(Last Updated On: )
کچھ کے نزدیک انسانی کی سب سے اہم ترین قدیم صلاحیت یا ایجاد کو لکھنے کا فن سیکھ جانا گردانا جاتا ہے۔ جیسے کہ ابراہم لنکن کہتے ہیں؛
”دیکھیے، کتنی حیرت کی بات ہے! نہ کسی نے کچھ بولا، اور نا ہی کسی نے سنا۔ مگر گفتگو ہو گئ۔“ بلاشبہ یہ اہم ترین تاریخی انسانی صلاحیتوں میں شمار ہوتا ہے۔
مگر کچھ ماہرین عمرانیات، سائنسدانوں، آرکیالوجسٹس، تاریخ دانوں کے مطابق انسان کا ”بولنا“ سیکھ جانا انسانی تاریخ میں اس کی اہم ترین اوّلین چھلانگ ہے۔ جسے تاریخ میں تقریباً ستّر ہزار سال قبل کے کوگنیٹو ریوولوشن Cognitive Revolution کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہی وہ اہم افسانوی دور تھا جب مِتھولوجی کا آغاز ہوا۔ قدیم انسانوں کو یکجاہ رکھنے، منظم انداز میں شکار کرنے اور ایک دوسرے کے لیے مددگار ثابت ہونے کا اہم ذریعہ وجود میں آیا۔ دیوی، دیوتائیں، مذاہب وغیرہ کے ذریعے سوشل آرڈر قائم کرنے کی کوششوں کی ابتدا ہوئ۔ پرینیل فلسفہ وجود میں آیا۔ اور انسان ان ”اشیاء“ کے بارے میں سوچنے لگا جو حقیقی دنیا میں کوئ وجود نہیں رکھتی تھیں۔ یہی داستانیں آگے جا کر تحریروں، کتابوں، صحائف کا بھی حصہ بنتی چلی گئیں۔ اور پھر ماقبل تاریخ و شکار کرنے والے بکھرے انسانی قبیلوں اور زرعی ادوار سے لے کر جدید سائنسی عہد تک مِتھالوجی کا یہ سفر اپنے تصورات مضبوط تر کرنے کی کوشش کرتا چلا گیا۔ اِس حوالے سے کیرن آرم سٹرانگ کی ایک چھوٹی سے دلچسپ مدلل کتاب ”اے شارٹ ہسٹری آف مِتھالوجی” کے عنوان سے بھی موجود ہے۔
یہ قصے، داستانیں، فِکشنز، متھولوجیز وغیرہ مختلف نظریات کے ذریعے اگرچہ کافی نقصان دہ اور خطرناک بھی ثابت ہوۓ ہیں۔ مگر یہ مکمل بے فائدہ انسانی تصورات نہیں رہے ہیں۔ بلکہ متھولوجی انسانی نفسیات کی اساس ہے۔ جب کارل جنگ اور اور سگمنڈ فرائیڈ جیسے جدید دور کے ماہرینِ نفسیات نے انسانی ذہن کے نئے گوشوں کو ٹٹولنا شروع کیا تو اس کے لیے انہوں نے کلاسیکل متھولوجی کا ہی سب سے پہلے رخ کیا۔ جس کا انسانی سماجی رویّوں، تاریخ اور طرزِ زندگی پر گہرا اثر رہا ہے۔
اِس کا اثر اِس سے دیکھیے کہ افلاطون نے اپنی کتاب ”جمہوریہ“ میں یوٹوپیا کا تصور دیتے ہوۓ ”ایک ”شاہی جھوٹ“ A royal lie کا ہونا بھی ناگزیر سمجھا۔ جس کے مطابق خدا نے تین قسم کے انسان تخلیق کیے ہیں۔ پہلے وہ جو سونے سے تخلیق کیے گئے ہیں جو کہ حکمران یا Guardians ہیں۔ دوسرے چاندی سے بناۓ گئے انسان جنہیں سپاہی ہونا چاہیے۔ اور تیسرے قسم کے انسان پیتل اور لوہے سے تخلیق کیے گئے ہیں جنہیں جسمانی کام کرنے چاہئیں۔ افلاطون کے مطابق اگرچہ موجودہ نسل کو یہ سب یقین دلانا مشکل تھا۔ مگر مزید دو نسلوں کے بعد اس داستان پر لوگ یقین کر لیں گے۔ اور ایک مضبوط سوشل آرڈر قائم ہوجاۓ گا۔ آج بھی ایسے بے شمار شاہانہ جھوٹ حقیقت کا لبادہ اوڑھے اکثر کو نظر آتے ہیں۔
جاپان میں تو 1868 تک پڑھایا جاتا تھا کہ مِکاڈو(جاپانی شہنشاہ کے لیے مستعمل اصطلاح) سورج دیوی سے اترا ہے۔ اور یہ کہ جاپان بقیہ دنیا سے پہلے تخلیق کیا گیا تھا۔ اگر کوئ یونیورسٹی پروفیسر بھی ان جاپانی متھولوجیز پر یقین نہ رکھتا تو اسے غیر جاپانی سرگرمیوں کا مورد الزام ٹھہرا کر یونیورسٹی سے نکال دیا جا سکتا تھا۔
الغرض، بولنا سیکھ جانا انسانی حیاتیاتی ارتقاء، تاریخ، سماج، توہمات پرستی، مذاہب، علم و دانش سب کی بنیاد ہے۔ یہ ہومو سیپئینز کو دیگر تمام تر سپیشیز سے ممتاز بنا کر اب تک کرہ ارض پر ہمیں موجود رکھنے کا بنیادی ضامن بنا۔