ممکن ہے، جس شخص کو آپ اپنا محسن یا استاد ٹھہراتے ہوں، زندگی سے متعلق، یا ادب اور سیاست سے متعلق آپ کی اور اس کی رائے میں فرق ہو، لیکن اگر اس شخص پرایسا الزام دھر دیا جائے، جو اندر سے کھوکھلا ہو، وہ زبان استعمال کی جائے، تو تضحیک آمیز ہو، اور پھر یہ سب عوامی سطح پر رونما ہوا ہو، تو آدمی پر لازم ہے کہ زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر، مروت سے ابھر کر، اس بابت اپنی بے لاگ رائے ضرور دے۔
احفاط الرحمان اور احسن سلیم کو بہ ظاہر کوئی بات نہیں جوڑتی۔ دونوں کا تعلق الگ دنیاﺅں سے تھا۔ البتہ اس تحریر میں وہ دونوں ایک ہی سمت کھڑے ہیں، اور دوسری سمت خاکہ نگار کھڑا ہے، یعنی جناب ممتاز رفیق۔ (راقم نے جان بوجھ کر پلڑے کا لفظ استعمال نہیں کیا۔)
یہ عجیب اتفاق ہے کہ ممتاز رفیق سے پہلی بار میں جناب احفاظ الرحمان ہی کے وسیلے ملا، اور پھر ممتاز رفیق ہی نے مجھے پہلی بار احسن سلیم سے ملوایا۔ مگر یہاں موضوع ہم نہیں، وہ خاکے ہیں، جو ممتاز صاحب نے میرے ان بزرگوں کی بابت لکھے۔
احسن سلیم اور ممتاز صاحب کے درمیان رونما ہونے والے واقعات کا میں گواہ نہیں۔ گو احسن صاحب نے کئی باتوں کا ذکر کیا، جن میں ”میاں خاکہ لکھ دوں گا“ والی دھمکی بھی شامل تھی، البتہ میں نے خود کو ممتاز رفیق سے بدگمان ہونے سے باز رکھا کہ ایک تو وہ بزرگ تھے، پھر ان دنوں علیل تھے، لیکن جب احسن سلیم کے انتقال کے بعد ممتاز رفیق نے میرا اِس محسن کا ایک ایسا خاکہ لکھا، جس میں ٹی بی سے لڑتے ہوئے موت کی آغوش میں جانے والے اِس بے بدل شاعر پر غیرضروری پھبتیاں کسی گئیں، تو میری رجائیت پسندی آخر کار شکست کھا گئی۔
البتہ احفاظ صاحب کے معاملے میں الٹ ہوا۔ممتاز صاحب نے ابتدا ہی میں مجھے متنفر کر دیا ۔معاملہ یہ ہے صاحب کہ انھوں نے جس ماحول، مناظر اور معلومات کی بنیاد پر وہ خاکہ لکھا ، میں نہ صرف ان کا گواہ، بلکہ اُس پوری سرگرمی کا حصہ بھی تھا، جس کی بنیاد پر میں بھی ایک خاکہ لکھ سکتا ہوں۔
ممتاز صاحب ابھی حیات ہیں، اللہ انھیں زندگی ہے، اِس طرز پر لکھنے کے بجائے، جیسے اُنھوں نے احسن سلیم کی بابت لکھا، یعنی رخصتی کے بعد، بہتر ہے، میں ان کی حیاتی ہی میں یہ تلخ بات لکھ دو کہ وہ خاکہ قطعی ادب پارہ نہیں تھا، اور اس کے کنارے گول کرکے اسے ادب ٹھہرا بھی دیا جائے، تو ایک کمزور ، خام ادب پارہ تھا۔ اس میں انتقامی جذبہ عیاں تھا، توازن کا فقدان تھا، رویہ جانب دارانہ تھا۔کیا ممتاز صاحب باقی خاکے بھی اِسی طرح کی خام معلومات کی بنیاد پر لکھتے رہے ہیں؟ خبر نہیں۔ ہاں، جن کے لکھے، وہ بتا سکتے ہیں۔
اس خاکے پر ایک مقدمہ بھی بنا۔ میرا قیاس ہے کہ اس مقدمے کے بعد ادیبوں کے حلقے میں احفاظ صاحب کے خلاف پروپیگنڈے کا سہارا لیا گیا۔ ممکن ہے، میں غلط ہوں۔البتہ اس معاملے میں میں قطعی غلط نہیں کہ اگر پاکستان کا قانون اس نوع کے مقدمے کی اجازت دیتا ہے، تو احفاظ صاحب کو مقدمہ کرنے کا پورا حق تھا۔ اس عرصے میں انھیں جان لیوا بیماریوں کا سامنا رہا، سست روی کا شکار عدالتی نظام ، کچھ غیرمرئی عوامل بھی آڑے آئے، ایک معمولی مقدمہ کھنچ کر ساڑھے پانچ سال پر محیط ہوگیا۔ آخر فیصلہ احفاظ صاحب کے حق میں آیا۔
ممتاز رفیق کا تحریر کردہ خاکہ جس پرچے میں شایع ہوا تھا، اور اس بات کی نشان دہی میں ضروری خیال کرتا ہوں کہ اس کے مدیران میرا موضوع نہیں۔ ایک دنیا سے رخصت ہوئے، اور اُن سے متعلق میرے پاس اب صرف یادیں گے، ایک صاحب میرے محترم ہیں،میں اُن سے محبت رکھتا ہوں، دوسرے صاحب کو میں اپنے سینئر کے طور پر دیکھتا ہوں، اور قابل احترام جانتا ہوں۔
البتہ ممتاز رفیق صاحب سے، اس وجہ سے بھی ہم نے کبھی ایک میز پر ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا، ساتھ سفر کیا ہے، چند خوش گوار لمحات ساتھ گزارے، یہ کہنا لازمی سمجھتا ہوں کہ احفاظ صاحب اور احسن سلیم کے خاکوں سے آپ میرے لیے تو دُکھ کا باعث بنے ہی، ساتھ (دست بستہ عرض کر رہا ہوں) اپنے فن اور قلم سے بھی انصاف نہیں کرسکے، بلکہ زیادتی ہی کر گئے۔
ایک عرصے خاموش رہنے کے بعد آج یہ بات کہی ہے، تو کچھ اسباب ہیں۔ البتہ یہ اطمینان ہے کہ اگر ممتاز صاحب ناراض ہو بھی گئے، توکم از کم مجھے جیسے غیرمعروف شخص کا خاکہ تو نہیں لکھ سکیں گے۔ اللہ انھیں صحت دے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...