احباب
آج ایک طویل مدت کے بعد ماضی کی خوبصورت معصوم چہرہ اداکارہ بعد میں گلو کارہ بھی عارفہ صدیقی کی تصویر فیس بک پر دیکھی تو اپنا لڑکپن اور دیوانہ پن یاد آگیا اس وقت پاکستان میں ایک ہی ٹی وی چینل پی ٹی وی تھا دیگر کی طرح ہمیں بھی فلم اور ڈرامے دیکھنے کا بے حد شوق تھا مگر مشکل یہ تھی کہ ہم بھاٹی دروازے کے ایک دینی مدرسہ کے طالب علم تھے جہاں ٹی وی دیکھنا سخت منع تھا مگر ہم پھر بھی چھپ چھپا کر اپنے اس کی تکمیل کر ہی لیا کرتے تھے بھاٹی چوک میں شہزاد ریسٹورنٹ کے با المقابل ایک ہوٹل پر عارفہ صدیقی کے ڈرامے دیکھنے کے لیے ہم ہر خطرہ مول لیکر پہنچ ہی جاتے تھے جب ٹی وی اسکرین پر عارفہ صدیقی نمودار ہوتیں تو ہمارے دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتیں تھیں اور دل میں خواہش کرتے تھے کہ کاش ہم عارفہ صدیقی کو سچی مچی دیکھ سکیں اداکاروں کو ماورائ مخلوق سمجھا جاتا تھا اور انہیں ملنا آسان نہیں ہوتا تھا میں نے سینکڑوں بار دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے ایسے خواتین و حضرات کو دیکھا جو کئ کئ دن گلبرگ میں اداکار محمد علی مرحوم سلطان راہی مصطفی قریشی انجمن ودیگر اداکاروں کی ایک جھلک دیکھنے کی خواہش میں فٹ پاتھوں اور پارکوں میں سو کر گزار دیتے اور کئ نو سرباز ان معصوم لوگوں کو ادا کاروں سے اپنے تعلقات کے قصے کہانیاں سنا کر اور ملوانے کا جھانسا دیکر ان سے پیسے بٹور لیتے تھے شاہ نور سٹوڈیو کے گیٹ پر بھی شائقین کا رش ہوتا تھا اور وہ اداکاروں کو دیکھ کر خوش ہوتے اور پھر اپنے جاننے والوں کو فخر سے بتاتے کہ ہم نے فلاں اداکار کو سچی مچی اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوا ہے( لے میں اونوں اپنیاں اکھاں نال ویکھیا ہویا اے)
عارفہ صدیقی کو دیکھنے کی خواہش ہمارے دل میں بھی کلبلاتی رہتی تھی مگر ہمیں انہیں دیکھنے کی کوئ صورت دکھائ نہیں دیتی تھی اور پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ مال روڈ پر ہم ایک احتجاجی جلسے میں شریک تھے اور بڑھ چڑھ کر نعرے لگا کر احتجاج میں شریک لوگوں کو جوش دلا رہے تھے کہ یکایک مسجد شہداء کے قریب ہماری نظر ایک گاڑی پر پڑی جسے عارفہ صدیقی ڈرائیو کر رہی تھیں اور انکی والدہ ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی تھیں ہم نے آو دیکھا نہ تاو نعرے وارے چھوڑ کر گاڑی کی طرف دوڑ لگا دی ہم جب انکی گاڑی کے قریب پہنچے وہ رش میں سے اپنی گاڑی نکالنے میں کامیاب ہو چکی تھیں ہم نے انہیں بتہری آوازیں دیں مگر وہ گاڑی تیزی سے نکال کر لے گئیں جب تک انکی گاڑی ہماری نظروں سے اوجھل نہیں ہو گئ ہم گاڑی کو جاتے ہوئے دیکھتے رہے
پھر ہم نے آخری بار میٹروپول سینما ایبٹ روڈ لاہور پر انکی فلم قسمت دیکھی جس میں انہوں نے سلطان راہی مرحوم کی بیٹی کا یادکار کردار کیا تھا اس کا ایک گانا بہت مشہور ہوا تھا جس کے بول تھے
وے بابل تیری میری چھو
قسمت فلم دیکھتے ہوئے فلم بین اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکتے اور رو دیتے
آج عارفہ صدیقی کی تصویر دیکھی تو اپنا زمانہ طالب علمی یاد آگیا
اور بے ساختہ زبان پر منیر نیازی مرحوم کا شعر آگیا
مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیر
اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا
منیر اے احمد
الطائف
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔