی آبادی مبارک ہو
مبادک ہو یہ آزادی یہ آزادی مبارک ہو۔۔۔۔۔۔۔۔
مبارک ہو بد عنوا ی ہمارے رہنماؤں کو
وزیروں، افسروں ،چپراسیوں، کو مافیاؤں کو
اُنہیں جو بیچ کھاتے ہیں مریضوں کی دواؤں کو
پولس والوں کو چوروں کو لٹیرے پارساؤں کو
لہو آلود یہ کشمیر کی وادی مبارک ہو
مبارک ہو یہ آزادی یہ آزادی مبارک ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ملک میں تعلیم مہنگی ہے نشہ سّتہ
سہی رستء پہ چلنے والوں کو ملتا نہیں رسّتہ
سبھی سرکاری صوبے میں ہی تو حالات ہیں خستہ
ملے رشوت تو سارے کام ہوجاتے ہیں برجستہ
غریبوں اور مزدوروں کی بربادی مبارک ہو
مبارک ہو یہ آزادی یہ آزادی مبارک ہو۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے راج نیتا ملک کو اب کیا چلائیں گے
بفیضِ بے ایمانی خوب گلچھرّے اُڑائیں گے
شہیدوں کے مزاروں پہ یہ کیا میلے لگائیں گے
انہیں موقع ملے تو ان کے مدفن بیچ کھائیں گے
اِنہیں عیش و مسرّت کی یہ شہزادی مبارک ہو
مبارک ہو یہ آزادی یہ آزادی مبارک ہو۔۔۔۔۔۔۔۔
عوامی مسئلوں کی آگ پرسیکیں گے یہ روٹی
اُسی کو فائدہ ہوگا جو دے رشوت انہیں موٹی
کہ اُنچے لوگ بد عنوانیاں کرتے نہیں چھوٹی
مقدر ان کا اچھا قوغازیپوری یر ہے کھوٹی
نگہبانِ چمن کو خوئے صّیادی مبارک ہو
مبارک ہو یہ آزادی یہ آزادی مبارک ہو۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں بے مقصدو بے وجہہ قتلِ عام ہوتا ہے
ری ایکشن میں یہاں ہر روز چکّہ جام ہوتا ہے
شئر اس میں وزیروں کا برائے نام ہوتا ہے
پولس کھاتی ہے پیسے اُلٹا سیدھا کام ہوتا ہے
انہیں تحفہ تبرک اور یہ پرسادی مبارک ہو
مارک ہو یہ آزادی یہ آزادی مبارک ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود اپنے بھائ کے ہاتھوں سے بھائ قتل ہوتے ہیں
گھروں میں رہنے والے اور راہی قتل ہوتے ہیں
پجاری مارے جاتے ہیں نمازی قتل ہوتے ہیں
ہمارے ملک میں ہر روز گاندھی قتل ہوتے ہیں
یہ جورو جبر خوں ریزی یہ بربادی مبارک ہو
مبارک ہو یہ آزادی یہ آزادی مبارک ہو۔۔۔۔۔۔۔
یہاں ڈھڑلے سے ڈالا جارہا ہے دودھ میں پانی
یہاں کھاجاتے ہیں پسوؤں کا چارہ بھی بہ آسانی
یہاں مت پوچھیئے ہوتی ہے کیسی کیسی شیطانی
یہاں جی بھر کے شاھو کار کرتے ہیں بے ایمانی
یہ نقلی گھی یہ نقلی کھاد اور کھادی مبارک ہو
مبارک ہو یہ آزادی یہ آزادی مبارک ہو۔۔۔۔۔۔
تمہاری غیر ہے حالت لہو کے اشک پینے سے
یہ مانا آچکے ہو تم نہایت تنگ جینے سے
مگر ہر آدمی کہ کر لگا لےگا یہ سینے سے
کہ نقشہ ملک کا کھیچا ہے تم نے کس قرینے سے
تمہیں اے حضرتِ احکم یہ استادی مبارک ہو
مبارک ہو یہ آزادی یہ آزادی مبارک ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احکم غازیپوری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب اشعار
سولی پہ بصد شوق سجا دیں جو سر اپنا
تم ڈھونڈ کے رہ جاو گے وہ سر نہ ملے گا
موقع کے مطابق لازم ہے لوگوں کا مہذب ہونا بھی
بد ذوق اگر ہوں محفل کے آداب پریشاں ہوتے ہیں
دور طفلی میں بھی گزرا ہوں رہ مشکل سے
اور پھر چین سے گزری یہ جوانی بھی نہیں
ہاتھ بھی کاٹ لیا منہ پر لگے ہیں تالے
لکھ تو سکتا نہیں کہہ سکتا زبانی بھی نہیں
چلے ہیں دھوپ کی اوڑھے ہوئے ردا برسوں
ہمارے سر پر کوئی سائبان تھا ہی نہیں
بچا کے رکھتا جو بزرگوں کی وراثت کو
یہاں پر ایسا کوئی خاندان تھا ہی نہیں
جب اس کریم کی چشم کرم ہوئی احکم
ملا وہاں سے جہاں سے گمان تھا ہی نہیں
باغ میں پھولوں کا کھلنا تو بہت آسان ہے
مدتوں بعد کھلتے ہیں کسی آنگن کے پھول
جب بھی سرحد نے پکارا ہے ہمیں مشکل میں
چل پڑے شوق سے شمشیر کے بوسے لے کر
تمہیں بتائو نہ جاتے تو پھر وہ کیا کرتے
کرائے دار تھے ذاتی مکان تھا ہی نہیں
احکم غازی پوری