زمیں بھی روئی فلک بھی رویا مرے وطن پہ عذاب اترے
حسیں چمن کے مہکتے پھولوں پہ کیسے کیسے عتاب اترے
ابھی تو مائیں بھی منتظر تھیں ابھی تو بچوں نے لوٹنا تھا
ابھی تو جانے کا وقت نہ تھا ابھی تو ان پر شباب اترے
تڑپتی لاشیں تھیں خوں میں لت پت گلاب چہرے خزاں ہوئے تھے
چلے تھے، جن کی ستارہ آنکھوں میں جانے کتنے ہی خواب اترے
فضا مہکتی تھی جن گھروں میں،امید روشن چمک رہی تھی
خوشی سے معمور آنگنوں میں یہ غم کے کیسے سحاب اترے
کہ جن کے دم سے ہی انجمن تھی کہ جن کے دم سے ہی روشنی تھی
فلک کے انجم وہ بجھ گئے ہیں افق سے وہ مہ تاب اترے
کہ عمریں بیتی تھیں پرورش میں کہ جو بزرگی کا آسرہ تھا
کہ جن کی خاطر ہی زندگی تھی لحد میں وہ آفتاب اترے
خطائیں اپنی سزائیں اپنی یہ اپنی سوچوں کا شاخسانہ
کہ چاند جیسی زمیں پہ دیکھو اماوسوں کے یہ باب اترے
کہ جن کے لہجوں سے آگ بھڑکی کہ جن کی باتوں سے تیر برسے
دیار امن و سکوں میں آخر یہ کون خانہ خراب اترے
یہ بے حسی کی درندگی کی یہ سنگدلی کی مثال بد تر
یہ جانور تھے یا کوئی وحشی خدا کا ان پہ عذاب اترے
میں اپنے معصوم لاڈلوں کو یہ کیسے سمجھا سکوں گی آخر
کہ مدرسے میں لہو نہیں اب،کہ جاءو پھر سے گلاب اترے
تھکن اندھیری مسافتوں کی بدن کو نڈھال کر گئی ہے
اماوسوں کی شب ہراساں میں کوئی مثل شہاب اترے
کہاں میں مایوس اس قدر تھی مجھے تو امید ہر قدم تھی
مگر جو دیکھے جوان لاشے تو دل سے سارے سراب اترے
یہ کیسے رستے پہ ہم چلے ہیں کہ جس کی منزل فقط تباہی
ادب کتابوں میں رہ گیا ہے ہر ایک جانب رباب اترے
سکھا دیا ہے یہ کس نے انجم خدائی رسموں کو بھول جانا
روش بدل دی ہماری جس نے کہاں سے ایسے نصاب اترے