آج فیصل آباد کے ایک بڑے قبرستان غلام محمد آباد میں ایک نماز جنازہ میں شرکت کی غرض سے گیا تو فاتحہ پڑھنے کے لئے قبرستان کے بیچوں بیچ سے گزر رہا تھا کہ اچانک میری نظریں پروفیسر کلیم اللہ کی مرقد پر پڑ گئیں اور میں وہیں ٹھٹھر کر رہ گیا ۔۔گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں 70، 80 کی دہائی کا زمانہ میری آنکھوں کے سامنے آگیا۔۔اس دور کے جن اہم ترین اساتذۂ کرام نے انگریزی زبان و ادب کی آبیاری میں اہم کردار ادا کیا ہے ان میں پروفیسر کلیم اللہ کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس دور کے دیگر اساتذہ میں پروفیسر شیخ سجاد ،پروفیسر رفیق ڈوگر،پروفیسر محمد اسلم ، پروفیسر عزت علی ، پروفیسر وقار ظہیر،پروفیسر محمد اسلم،پروفیسر ملک سرفراز، پروفیسر محمد حنیف ظفر پروفیسر محمد صدیق ناگی ،پروفیسر کامران خالد ، پروفیسر ظہیر احمد بابر پروفیسر مبشر احمد ، پروفیسر خالد عباس بابر ،پروفیسر حق نواز طور اور پروفیسر جاوید اسلم باجوہ کے نام اہم ہیں ۔۔۔۔۔۔ان دنوں سب سے زیادہ پروفیسر کلیم اللہ کا توتی بولتا تھا ۔۔۔۔کالج کے اوقات کار کے بعد ان کے گھر کی بیٹھک میں گروپوں کی شکل میں ٹیوشن سنٹر پر بھیڑ لگی رہتی تھی گویا طلباءکو ایک گھنٹہ کے دورانیہ کے گروپ میں شامل ہونے کے لئے مختلف پاپڑ بیلنے پڑتے تھے ۔۔۔اور فیصل آباد کے تمام انگریزی کے اساتذہ میں پروفیسر کلیم اللہ کی پرائیوٹ سنٹر کی فیس سب سے زیادہ ہوتی تھی۔۔۔۔۔۔ اس کی ایک وجہ کالج سے ملحقہ ایک محلہ سنت پورہ میں ٹیوشن سنٹر ہونے کی وجہ سے لوگوں کا رجحان زیادہ تھا ۔۔۔۔۔ دوسرا ان کا منفرد انداز تدریس ۔۔۔۔اس طرح ایک گروپ کے دورانیہ میں ان کے گھر کے باہر ٹیوشن پڑھنے والے طلباء کے بائی سائیکل اور موٹر سائیکلوں کی لمبی لمبی قطاریں لگی رہتی تھیں ۔۔۔
ان کے شاگردان کی تعداد بہت وسیع ہے تاہم ان کے ایک ہونہار شاگرد ڈاکٹر ریاض احمد ریاض (ریاض بھائی) کا نام بہت نمایاں ہے۔۔جنہوں نے ان کے نام پر کلیم گولڈ میڈل کا اجرا کیا اور فیصل آباد تعلیمی بورڈ میں نمایاں پوزیشن لینے والے بچوں میں وہ کئی سال تک وہ یہ کلیم گولڈ میڈل تقسیم کرتے رہے ہیں ۔جو کہ ان کے نام کو زندہ رکھنے کی قابل تقلید مثال ہے ۔
ایسی یگانۂ روزگار ہستیاں یقیناً لافانی ہوتی ہیں مگر موت کا ذائقہ تو ہر انسان کو چکھنا ہوتا ہے ۔ اپنی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے کرتے ایک دوپہر درخشاں روایات اور عظیم اقدار کے امین اِس قدیم اور تاریخی شہر کے جنوب میں واقع قدیم شہرِ خموشاں (قبرستان غلام محمّد آباد )میں کھڑ ا سوچ رہا ہوں کہ خفتگان خاک تو اپنی باری بھر کر چلے گئے اب ہمیں عدم کے کوچ کی فکر کرنی چاہیے ۔ اپنے سب رفتگاں کی دعائے مغفرت کے بعد اُن کی لحد کے کنارے کھڑا ایام گزشتہ کی بیاض کو پڑھتے ہوۓ سوچ رہا ہوں کہ دنیا کسی کی نہیں ، جہاں شاہ و گدا سب ایک ہی جگہ آسودہ خاک ہیں ۔۔یاں کوئی دنیاوی مرتبہ اور اعلی رتبہ نہیں ۔۔۔۔!!
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...