تحریک قیام پاکستان اپنے جوہر میں سامراج مخالف کی بجائے ہندو دشمنی پر فوکس تھی۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں برطانوی سامراج اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے بارے میں علمی اور تحقیقی کام نہ ہونے کے برابرہوا ہے۔ایسٹ انڈیا کمپنی کی لوٹ مار اور برطانوی سامراج کی سیاسی و سماجی پالیسوں بارے لٹریچر مفقود ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گاکہ ہمارے اہل علم اور محقق برطانوی سامراج کو ہندووں کی مخالفت میں اپنا حلیف اور ساتھی سمجھتے ہوئے اس کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ان پر کام کرنے سے گریزاں ہیں۔
باری علیگ کی کمپنی کی حکومت جو قیام پاکستان سے قبل لکھی اور شایع ہوئی تھی، کے بعد اس بارے میں ہمارے ہاں کوئی تحقیقی کتاب نہیں لکھی گئی لیکن اس کے برعکس بھارت میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی سامراج کی معاشی سیاسی، سماجی اور زرعی پالیسیوں کے حوالے سے بہت سا تحقیقی کام ہوا ہے۔ راما کرشنا مکر جی کی کتاب ایسٹ انڈیا کمپنی کا عروج و زوال(The Rise and Fall of East India Company) اس حوالے سے بہت معیاری کام ہے۔ بھارت کے سفارت کار، سیاست دان اور رکن پارلیمنٹ ششی تھرور کی ایسٹ انڈیا کمپنی پر لکھی کتاب جس کوعابد محمود نے ارود کا جامہ پہنایا ہے ایسٹ انڈیا کمپنی پر لکھی گئی کتابوں میں ایک اہم کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ ششی نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی لوٹ مار، اس کی تباہ کن معاشی پالیسوں اور ان کے ہندوستان کی معیشت اور سماج پر مرتب ہونے والے دور رس اثرات کا تجزیہ کیا ہے۔ششی تھرور کی کتاب ہمیں برصغیر کو درپیش سیاسی سماجی اور مذہب سے جڑے مسائل کو سمجھنے اور تجزیہ کرنے کے لئے پس منظر اور مواد مہیا کرتی ہے کیونکہ ہمارے بیشتر مسائل کی جڑیں اس نوآبادیاتی ریاستی ڈھانچے میں پیوست ہیں جو پہلے پہل ایسٹ انڈیا کمپنی نے استوار کیا تھا اور پھر اس پر تاج برطانیہ نے اپنی ایمپائر تشکیل دی تھی۔
برطانیہ اور ہندوستان کے مابین تعلقات کی ابتدا کسی سفارت کاری کی بدولت استوار نہیں ہوئے تھے بلکہ اولین رابطہ تو ولیم ہاکنز کی سربراہی میں دارالحکومت آگرہ آنے والے تجارتی وفد کی بدولت قائم ہوا تھا۔ بادشاہ ہند نے اس موقع پر خوش ہوکر ولیم ہاکنز کو تحفہ میں ایک ہندوستانی عورت بھی پیش کی تھی جسے وہ اپنی بیوی بنا کر انگلستان لے گیا تھا۔ تجارت کے حوالے سے قائم ہونے والا یہ ابتدائی تعلق اگلے سو ڈیڑھ سو سال میں کس طرح ہندوستان کی حکومت پر قبضے کی شکل اختیار کرگیا ششی تھرور نے اپنی کتاب میں اُ نہی معاشی و سماجی عوامل،محرکات، کمپنی کی زیادتیوں، سازشوں اور پالیسوں کا جائزہ لیا ہے جوس قبضے کا باعث بنے تھے۔ آخر وہ کون سی وجوہات تھیں جن کی بنا پر ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کو اتنی آسانی سے فتح کرلیا تھا؟۔ مورخین اس کی متعدد وجوہات گنواتے ہیں۔مغل سلطنت کی سیاسی اور معاشی شکست وریخت، صوبائی گورنروں کی بغاوتیں اور ان کا چھوٹی چھوٹی اور متحارب ریاستوں میں متشکل ہونا، کمپنی کی افواج کو اعلی جنگی ہتھیار اور ساز وسامان کی دستیابی، یورپی ممالک کی گورننس، ٹیکسوں کا نظام اور بنکنگ سسٹم وہ عوامل تھے جنھوں نے ایسٹ انڈیا کمنپی کی طرف سے ہندوستان کو فتح کرنے میں اہم رول ادا کیا تھا۔ لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی اہم فیکٹر جسے عام طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے وہ ہے ہندوستان کی کمپنی کے ہاتھوں فتح میں برطانوی پارلیمنٹ کا کردار۔ کمپنی اور برطانوی پارلیمنٹ کا باہمی تعلق بتدریج بڑھتا رہا اور اٹھارویں صدی کے اواخر میں اس تعلق کی نوعیت وہی بن چکی تھی جسے آج ہم پبلک۔ پرائیویٹ پارٹنر شپ کہتے ہیں۔ ہندوستان کی لوٹ مار سے نواب(جنھیں انگلستان میں نباب کہا جاتا تھا) بننے والے برطانوی پارلیمنٹ کی تشستیں خریدتے تھے اور پارلیمنٹ بدلے میں کمپنی کو وسائل، فوجی سازو سامان اور فوجیوں کی شکل میں مدد فراہم کیا کرتی تھی۔
ششی تھرور کا بیانیہ قوم پرستی کے زیر اثر اکثر اوقات جذبات سے مملو ہوکر مبالغہ آرائی کے قریب پہنچ جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ان کی کتاب کمپنی کی لوٹ مار، ظلم وزیادتی اور ریونیو کے حصول کے لئے اس کے انسان دشمن اقدامات کو بڑی کامیابی سے ایکسپوز کرتی ہے۔ وہ اس بیانئے کی نفی کرتے ہیں کہ یہ انگریز قبضہ ہی تھا جس کو ہندوستان کو سیاسی اور جغرافیائی یونٹی میسرآئی تھی وہ کہتے ہیں کہ انگریز کی آمد سے قبل تاریخ میں ایک سے مرتبہ ایک سنگل جغرافیائی اکائی رہ چکا تھا۔ وہ اس بات سے بھی انکاری ہیں کہ اگر ایسٹ کمپنی اور بعد ازاں برطانیہ سرکار ہندوستان پر قبضہ نہ کرتی تو ہندوستان کے سماج میں جاگیرداری اور قبائلی معاشی اور سیاسی رشتوں میں گرفت میں جکڑے رہنا تھا وہ کہتے ہیں کہ ہندوستان کی معیشت اور سماج میں ایسی قوتیں نموپذیر ہورہی تھیں جو اگے بڑھ کر جدیدیت کا رخ کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتی تھیں۔ ان کے نزدیک ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے جابرانہ قبضے سے ہندوستان کے سماج میں جاری قدرتی ارتقائی عمل کو بزور قوت روک دیا جس کی بنا پر ہندوستانی سماجی اور معیشت کی گروتھ رک گئی جس کے نتیجے میں سیاسی اور سماجی مسائل اور مشکلات پیدا ہوئیں۔
پبلشر:عکس پبلشرز گراونڈ فلور میاں چیمبرز ٹمپل روڈ لاہور
****
تحریر: لیاقت علی ایڈووکیٹ
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...